جعفری کے اوسان خطا ہو گئے، ادھر ادھر بھاگا پھرا، لیکن بات نہ بنی، پولیس میں رپورٹ درج کرانے سے گریز کیا جاتاتھا کہ عموماً بینک بدنامی سے بچنے کے لیے اپنے معاملات بہت کم پولیس کے پاس لے جاتے ہیں۔ جب بات پھیلی تو اس کے ساتھ شامیانے، کراکری اور فرنیچر وغیرہ والے متاثرہ لوگ بھی مل گئے، وہ ان کی بھی ادائیگیاں کئے بغیر بھاگ گئے تھے۔ سب نے مل کر کرائے پر ایک گاڑی حاصل کی اور تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے پاک افغانستان بارڈر کی طرف روانہ ہوگئے لیکن 8 گھنٹے بعد جب وہ طورخم بارڈر پہنچے تو دیر ہو چکی تھی، پتہ لگا کہ وہ صبح سویرے ہی یہاں سے بارڈر پار کر کے افغانستان میں داخل ہو گئے تھے۔ جعفری اور دوسرے متاثرین کے پاس چونکہ افغانستان میں داخلے کا کوئی ویزہ یا اجازت نامہ موجود نہیں تھا اس لیے مایوس ہو کر واپس آگئے۔
یہ رقم جعفری کی تقریباً 2 سال کی تنخواہ کے برابر تھی۔ ہم اتنی بڑی رقم چھپا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ کتابوں میں آ چکا تھا۔ ہم سب واقعی بہت پریشان تھے۔ میں نے ایسے موقعوں پر بولا جانے والا مکالمہ مشہور مکالمہ ”میں نے کہا تھا نا“ بھی نہیں بولا کہ اس کو مزید شرمندگی، رنج اور احسا س جرم ہو گا۔ جو ہونا تھا ہو چکا تھا، ہیڈ آفس خبر پہنچی تو انھوں نے اسے سخت وارننگ دی لیکن ایک سیٹھوں سے مسلکی تعلق رکھنے کے باعث اس سے کچھ نرمی برتی گئی اور آدھا نقصان خود بینک نے اپنے کھاتے میں ڈال دیا باقی جعفری کے نام پر قرض جاری کردیا گیا جو اسے قسطوں میں ادا کرنا تھا۔
ان دنوں بینک کی انتظامیہ کے تقریباً تمام سینئر عہدوں پر بشمول منیجروں اور آفیسروں کے اسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے حضرات کا کنٹرول تھا، اس لیے اکثر اپنے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ ہاتھ ہولا ہی رکھا جاتا تھا، اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ ہوتا تھا۔ جعفری کی جگہ کوئی ہمارے جیسا ملازم ہوتا تو کب کا نوکری سے فارغ ہو کر جیل جا چکا ہوتا۔
اس واقعہ کے بعد بھی جعفری تین چار مہینے وہاں رہا، لیکن اب اس کی سرگرمیاں بہت حد تک محدود ہو گئی تھیں، اس کی تقریباً آدھی تنخواہ زبردستی کے قرض پر اٹھ جاتی تھی باقی پیسوں سے تنہا ہونے کے با وجود مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔ دوسرا اس بار سیٹھوں کی طرف سے بھی اس کو ایک سنجیدہ قسم کی دھمکی ملی تھی، پھر بھی جب کبھی اسے موقع ملتا تو چوری چھپے اپنی کارروائی ڈال دیا کرتا تھا۔
مری میں سیزن شروع ہوتے ہی مہمان ہلا بول دیتے تھے، اس بات کا احساس ان کو ہی ہو سکتا ہے جو وہاں رہ چکے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی دوست یا رشتے دار سامان اُٹھا ئے پہنچ جاتا، سب کے پاس ایک ہی گھسا پٹا مکالمہ ہوتا تھا کہ”آپ بہت یاد آ رہے تھے سوچا مل آئیں“۔ ایک دن جب میں زبردستی کی اس مہمان نوازی سے بہت تنگ آیا ہوا تھا تو ایک کو تو میں نے کہہ بھی دیا کہ”کیا ہم لوگ سردیوں میں آپ کو یاد نہیں آتے“۔ میری مجبوری تھی کہ میرا بینک بیچ میدان میں کھڑا تھا کسی کو گھر ڈھونڈنے کی زحمت ہی نہیں کرنا پڑتی اور وہ تیر کی طرح سیدھے بینک پہنچ جاتے اور وہاں سے گھر منتقل ہونے کی خواہش کرتے۔
بعض حالات میں تو اتنے مہمان آ جاتے تھے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ان کو سوائے سونے، کھانے اور ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہونے کے اور کوئی کام نہیں تھا، ان میں سے بعض تو ہفتے بھر سے زیادہ قیام کا پروگرام بنا کر آتے تھے۔ واجبی سی آمدنی تھی اپنا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا کہاں سے اتنے لوگوں کا خرچہ پورا کرتے۔ جعفری سے کہہ کر 3 مہینے کی تنخواہ پیشگی حاصل کی۔ ہمیں یہ بات آدھاسیزن اور کافی سارا قرض اٹھانے کے بعد سمجھ آئی کہ یہاں ماتھے پر آنکھیں لگاناپڑیں گی تو گزارا ہوگا ورنہ زندہ رہنے والے کوئی حالات نہیں ہیں۔
14 اگست کو، جو سیزن کا عروج ہوتا ہے، ہمارے تھرڈ آفیسرہمدانی نے قسم کھا کر بتایا کہ اس روز اس کے گھر میں 52 مہمان ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ کیونکہ وہ راولپنڈی کا رہنے والا تھا اس لیے رشتے داروں اور دوستوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ صبح اس کی بیوی نے سب کا ناشتہ بنایا، برتن دھوئے اور عین اس وقت جبکہ وہ اتنے ہی لوگوں کے لیے دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھی وہ کام کے دباؤسے چکرا کر گری اور بے ہوش ہو گئی، وہ ان دنوں امید سے بھی تھی۔ہمدانی نے آنکھیں ماتھے پر لگا کر کچھ مہمانوں کو کہیں اور منتقل ہو جانے کا کہا۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Discussion about this post