Categories
منتخب کالم

سیاسی ہلچل: پاکستانی معشیت کیلئے خطرے کی گھنٹی بچ گئی، خوفناک اعدادوشمار منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) اسماء توحید اپنے کالم میں لکھتی ہیں کہ’’ انگلینڈ میں رہنے والابچہ اسکول سے واپس آیا تو بہت سارے محلے والوں اور رشتے داروں کو گھر میں اداس پایا جب کہ ماں بری طرح رو رہی تھی بچہ پریشان ہوگیا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ ماں نے آنسو روکتے ہوئے بمشکل کہا کہ

’’بیٹا! تمہارے بابا اب یہاں نہیں رہے۔وہ ایسی جگہ جا چکے ہیں جہاں نہ پانی ہے، نہ گیس نہ روٹی ، نہ رہنے کو مکان، نہ بجلی ، نہ کوئی سہولت وہاں ویرانی ہے۔‘‘جس پر بچے نے کہا ’’امی !کیا بابا پاکستان چلے گئے ہیں۔؟‘‘ صد افسوس مگر جی پاکستان اب ایسی ہی جگہ بن گیا ہے جہاں گیس ،بجلی، پانی اور ہر چیز نا پید ہو چکی ہے ، پاکستان کی معیشت تو آجکل صرف ملک کے لوگوں کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے disscission point بن چکی ہے۔ جون 2023 کو ختم ہونے والے رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت میں صرف دو فیصد اضافہ متوقع ہے۔ ورلڈ بینک کی اکتوبر 2022 کی پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ کے مطابق افراط زر اور سست شرح نمو نقصانات اور رکاوٹوں کی عکاسی کرے گی۔ تباہ کن سیلاب ایک سخت مالیاتی موقف ، بلند افراط زر اور کم سازگار عالمی ماحول کی وجہ سے بحالی بتدریج ہوگی ،مالی سال 2024 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے ۔ کمزور معیشتوں میں ایک چھوٹی سی سیاسی ہلچل ملک کے پورے ترقیاتی عمل کو متاثر کر سکتی ہے ، اقتصادی سرگرمیوں کی رفتار کو کم کر سکتی ہے مالیاتی شعبے میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر سکتی ہے اور ملک کی ترقی کو اقتصادی ترقی کی طرف موڑ سکتی ہے ۔پاکستان میں 2022-23 کے وفاقی بجٹ کے اعلان تقریبا تین ماہ قبل یہی ہوا۔ مخلوط حکومت کو پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا ہے بڑی عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ،ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور غیر ملکی وسائل کا خشک ہونا، ان تمام چیلنجز کے گرد قرض کے ڈیفالٹ کا ڈر ہے۔معاشی محاذ پر ،سال کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان کا نقطہ نظر بھیانک نظر آتا ہے ۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہمارا ملک قرض ادا کرنے سے قاصر ہے ،غیر ملکی ذخائر کی کمی ہے ناقابل برداشت اور آسمان کو چھوتی مہنگائی کچھ ماہ پہلے نومبر میں اس کا کنزیومر پرائس انڈیکس تقریبا 24 فیصد پر بیٹھ گیا جب اس کے مرکزی بینک نے افراط زر کو کم کرنے کے لیے غیر متوقع طور پر شرح سود میں اضافہ کیا۔ پاکستان کو مالی سال 2023 میں 26 ملین ڈالر سے زائد کا بین الاقوامی قرضہ واپس کرنا ہے ۔معاشی حالات پر جب جون 2022 میں اقتصادی سروے کروایا گیا تو McKinsey گلوبل سروے میں جواب دہندگان نے مہنگائی کو عالمی معیشت کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر دیکھا جغرافیائی اور سیاسی عدم استحکام اور سپلائی چین رکاوٹوں کو عالمی اور ملکی ترقی کے لیے سب سے بڑے خطرات کے طور پر دیکھتے تھے ۔ 2022 کے معاشی بحرانوں کی بات کریں تو پورے ملک نے شدید اقتصادی برے حالات دیکھے ۔خوراک تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یوکرین روس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا ڈسٹرب ہوئی اور ملک میں توانائی کے مسائل کو اور بھی بڑھا دیا کیونکہ افراط زر بلند رہی۔پاکستان کا معاشی آزادی کا اسکور 48.8 ہے جس سے اس کی معیشت انڈیکس میں 153 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان ایشیا پیسیفک خطے کے 39ممالک میں 34ویں نمبر پر ہے اور اس کا مجمو عی اسکور عالمی اوسط سے کم ہے ۔دل خون کے آنسو روتا ہے جب ہم دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی بات کرتے ہیں۔

اس کو دیکھا جائے تو وہ ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر پرفارم کر رہا ہے ۔ 1990 میں ہندوستان اور پاکستان کی فی کس جی ڈی پی تقریبا یکساں تھی جو کہ فی شخص 370 امریکی ڈالر سے کچھ کم تھی لیکن 2021 تک ہندوستان کی آمدنی 2,277 ڈالر تک پہنچ گئی ،جوپاکستان کے مقابلے میں 50 فیصد تک زیادہ ہے۔پاکستان 1971 کے بعد سے شاید سب سے سنگین بحران سے دوچار ہے ، سیاسی معیشت خود ساختہ زخموں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کا قد ڈھیر ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بحران مواقع کی صورت میں آتے ہیں عذاب اور اندھیروں کو دھکیلا جائے تو حا لات بہتر ہوجاتے ہیں کیونکہ جن معاشروں نے بہت ہنگامہ آرائی اور بحرانوں کا مقابلہ کیا ہے وہ بحال بھی ہوئے ہیں بلکہ عالمی برادری میں طاقتور اور با اثر قومیں بن گئے ہیں ۔ 1947میں اپنی آزادی کے وقت ، پاکستان کو غیر منقسم ہندوستان میں 921 میں سے صرف 34 صنعتی یونٹ وراثت میں ملے تھے۔برائے نام جی ڈی پی 1950میں 3 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 383بلین ڈالر ہوگئی جب کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 1950 میں 1.8 فیصد کے مقابلے میں2022 میں 5.97 فیصد ریکارڈ کی گئی، فی کس آمدنی 1950میں 86 ڈالر سے بڑھ کر 2022 میں 1,798 ڈالر ہوگئی۔ ٹیکس ریونیو 1950-202تک 0.31 بلین روپے سے بڑھ کر 6,126.1 بلین روپے تک پہنچ گئی،جب کہ 1949-50 میں زراعت کا کل حصہ جی ڈی پی کا 59.9 فیصد تھا۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ آزادی کے بعد مقامی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،کیونکہ بھارت نے اپنی پیدائش کے فورا بعد پاکستان کو اپنی دولت کا حصہ دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ مہاجروں کی آبادکاری کے ساتھ ملک کا شدید طور پر تباہ حال معاشی نظام نئے پیدا ہونے والے ملک کو درپیش بڑے چیلنجز تھے ،لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کی محنت کی وجہ سے معیشت بحال ہوئی اور ہم آگے بڑھے۔ ایسے ہی بڑے بڑے بیانات اور مسائل کے تذکرے اول دن سے لیکر آج تک آپ پڑھتے سنتے اور دیکھتے آئے ہوں گے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ مسائل اور معیشت کی زبوں حالی کیوں ختم نہیں ہوتی؟ ہر آنے والے حکمراں کو مسائل کے حل کیوں نظر نہیں آتے؟ آج پاکستان کو درپیش چیلنجز کی کثرت کو حل کرنے کے لیے راکٹ سائنس یا اہم ایجادات کی ضرورت نہیں ہے ۔جاری بحران سیاسی ،اقتصادی اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں برسوں سے جاری غیر معقول پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد حل یہ ہے کہ بنیادی طور پر تین اہم ڈومینز کو تبدیل کیا جائے جن میں خارجہ پالیسی معیشت اور گورننس ۔دیکھا جائے تو مخلص ہو کر جہاں اور جس نے جب بھی کام کیا ، اس کو کامیابی ہی ملی اور یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ؟ کیا ہمارے ملک کے بڑے لوگ خود تھوڑی سی قربانیاں دیکر ملک کو گرداب سے نہیں بچا سکتے؟ عوام ملک کے وجود میں آنے سے لیکر اب تک صرف بری خبریں سن رہے ہیں اور قربانیاں دے رہی ہے۔ ملک میں کرپشن اور چوری بڑے پیمانوں سے لے کر نیچے تک اب سب کی عادت ثانیہ بن گئی ہے اب کون آئے گا جو ہمارے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کوجھنجھوڑ کر کہہ سکے کہ وقت اب نہیں رہا کہ ہم ڈوب چلے ہیں۔ اب افسر شاہی اور مزے اور اللے تللے نہیں چل سکتے۔ خدارا ملک کے لیے ایک ہو کر سوچ لیں اور اس کو بچالیں، اس کی گرتی ساکھ اور معیشت کو سہارا دے دیں کہ پانی اب سر سے اونچا ہوگیا ہے اب کے حالات قابو سے باہر ہوئے تو نہ جانے کیا قیامت آجائے۔ دعا ہے پاکستان ان آزمائشوں سے نکل جائے۔( آمین، ثم آمین۔ )

Categories
منتخب کالم

’’سیاسی انجیرنگ ‘‘ کا کھیل جاری!!! ملک میں اصل طاقت کا مرکز کون ؟ رازوں سے پردہ اٹھ گیا

لاہور: (ویب ڈیسک) سلمان عابد اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” پاکستان کے داخلی، علاقائی یا خارجی حالات کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایک مضبوط سیاسی، معاشی اور انتظامی نظام کی طرف بڑھنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک مضبوط سیاسی نظام یا سیاسی حکومت درکار ہے۔ کمزور سیاسی و معاشی نظام ہمیں کوئی مثبت نتائج نہ پہلے دے سکا ہے اور نہ آیندہ دے سکے گا۔

ہماری سیاست میں عدم اعتماد، محاذ آرائی، مہم جوئی ، ٹکراؤ، سیاسی دشمنی یا سیاسی کشیدگی کا ماحول بھی قومی مفاد کے برعکس ہے۔ہم سیاسی، معاشی، انتظامی اور سیکیورٹی جیسے مسائل کو بنیاد بنا کر جہاں کھڑے ہیں اس سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوگا ، کون کرے گا، کب کرے گااو رکیوں کرے گا جیسے سوالات کی روشنی میں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کیونکر ان معاملات کے حل میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہماری سیاسی تاریخ سیاسی مہم جوئی یا سیاسی انجینئرنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم کسی کی حمایت میں یا کسی کی مخالفت میں اپنے سیاسی، انتظامی او رقانونی اقدامات کرتے ہیں ۔ ان موجودہ حالات میں ہمارا کمزور سیاسی نظام ہماری سب سے بڑی ناکامی بھی ہے۔ اس میں یہ اعتراف بھی کرنا ہوگا کہ جہاں اس کی ذمے داری اسٹیبلیشمنٹ پر عائد ہوتی ہے وہیں ہماری سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتیں سمیت دیگر فریقین بھی کسی نہ کسی حوالے سے ذمے دار ہیں۔ کیونکہ ہماری سیاسی کمزوری کی داستان کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی بلکہ اس میں سب نے ہی اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ۔اس لیے مسئلہ کا حل کسی ایک پر الزام دے کر آگے بڑھنے کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ سب کو سر جوڑبیٹھنا ہوگا کہ کیسے ہم خود بھی اور ملک کو بھی بحرانی کیفیت سے باہر نکال سکتے ہیں ۔ اگر پاکستان میں موجود تمام فریق اپنے اپنے سیاسی، انتظامی ، قانونی یا آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو حالات کو بہتری کی طرف جایا جاسکتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کی بجائے دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت کرکے کام کرنے کے عادی بن گئے ہیں۔ ہمیں دو سطحوں پر سیاسی مہم جوئی یا سیاسی انجینئرنگ کے بحران کا سامنا ہے ۔ اول اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی مداخلتوں کا کھیل ۔دوئم سیاسی قوتیں خود بھی سیاسی عمل میں جاری عمل کو کمزور کرنے یا کسی کی حکومت کو بنانے یا گرانے کے کھیل میں خود بھی سازشی کھیل کو ترتیب دینا یا کسی کا حصہ بننا بھی ہمارے سیاسی نظام کی کمزوری کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن شائد یا تو ہمیں انداز ہ نہیں یا ہم لاشعوری طور پر منفی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں یا ہمارے سامنے ریاستی، ملکی مفاد کے مقابلے میں ذاتیات پر مبنی سیاست نے اہمیت اختیار کرلی ہے ۔ ہماری اسٹیبلیشمنٹ کے بقول وہ سیاسی معاملات دور ہے۔ ایسا ہے تو یہ قابل تعریف ہے ۔ کیونکہ سیاسی عمل میں مداخلتوں کے کھیل نے ہمیں آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف دکھیلا ہے۔ لیکن اسٹیبلیشمنٹ کی یہ کمٹمنٹ جہاں قابل تعریف ہے وہیں اس پر عملدرآمد کا نظام یا اس پر ان کی مضبوط کمٹمنٹ جو عملی بنیادوں پرنظر آئے وہ بھی توجہ طلب ہے۔ اس وقت بھی ہماری سیاسی قیادت چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا حز ب اختلاف سے سب کی نظریں اسٹیبلیشمنٹ پر ہی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ اصل طاقت کا مرکز بھی یہ ہی ہیں ۔ لیکن سیاسی قوتوں کی خواہش یا فرمائش کے باوجود اسٹیبلیشمنٹ کو خود کو نیوٹرل رکھنا ہوگا۔یہ تاثر بہت مضبوط بنیادوں پر سیاسی قوتوں کو جانا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات خود حل کریں اور بلاوجہ سیاسی معاملات میں ہمیں مت الجھائیں ۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس انداز میں ہمارے اداروں او ربالخصوص سیکیورٹی اداروں پر سوشل میڈیا پر تنقید ہورہی ہے، وہ بھی ہماری ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔اس لیے اسٹیبلیشمنٹ سمیت عدلیہ جیسے اداروں کا بیک فٹ پر ہونا خود ان ہی ریاستی اداروں کے حق میں ہوگا۔ آج کل کراچی میں ایم کیو ایم کے مختلف گروپوں کا اتحاد ، سندھ کے گورنر کا متحرک کردار ، سابق گورنر چوہدری سرور، جہانگیر ترین کے حوالے نئی سیاسی پارٹی کی بازگشت،بلوچستان میں باپ پارٹی سمیت بہت سے لوگوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت ، ایسے واقعات ہیں جن پر سب لوگ اپنے اپنے انداز میں باتیں کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ سارا کھیل ظاہر کرتا ہے کہ ہم آج بھی قومی سیاست میں سازشی کھیل سمیت اپنے ذاتی مفاد یا پسند و ناپسند کی بنیاد کو فوقیت دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کھیل سے ہم قو می سیاست ، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت آئین کی بالادستی کی جنگ کو تقویت دے سکتے ہیں۔ اسی طرح کیا یہ سارا کھیل قومی معیشت اور سیکیورٹی کے معاملات میں بہتری کے نئے امکانات کو پیدا کرسکتا ہے تو جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ریاستی و سیاسی ترجیحات کو تبدیل کریں او رایک مستحکم سیاسی نظام کی طرف پیش رفت کی جائے ۔ بلاوجہ قومی سیاست یا ریاستی نظام کو تجربہ گاہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ اب موجودہ حالات میں ہم اس طرح کے نام نہاد او رناکام تجربوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہماری ترجیحات بدلنی چاہیے اور اس میں بنیادی کنجی سیاسی او رمعاشی استحکام کی ہونی چاہیے ۔ ہماری سیاسی اشرافیہ یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کی بھی انفرادی یا اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ قومی سیاست میں ’’سیاسی انجیرنگ ‘‘ کے کھیل کے آگے بندھ باندھیں اور سب فریقوں پر دباؤ ڈالیں کہ ہمیں صاف اورشفاف نظام اور انتخابی عمل میں بغیر کسی سیاسی مداخلت کے جانا چاہیے۔اس وقت بنیادی ذمے داری شفاف انتخابات اور انتقال اقتدار تک ہی محدود ہونی چاہیے ۔

Categories
منتخب کالم

کیا ن لیگ کے لئے وزارت عظمیٰ کا جال بچھایا گیا تھا؟جانیے اہم حقائق

لاہور(ویب ڈیسک) تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد فوری الیکشن میں جانے کی بجائے شدیدترین مالی بحران کا شکار ملک چلانے کا فیصلہ اگرچہ اپوزیشن اتحاد نے مل کر کیا تھا لیکن اس کی سب سے زیادہ سیاسی قیمت نون لیگ کو ادا کرنی پڑ رہی ہے جسے وزارت عظمیٰ کا بھاری پتھر چومنا پڑا اور آج وہ

معاشی بحران کی دلدل میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کی جانب سے اقتدار میں رہنے کے فیصلے کے پیچھے دراصل عمران خان کو الیکشن کے ذریعے واپس لانے اور دس سال تک اقتدار میں رکھنے کے منصوبے کا خوف بھی تھا جس کی بازگشت میڈیا میں ہوتی رہی ہے۔ اس منصوبے سے منسوب تھیوری یہ تھی کہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے آرمی چیف جنرل فیض حمید ہوں گے اور یوں ان کی زیر نگرانی آئندہ انتخابات جیت کر تحریک انصاف مزید پانچ برس کے لئے اقتدار میں آجائے گی۔ اس مبینہ دس سالہ منصوبے میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ درست ہے کہ ن لیگ سمیت تب کی اپوزیشن کو یہ خوف مسلسل لاحق تھا اور اسکا آف دی ریکارڈ اظہار اپوزیشن رہنماؤں نے بھی کیا تھا۔ بعد میں یہی خوف فوری الیکشن کے بجائے حکومت سنبھالنے کے فیصلے کا سبب بنا۔ اس کے پیچھے دیگر عوامل اور مجبوریاں بھی تھیں۔ تاہم بڑی وجہ دس سالہ منصوبے کا خوف تھا۔ عمران خان کی ناکام معاشی پالیسیوں کے باعث اس وقت پاکستان شدید ترین معاشی بحران میں پھنس چکا ہے اور نون لیگ کی قیادت مسلسل یہی رونا رو رہی ہے کہ اس نے ملک کی خاطر اپنا سیاسی کیپٹل داؤ پر لگا دیا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ موجودہ حالات میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان، کانٹوں بھری سیج کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس کی قیادت کو مکمل ادراک تھا کہ محض سوا برس کے اقتدار میں عوامی امنگوں پر پورا اترنا آسان نہیں ہوگا خصوصاً جب عمران خان نے پاکستان کو تاریخی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا تھا۔ ابتدا میں ن لیگ کی کوشش تھی کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب نہ سنبھالے۔ لیکن جب پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالنے پر اصرار کیا تھا تو نون لیگ کی جانب سے یہ آفر دی گئی کہ پیپلز پارٹی اپنا وزیر اعظم لانا چاہے تو اسے اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر اس فراخ دلی کے پیچھے جذبہ خیرسگالی نہیں بلکہ سیاسی قیمت چکانے کا خوف تھا۔ لیکن آصف زرداری نے یہ موقف اختیار کیا کہ قومی اسمبلی میں نون لیگ سے بڑی پارٹی ہے لہذا وزارت عظمیٰ اس کا حق ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف بھی وزیراعظم بننے کے متمنی تھے کیونکہ انہیں یہ موقع دوبارہ نہیں مل سکتا تھا ۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شہباز شریف پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ عمران خان انہی کو اپنا سب سے بڑا سیاسی مخالف سمجھتے تھے۔ لیکن نوازشریف وزارت عظمیٰ لینے کے حق میں نہیں تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ مرکزی دھارے کی بڑی پارٹیاں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے سے کترا رہی تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مختصر اقتدار میں کارکردگی دکھانے کے امکانات معدوم ہیں اور جو بھی پارٹی یہ بوجھ اٹھائے گی اسے اس کی سیاسی قیمت آئندہ عام انتخابات میں چکانی پڑے گی۔ تاہم اس بات پر سب جماعتوں کا اتفاق تھا کہ اگر عمران خان کو نومبر 2022 سے پہلے نکالا نہ گیا تو وہ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنا دیں گے

اور اگلے الیکشن میں دوبارہ 2018 کی طرح دھاندلی کے ذریعے دوبارہ برسر اقتدار آ جائیں گے۔ لہٰذا عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بے دخل کرنے کے بعد شہباز شریف کو کانٹوں کی سیج پر بٹھا دیا گیا کیونکہ راہیں تو مشکل تھیں لیکن انہیں مرنے کا شوق بھی تھا۔ اس مرحلے کے بعد اپوزیشن میں یہ بحث چلی کہ اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے یا نہیں۔ نواز شریف کا اصرار تھا کہ دو تین ماہ میں چند اہم اصلاحات کراکے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مطلوبہ کارکردگی نہ دکھائے جانے پر سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہوگا۔ کیونکہ حکومت کی کمان ان کے پاس ہے۔ لہذا وہ اقتدار کو طول دینے کے بجائے نئے الیکشن کے اعلان پر زور دے رہے تھے۔ اس بار بھی مولانا فضل الرحمن ان کے ہمنوا تھے۔ جے یو آئی کے ایک رہنما کے بقول پی ڈی ایم کے قیام سے پہلے ان کی جماعت نے انفرادی طور پر ملک بھر میں عمران حکومت کے خلاف پے درپے جو جلسے اور پھر آزادی مارچ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔ اور وہ اپنی اس مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ تاکہ عام انتخابات میں اسے کیش کرایا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار اتحادی حکومت کی کامیابی پر تھا۔ ناکامی کے اثرات نون لیگ کے بعد سب سے زیادہ اسی پر آنے تھے۔ اس کے بر عکس پیپلز پارٹی کو بظاہر اتنا فرق نہیں پڑنا تھا کہ کم از کم صوبہ سندھ اب بھی اس کا محفوظ سیاسی قلعہ ہے۔ جے یو آئی رہنما کے بقول اس سوچ کو لے کر

مولانا فضل الرحمن بھی اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن میں جانے سے متعلق نواز شریف کی تجویز کی تائید کر رہے تھے۔ تاہم قبل از وقت انتخابات میں جانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے لئے گھاٹے کا سودا تھا کیونکہ نون لیگ اور جے یو آئی کے برعکس وہ ایک صوبے کی حکمراں ہے۔ قصہ مختصر، عمران خان نے نئے الیکشن کے لئے حکومت مخالف تحریک چلائی تو آصف زرداری اور نواز شریف نے دباؤ میں آ کر الیکشن کروانے کی بجائے مخلوط حکومت کو طول دینے کا فیصلہ کیا جو کہ ایسے ماحول میں عمران خان کی کامیابی یقینی تھی۔ یہ سوچ بھی غالب تھی کہ اقتدار میں رہ کر اور مرضی کا آرمی چیف لگا کر مبینہ دس سالہ منصوبے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یوں مخلوط حکومت کو برقرار رکھا گیا اور پھر وہی ہوا، جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا۔ آج لگ بھگ نو ماہ گزر جانے کے باوجود مخلوط حکومت سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہوچکی ہے اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہو رہا ہے۔ سب کی انگلیاں اس کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ایسے میں نون لیگ کی لندن میں موجود قیادت حیران و پریشان ہے کہ ’’جائے تو جائے کہاں؟‘‘۔

Categories
پاکستان منتخب کالم

سیاستدان خود کو لڑانے والوں کا نام کیوں نہیں لیتے؟سینئر صحافی حامد میر نے بڑے راز سے پردہ اٹھا دیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاست دان آپس میں تو لڑتے رہتے ہیں لیکن جمہوریت کو پامال کرنے والوں کا نام نہیں لیتے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آج بھی جناح کے پاکستان میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ نہیں ہے؟

انکا کہنا ہے کہ خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے مسلم لیگی اپنے سیاسی مخالف عمران خان کے بارے میں سچ ضرور بولیں، لیکن تھوڑا سا سچ جنرل باجوہ کے بارے میں بھی بولیں جن کے دور میں اس تاثر کو تقویت ملی کہ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ کر دیا گیا ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جنرل قمر باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل شہباز شریف کو مارشل لا کے نفاذ کی دھمکی نہیں دی تھی اور کیا باجوہ اپنے ادارے کے نیوٹرل ہو جانے کے اعلان کی خود خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے؟ حامد میر کہتے ہیں کہ ابھی تک نہ تو عمران خان نے جنرل باجوہ کے بارے میں اصل سچ بولا ہے اور نہ ہی شہباز شریف نے کچھ بتایا ہے۔ یہ لوگ آپس میں لڑے جا رہے ہیں لیکن لڑانے والے کے بارے میں خاموش ہیں۔ یہی ہماری جمہوریت کا اصل المیہ ہے۔ حامد میر اپنی تازہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک صدی کا قصہ ہے، دوچار برس کی بات نہیں۔ 20 دسمبر 1972 کو پنجاب اسمبلی کے عقب میں کوپر روڈ پر تب کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپوزیشن کی ایک توانا آواز، خواجہ محمد رفیق کے سینے پر گولیاں برسا کر انہیں خاموش کروا دیا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ خواجہ محمد رفیق کی تب کے حکمران ذوالفقار علی بھٹو سے کیا لڑائی تھی؟ خواجہ رفیق کی پچاسویں برسی پر منعقدہ تقریب میں خواجہ صاحب مرحوم پر کم اور عمران خان پر زیادہ باتیں ہوئیں۔ خواجہ صاحب کے برخودار خواجہ سعد رفیق اس تقریب کے میزبان اور وزیر دفاع خواجہ محمد آصف تقریب کی صدارت فرما رہے تھے۔

دونوں نے عمران خان پر تاک تاک کے نشانے لگائے۔ نشانے بازی کے اس مقابلے میں مجھے بھی گفتگو کا موقع ملا اور میں نے سامعین کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ خواجہ رفیق کون تھے؟ ہمارے اس بزرگ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے اننت ناگ سے امرتسر آ کر آباد ہونے والے ایک خاندان سے تھا جو دہلی ، بھوپال اور ممبئی میں پشمینہ شالوں کا کاروبار کرتا تھا۔ خواجہ رفیق ایم اے او کالج امرتسر میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں سرگرم تھے اور تحریک پاکستان سے وابستہ تھے۔ خواجہ رفیق کے والد خواجہ غلام محمد انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ بھیجنا چاہتے تھے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے نوجوان خواجہ محمد رفیق کو پنجاب کے وزیر اعظم خضر حیات ٹوانہ کے خلاف تحریک چلانے کا حکم دیدیا۔ خواجہ صاحب نے متحدہ پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعظم کے خلاف جلسے جلوسوں میں شعلہ بیانی شروع کی اور گورداسپور جیل جا پہنچے۔ وہ برطانیہ جانے کی بجائے پاکستان بنانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ پاکستان بن گیا تو مہاجر بن کر لاہور آ گئے۔ امرتسر، دہلی، بھوپال اور ممبئی میں اپنے خاندان کی جائیدادوں کے کاغذات دکھا کر لاہور میں بہت کچھ لے سکتے تھے لیکن اس مرد درویش نے اندرون لوہاری دروازے میں ایک دس مرلے کے مکان پر اکتفا کیا۔ قائداعظمؒ کی وفات کے بعد حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ بنائی تو خواجہ رفیق نے شیخ مجیب الرحمٰن، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مولانا عبدالستار نیازی کے ہمراہ اس نئی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ حامد میر بتاتے ہیں کہ 1958 میں جنرل ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگایا تو خواجہ رفیق اس فوجی ڈکٹیٹر کو للکارنے والوں میں پیش پیش تھے۔

اس دور میں حسین شہید سہروردی سے لے کر خواجہ رفیق تک تحریک پاکستان کے درجنوں رہنمائوں پر غداری کے مقدمے بنائے گئے۔ وہ جس شہر میں ڈکٹیٹر کے خلاف تقریر کرتے وہاں مقدمہ قائم ہو جاتا۔ خواجہ صاحب ڈھاکہ، کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں دو درجن مقدمات بھگتے رہے۔ انہیں ملتان، ساہیوال اور بہاولپور کی جیلوں میں بند رکھا گیا۔ انہی دنوں 23 دن کی بھوک ہڑتال بھی کی اور بیمار پڑ گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو خواجہ رفیق اور کے ایچ خورشید نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں مادر ملت کی انتخابی مہم چلانا شروع کر دی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے خواجہ رفیق کا اختلاف اسی انتخابی مہم میں ہوا۔ جب خان عبدالغفار خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری اور شیخ مجیب الرحمٰن نے مادر ملت کی حمایت شروع کی تو جنرل ایوب خان نے مادر ملت کو غدار قرار دیدیا۔ بھٹو صاحب ایوب خان کے ساتھی تھے اور خواجہ رفیق نے ایوب کے کسی ساتھی کو کبھی معاف نہ کیا۔ بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کے خلاف وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیدیا تو خواجہ صاحب بھی معاہدہ تاشقند کی مخالفت کر رہے تھے۔ حامد میر بتاتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کئے تو خواجہ صاحب نے اپنے پرانے دوست کو سمجھانے کی کوشش کی۔ شیخ صاحب نہ سمجھے تو خواجہ رفیق نے سیاسی راستہ بدل لیا لیکن شیخ مجیب ان کی اتنی عزت کرتے تھے کہ 1970 کے انتخابات کے بعد انہیں ڈھاکہ سے اپنی خالی نشست پر منتخب کرانے کی پیشکش کی۔

خواجہ صاحب نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی لیکن اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ جنرل یحییٰ خان نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے کی بجائے اس جماعت کے خلاف فوجی آپریشن کر دیا۔ متحدہ پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد بھٹو صاحب صدر مملکت کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بن گئے۔ 20 دسمبر 1972 کو بھٹو صاحب کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہو گیا تھا اور خواجہ رفیق نے بھٹو کے اقتدار کی پہلی سالگرہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا تھا۔ اس دن خواجہ صاحب نے وہی سوٹ پہن رکھا تھا جو انہوں نے اپنی شادی پر سلوایا تھا، سر پر جناح کیپ سجا رکھی تھی۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے پاکستان کو مارشل لا قوانین کی بجائے نئے آئین کے ذریعہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ تقریر کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ان پر گولیاں برسا دی گئیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جن جرنیلوں کی مدد سے بھٹو اقتدار میں آئے انہی جرنیلوں نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان آنکھ مچولی آج بھی جاری ہے۔ خواجہ رفیق کی پچاسویں برسی پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اس تقریب میں تالیاں بھی بڑی احتیاط سے بچا رہا تھا کیونکہ مجھ پر تالیاں بجانے کے الزام میں بھی مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔ وزیر دفاع کی صدارت میں ہونے والی تقریب کے ڈائس سے حکومت کی ایک اتحادی جماعت کے رہنما کی یہ بات سن کر کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے؟ پچاس سال پہلے خواجہ رفیق کو سیاسی اختلاف کی وجہ سے گولی مار دی گئی۔

پچاس سال بعد خواجہ رفیق کی برسی پر خالد مقبول صدیقی وزیر دفاع کی موجودگی میں بتا رہے تھے کہ وطن عزیز میں تالیاں بجانے پر بھی مقدمے قائم ہو جاتے ہیں۔ وزیر دفاع نے اس تقریب میں عمران کو جیب کترا تو کہہ دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان کی اتحادی جماعت تالیاں بجانے میں اتنی محتاط کیوں ہو چکی ہے؟

Categories
منتخب کالم

جنرل باجوہ اور فیض حمید نے عمران کو نااہلی سے کیسے بچایا؟جاوید چوہدری نے اندر کی کہانی بتا دی

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سال 2017 میں اپنے اثاثے چھپانے کے الزام پر عمران خان کو اہل اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہیں بلکہ دو وکلاء نے لکھا تھا جنہیں یہ ذمہ داری تب کے ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس میجر جنرل فیض حمید نے تفویض کی تھی۔

