لاہور(ویب ڈیسک) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مزمل شبیر اختر نے درخواست پر سماعت کی، سماعت کے دوران عدالت نے راجہ ریاض کی اپوزیشن لیڈر تعیناتی کی مصدقہ کاپی پیش کرنے کا حکم دیا۔
توہین آمیز بیان پر سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی مصدقہ نقل طلب کی گئی، درخواست میں وفاقی حکومت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ راجہ ریاض نے سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا، راجہ ریاض نے ججز کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت راجہ ریاض کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرتے ہوئے قرار واقعی سزا دے۔دوسری طرف چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے حکومتی درخواست پر توہین عدالت کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب سب سے پہلے آپ کو سننا چاہتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ کا گزشتہ روز کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا، عدالت میں عمران خان کے گزشتہ روز کا خطاب بھی چلایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا ممکن ہے کہ عمران خان کو غلط بتایا گیا ہو، سپریم کورٹ نے آئینی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، ہمارے علم میں آیا ہے کہ جگہ جگہ آگ لگائی گئی، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسلسل شیلنگ کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام کو آئین کے آرٹیکل 15، 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں، ایگزیکٹو کوئی بھی غیر آئینی گرفتاریاں اور ریڈز نہ کریں، یہ مت بھولیں کہ اسی جماعت نے متعدد ریلیاں کی ہیں جس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ان ریلیوں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پاکستان کی عوام کی طرف اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے، پی ٹی آئی کو مثال بننا چاہیئے تھا، ایسے چلتا رہا تو صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کل کتنے افراد زخمی ہوئے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 31 پولیس افسران زخمی ہوئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہجوم بہت چارجڈ تھا، عام عوام بھی زخمی ہوئے ہوں گے، یہ لوگ بغیر قیادت کے تھے، اسلام آباد میں گرین بیلٹس کو آنسو گیس سے بچنے کے لیے جلایا جا رہا تھا، صورتحال کو صرف پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ہی کنٹرول کر سکتی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کل جو ہوا افسوسناک ہے، کل جو ہوا اس سے عدالت کا سیاسی جماعتوں پر اعتماد ٹوٹا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا کہ کیس کا ایسا حکم نامہ جاری کریں گے جو مستقبل کے لئے مثال بنے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت کے حکم کے باوجود عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک بھیجا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ سکیورٹی انتظامات کے رد و بدل کے بعد پی ٹی آئی ورکرز نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، فائر بریگیڈ کی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، مظاہرین نے درخت اور فائر بریگیڈ کی 2 گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور فائرنگ بھی کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے