مسلم لیگ ن کے صدر اور اتحادی جماعتوں کے نامزد امیدوار شہباز شریف دوسری بار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوگئے، قائد ایوان کی نشست بھی سنبھال لی, قومی اسمبلی کے ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس کی صدارت سپیکر سردار ایاز صادق کر رہے ہیں، اجلاس کے دوران اراکین قومی اسمبلی نے ووٹنگ کے ذریعے نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا، جے یو آئی کے اراکین وزیراعظم کے انتخاب کی کارروائی کا حصہ نہ بنے اور قومی اسمبلی ہال کے دروازے بند ہونے سے قبل جے یو آئی کے اراکین ہال سے باہر چلے گئے جبکہ سردار اختر مینگل ایوان میں بیٹھے رہے اور انہوں نے کسی کو بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا،سیکرٹری قومی اسمبلی نے ووٹوں کا ریکارڈ سپیکر کو پیش کر دیا۔
بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ میاں شہباز شریف 201 ووٹ لے کر قائد ایوان منتخب ہوئے جبکہ مدمقابل عمر ایوب خان نے 92 ووٹ حاصل کئے ہیں، سپیکر ایاز صادق نے جیسے ہی قائد ایوان کیلئے ہونے والی ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کیا تو ایوان ’شیر شیر‘ کے نعروں سے گونج اٹھا، مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے گھڑی چور کے نعرے لگائے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے ووٹ چور کے جوابی نعرے بلند کئے گئے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے قائد ایوان کے انتخاب کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، نوٹیفکیشن کے مطابق قومی اسمبلی نے شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب کیا، قائد ایوان کا انتخاب مکمل ہونے پر خط صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا۔
قبل ازیں اجلاس میں شرکت کیلئے قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف، صدر ن لیگ شہباز شریف، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، صدر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز آصف علی زرداری، خواجہ آصف، حمزہ شہباز اور دیگر اراکین قومی اسمبلی ایوان میں پہنچے، سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی بڑی تعداد بھی ایوان میں موجود تھی، نوازشریف اور شہباز شریف کی ایوان میں آمد پر لیگی اراکین نے ’شیر شیر‘ کے نعرے لگائے اور ڈیسک بجا کر استقبال کیا، اجلاس کے دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور اراکین نے اپنے ہاتھوں میں بینرز بھی اٹھا رکھے تھے ، اراکین نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کے حق میں نعرے بازی کی ۔
واضح رہے کہ حکمران اتحاد کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے شہباز شریف امیدوار تھے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عمر ایوب خان ان کے مدمقابل تھے، شہباز شریف کو پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم ، آئی پی پی اور دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل رہی جبکہ جے یو آئی نے وزیراعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ کیا۔
Discussion about this post