اس سے پہلے عمران خان نے جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ انہیں اس کیس میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے سے بچایا جائے۔ یہ ہوشربا انکشاف کرتے ہوئے سینئر اینکر پرسن اور صحافی جاوید چوہدری اپنی تازہ تحریر میں بتاتے ہیں کہ عمران کی باجوہ سے ملاقات ان کے ساتھی جہانگیر خان ترین نے کروائی تھی جسکے بعد جنرل باجوہ نے عمران کے حق میں فیصلہ کروانے کے لیے جنرل فیض حمید کی ڈیوٹی لگائی۔ جاوید چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کو دو وکیل دیے گئے جنہوں نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی قسمت کا فیصلے لکھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ثاقب نثار دونوں میں سے کسی ایک کو نااہل قرار دینا چاہتے تھے، چنانچہ فیض حمید کی جانب سے مہیا کردہ وکلا نے ایسا ہی فیصلہ لکھا جو ثاقب نثار نے صرف پڑھ کر سنایا۔ حال ہی میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کی ذاتی رہائش گاہ پر 6 گھنٹے طویل ملاقات کرنے والے جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اپنے مخالف سیاست دانوں کو این آر او لینے کے طعنے دینے والے عمران خان نے خود 2017 میں جنرل قمر جاوید باجوہ سے این آر او حاصل کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ نااہلی سے بچ گئے تھے اور اگلے برس انہیں وزارت عظمیٰ پر فائز کر دیا گیا تھا۔ عمران کے این آر او کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جاوید کہتے ہیں کہ مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی نے نومبر 2016 میں سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دو پٹیشنز دائر کیں۔ حنیف عباسی کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی لندن والی آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ اور بنی گالا کی تین سو کنال اراضی کی منی ٹریل چھپائی۔

انکا دوسرا الزام یہ تھا کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے بھی اپنی آف شور کمپنیاں، بیرون ممالک اثاثے اور ساڑھے اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی چھپائی، لہٰذا یہ دونوں حضرات آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اور انہیں نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ تب ثاقب نثار چیف جسٹس‘ قمر جاوید باجوہ آرمی چیف اور میجر جنرل فیض حمید اور آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے۔ جنرل باجوہ کے ایما پر فیض حمید کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنا دیا۔ نعیم بخاری خان صاحب کے اور اکرم شیخ حنیف عباسی کے وکیل تھے‘ سماعت شروع ہوئی تو عمران اور ترین پھنستے چلے گئے۔عمران خان نے تین بار اپنا موقف تبدیل کیا لیکن بات بنتی نظر نہ آئی‘ عمران کی 2017 کے وسط تک جنرل باجوہ سے کوئی ملاقات نہیں تھی‘ جہانگیر ترین نے جنرل قمر باجوہ سے رابطہ کیا اور عمران کو ساتھ لے کر ان کے گھر پہنچ گئے۔ عمران خان نے جنرل باجوہ سے مقدمے میں مدد مانگی‘ نواز شریف اس وقت تک پاناما کیس میں ڈس کوالیفائی ہو چکے تھے اور عمران کی ڈس کوالیفکیشن سامنے نظر آ رہی تھی۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کو عمران خان کی مدد کرنے کی ہدایت کر دی۔ ان کا خیال تھا کہ ایک وزیراعظم ڈس کوالیفائی ہو چکا ہے اور اگر عمران بھی الیکشن سے پہلے ہی ڈس کوالیفائی ہو گیا تو پاکستان کیسے چلے گا؟ فیض حمید نے ملک کے ایک مشہور وکیل کو اپنا ایلچی بنا کر چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس بھجوا یا۔

یہ وکیل صاحب لاہور میں چیف جسٹس سے ملے‘ ابتدائی بات چیت ہوئی۔اس کے بعد فیض حمید اور ثاقب نثار کی ملاقات ہوئی‘ بابا رحمتے کہلانے والے تب کے چیف جسٹس عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں کو بیک وقت صادق اور امین ڈکلیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا میرے ساتھی جج نہیں مانیں گے لہذا آپ دونوں میں سے کسی ایک کو بچا لیں‘ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ عمران کو بچایا جائے اور جہانگیر ترین کو قربان کر دیا جائے۔ جاوید چوہدری دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے بعد چیف جسٹس کو دو وکیل دیے گئے جنہوں نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی قسمت کا فیصلے لکھا۔ 15 دسمبر 2017 کو فیصلہ سنانے کا اعلان ہوا۔ فیصلے کا وقت آ گیا لیکن ججز کورٹ نمبر ایک میں تشریف نہیں لائے‘ ٹیلی ویژن سکرینیں گرم ہو گئیں اور اسلام آباد‘ راولپنڈی اور بنی گالا میں دوڑیں لگ گئیں‘ دوبارہ رابطے ہوئے اور یوں 3 بج کر 20 منٹ پر عمران خان کو صادق اور امین ڈکلیئر کر دیا جب کہ جہانگیر ترین مجرم قرار پا کر سیاست سے تاحیات نااہل ہو گئے۔ ترین ’’بیلنسنگ ایکٹ‘‘ کا شکار ہو گئے‘ اس فیصلے کے چند دن بعد عمران شکریہ ادا کرنے ایک بار پھر جنرل باجوہ کے گھر گئے اور ان سے فرمائش کی’’ہم نے جہانگیر ترین کو ضرور بچانا ہے کیونکہ میں اسکے بغیر حکومت نہیں چلا سکوں گا۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ فیض حمید کو ایک بار پھر ٹارگٹ دے دیا گیا، لیکن پھر فروری 2018 میں عمران کا بشریٰ بی بی سے نکاح ہو گیا‘

مارچ میں عمران کی جنرل باجوہ سے تیسری ملاقات ہوئی جس میں جہانگیر ترین کا ذکر آیا تو عمران نے کہا ’’جنرل صاحب آپ اس کو ابھی رہنے دیں‘ ہم مستقبل میں دیکھیں گے‘‘۔ باجوہ یہ سن کر حیران رہ گئے‘ یہ ان کے لیے عمران کی جانب سے پہلا دھچکا تھا کیونکہ ترین وہ شخص تھا جس نے انہیں جنرل باجوہ سے ملوایا تھا۔ اس لیے جب جنرل باجوہ خود عمران خان کے ہاتھوں احسان فروشی کا شکار ہوئے تو یہ انکے لیے کوئی سرپرائز نہیں تھا۔جب اسٹیبلشمنٹ نے جہانگیر ترین کو ٹٹولا تو پتا چلا کہ بشریٰ بی بی کے سابق خاوند خاور مانیکا کا ایک بھائی ترین کا پرانا دوست ہے۔ اس نے انھیں بتایا کہ آپ کے گھر جادو ٹونا پہنچ چکا ہے اور آپ اب برباد ہو جائیں گے۔ ترین نے یہ بات عون چوہدری کو بتا دی‘ عون نے عمران خان کو بتا دیا اور یوں جہانگیر ترین کا پتہ کٹ گیا۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ترین تب تک بشریٰ بی بی سے نہیں ملے تھے۔ ان کی خاتون اول سے پہلی ملاقات 18 اگست 2018 کو ایوان صدر میں وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں ہوئی ‘ بشریٰ بی بی نے اس دن سفید عبایا اور سفید نقاب پہن رکھا تھااور یہ پہلی قطار میں جنرل باجوہ کی بیگم کے ساتھ بیٹھی تھیں‘ وزیراعظم حلف کے بعد فوری طور پر اسٹیج سے اتر کر اپنی بیگم کے پاس آئے اور انھیں مبارک باد پیش کی۔ بشریٰ بی بی بعدازاں جہانگیر ترین کے پاس گئیں اور ان سے کہا

’’میں آج سفید لباس اس لیے پہن کر آئی ہوں تاکہ آپ کا یہ شک دور کر سکوں‘ میں جادوگرنی نہیں ہوں‘‘ یہ سن کر جہانگیر ترین کو محسوس ہوا ’’کہ میں آج سے عمران خان سے فارغ ہو چکا ہوں‘‘۔ انکا یہ خدشہ سو فیصد سچ ثابت ہوا۔ آنے والے دنوں میں واقعی عون چوہدری اور جہانگیر ترین دونوں فارغ ہو گئے۔

Categories
اسپیشل سٹوریز منتخب کالم

سردی میں فل گرما گرم ماحول!! عمران اور بشریٰ کی آڈیوز کے بعد پرویزالٰہی کی آڈیوز کی گونج

اسلا م آباد(ویب ڈیسک) سابق وزیراعظم عمران خان کی دو خواتین کے ساتھ نازیبا آڈیو گفتگو سامنے آنے کے بعد اب پنجاب میں ان کے دست راست وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی بھی ایک خاتون کیساتھ گندی آڈیو گفتگو پکڑے جانے کی خبر سامنے آ گئی ہے جس کا انکشاف معروف صحافی عمران شفقت نے کیا ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کو ووٹ دینے والوں

کیخلاف دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے فتوے دینے والے خان صاحب کی اپنی گندی آڈیو سامنے آئیں تو موصوف کو دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے حوالے سے قرآنی آیات یاد آ گئیں۔ عائلہ اور فریحہ نامی خواتین کے ساتھ اپنی گندی ترین گفتگو پر مبنی آڈیوز لیک ہونے کے بعد شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے کپتان نے فرمایا کہ پاکستان کی اکثریتی آبادی پر مشتمل نوجوان نسل کو غلط پیغام دیا جا رہا ہے اور انہیں اخلاق باختگی پر اکسایا جا رہا ہے۔ یعنی خان صاحب کا موقف یہ ہے کہ ایک پرائی عورت کے ساتھ فون پر گروپ سیکس ڈسکس کرنا تو ہر گز قابل اعتراض نہیں لیکن ایسی واحیات گفتگو کی آڈیو لیک کرنا غلط ہے۔ یکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حمام میں صرف خان صاحب ہی نہیں بلکہ ان کے دیگر ساتھی بھی ایک ایک کر کے ننگے ہو رہے ہیں۔ سینئر صحافی عمران شفقت نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ پنجاب کے ایک بڑے چوہدری کی ایسی آڈیو ریکارڈنگز لگ گئی ہیں جن میں وہ ایک خاتون کے ساتھ ویسی ہی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں جیسی کہ خان صاحب اپنی آڈیوز میں کرتے سنائی دیے تھے۔ عمران شفقت نے اپنے وی لاگ میں پنجاب کے اس بڑے چوہدری کا نام تو نہیں دیا لیکن یہ ضرور بتایا ہے کہ موصوف اپنی کم عمر دوسری بیوی کے ساتھ اس کی تین سہیلیوں نیہا، آمنہ اور علینا کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے گندے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ چوہدری موصوف کی گفتگو بھی انہی لائنز پر سنائی دیتی ہے

جن لائنز پر عمران خان عائلہ ملک کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ ان کی بہن کے ساتھ بھی مل جل کر اچھا ٹائم گزارنا چاہتے ہیں۔ جواب میں عائلہ نے کہا تھا کہ وہ اپنی بہن سے بات کریں گی لیکن اس کا ایک بوائے فرینڈ بھی ہے۔ اس پر کپتان موصوف نے کہا تھا کہ اس کو کون سا پتہ چلنا ہے۔ دوسری جانب اب یہ معلوم ہوا ہے کہ عمران شفقت نے پنجاب کی جس شخصیت کی آڈیوز کا ذکر کیا ہے وہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ گفتگو کے ٹرانسکرپٹ کے مطابق بڑے چوہدری کو لڑکیوں کے ریٹ بھی بتائے جا رہے ہیں اور یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ کس کام کا کتنا معاوضہ وصول کرتی ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ موصوف تقریبا ًروزانہ ہی فون پر ‘ڈرٹی ٹاک’ کرتے ہیں اور ان کے ذہن پر بھی اتنی ہی گندگی سوار رہتی ہے جتنی کے ان کے نئے قائد خان صاحب کے دماغ پر۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ پنجاب کے بڑے چوہدری کی یہ غلیظ آڈیوز کب لیک کی جائیں گی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر یہ آڈیوز سامنے آگئیں تو موصوف گھر والوں اور باہر والوں دونوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گجرات کے چوہدری خاندان میں پڑنے والی دراڑ کی بڑی وجہ سیاسی اختلافات کے علاوہ خاندانی اختلافات بھی ہیں جو پرویز الٰہی کی دوسری شادی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ یاد رہے کہ پرویز الٰہی کی پہلی اہلیہ چوہدری شجاعت حسین کی بہن

اور چوہدری ظہور الٰہی کی بیٹی ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی دو سگے بھائیوں چوہدری ظہور الٰہی اور چوہدری منظور الٰہی کے صاحبزادے ہیں۔ باوثوق ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے 72 برس کی عمر میں ایک 28 سالہ طلاق یافتہ سے دوسری شادی کر رکھی ہے جس کے پہلے سے دو بچے ہیں۔ ماضی قریب میں وہ اسی اہلیہ کے ساتھ لندن کی سیر کرنے گئے تھے۔ لاہور کی رہائشی اس خاتون کا نام سائرہ چودھری ہے اور نیہا، آمنہ اور علینا کا شمار موصوفہ کی بہترین سہیلیوں میں ہوتا ہے۔

Categories
پاکستان منتخب کالم

پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو انکا مستقبل کیا ہوگا؟پنجاب کی نئی صورتحال سے متعلق جانئے چشم کشا حقائق

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے گورنر پنجاب کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اجلاس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار تو کر دیا ہے لیکن وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے

کہ اگر پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو ان کی وزارت اعلیٰ ختم ہو جائے گی اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو تالے لگا دیے جائیں گے۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سبطین خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے سے ہی جاری ہے اور گورنر کی ایڈوائس پر نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ ان کے اس بیان پر وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا مؤقف درست نہیں اور ضوابط اور آئین کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 21 دسمبر چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس نہ ہوا اور اس میں وزیرِ اعلیٰ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر پرویزالٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تو نہ تو وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گھس سکیں گے اور نہ ہی ان کو وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ہم وزیراعلیٰ ہاؤس کو تالے لگا دیں گے۔ یاد رہے کہ گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد انھیں ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریری ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور گورنر اس خیال سے متفق ہیں کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے آئین کے آرٹیکل 130 (7) کے تحت وہ 21 دسمبر کو شام چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر رہے ہیں جس میں وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں۔دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ پرویز الٰہی کا پی ڈی ایم کے ساتھ معاملہ طے ہو چکا ہے اور دونوں کا بنیادی مقصد پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانا ہے۔

دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ نواز کے ڈیڑھ درجن صوبائی ارکانِ اسمبلی کی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر پابندی کو معطل کرتے ہوئے انھیں 21 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ جسٹس شاہد بلال اور جسٹس رسال حسن سید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سپیکر کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ تمام ارکان بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور اگر اجلاس میں ووٹنگ ہوئی تو یہ ارکان ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے ن لیگ کے 18 ارکانِ پنجاب اسمبلی پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی لگائی تھی۔ اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپیکر کے لیے ضروری ہے کہ پابندی سے پہلے دو وارننگز دے اور وہ رکنِ اسمبلی کو 15 دن کے لیے معطل کر سکتا ہے۔ رکن پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بظاہر تو 15 دن کا وقت پورا ہو چکا ہے تو کیا پابندی کے خلاف درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے جس پر رانا مشہود کے وکیل کا کہنا تھا کہ پابندی کی مدت تو بظاہر پوری ہو چکی ہے لیکن قانونی سوال برقرار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ارکان پر اجلاس میں شرکت پر پابندی نہیں ہے تو ہماری درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ عدالت کی جانب سے

جب سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل سے پوچھا گیا کہ 15 دن اور 15 نشستوں پر سپیکر کا کیا مؤقف ہے تو امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کا ایک حقیقی اور ایک قانونی پہلو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سپیکر کی مرضی ہے کہ وہ ان ارکان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں اور یہ ان ارکان کے رویے پر منحصر ہے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے ارکان کے وکیل نے کہا کہ اس طرح تو یہ درخواست ابھی غیر مؤثر نہیں ہے۔ منصور اعوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کل وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہے جس میں درخواست گزاروں کو اپنے ووٹ کا حق کا استعمال کرنا ہے۔ اس سماعت کے بعد عدالت نے 18 ارکان کے اجلاس پر پابندی کے نکتے پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور کچھ دیر بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مسلم لیگ ن کے 18 ارکان کو بدھ کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بدھ کو پنجاب کی سیاست کیا صورت اختیار کرتی ہے؟

Categories
منتخب کالم

مسلم لیگ ن اختر لاوا سے لاہور کا پاوا کیسے بن سکتی ہے؟؟

لاہور(ویب ڈیسک) معروف صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ اگر مسلم لیگ نون نے اگلے الیکشن میں پنجاب کو فتح کرنا ہے تو یہاں کے عوام کو کوئی سیاسی بیانیہ دینا ہو گا، اسے مزاحمت کا نعرہ تخلیق کرنا ہو گا اور مفاہمت سے جان چھڑانا ہو گی،

تاہم اگر ایسا نہ کیا گیا تو ن لیگ پنجاب میں ’’لاہور دا پاوا ‘‘ جیسی ٹک ٹاک ویڈیوز تو بے شمار بنا لے گی لیکن الیکشن نہیں جیت سکے گی۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پنجاب کے عوام کو ان کا حق نہ دینے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ کوئی نیا انکشاف نہیں بلکہ یہ سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے سے جاری ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجاب صرف ن لیگ کا گڑھ نہیں بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا قلعہ بھی ہے۔ اس قلعے کی سیاسی قوتوں میں شگاف ڈالنے کی روایت پرانی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں پہلے مارشل لاکے حواری اس قلعے پر قابض رہے پھر ق لیگ دریافت کی گئی۔ ن لیگ کو انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا اور اسکے کارکنوں اور قیادت کو صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ پیپلز پارٹی کا دور آیا، پنجاب کی حکومت تو ملی مگر ہر وقت گورنر راج کا خطرہ منڈلاتا رہا ۔ عمار مسعود کہتے ہیں کہ 2013 کے بعد جیسے ہی ن لیگ کو حکومت ملی، عمران خان دھرنا لیکر وفاق پر چڑھ دوڑے۔ وہ جو خدمت کو عزت دینے کی بات کرتے تھے، وہ چور، ڈاکو، لٹیرے کے نام سے بدنام کر دیئے گئے۔ کبھی پاناما آیا کبھی اقامہ لیکن ایک دن بھی سکون سے حکومت نہیں کرنے دی گئی، جو پروجیکٹ اس دوران ن لیگ نے مکمل کئے وہی آج تک پنجاب کا اثاثہ ہیں، اسکے علاوہ ترقی کے نام پر بس کاغذی کارروائی ہی ہوئی ہے۔

عمران خان کے دور میں عثمان بزدار جیسے کمزور شخص کو وزیر اعلیٰ لگانے کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ اس کو فرنٹ مین بنا کر خوب من مانی کی جائے، جس طرح پنجاب کو اس دور میں لوٹا گیا اسکی مثال نہیں ملتی ۔ اہل پنجاب جو شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی کے عادی تھے وہ سلطنت ایک مٹی کے مادھو کے حوالے کر دی گئی۔ پنجاب پر ن لیگ نے بہت عرصہ حکومت کی ہے اور اس دوران بہت سارے اچھے اچھے کام بھی ہوئے ہیں مگر اس کا کریڈٹ نہ دینے کا فیصلہ کہیں ہو چکا ہے۔ کسی زمانے میں پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ بھی رہا ہے لیکن 2013 کے بعد رفتہ رفتہ پنجاب میں پیپلز پارٹی دم توڑ گئی۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کی کئی کوششیں کیں مگر ان میں سنجیدگی نہیں نظر آئی۔ پیپلز پارٹی پنجاب کا زیادہ تر ووٹر بدظن ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے، اس سیاسی خلا کو تحریک انصاف نے پر کردیا ہے۔ عمار مسعود کہتے ہیں کہ 2018 کے بدنام زمانہ الیکشن میں جہاں دھاندلی کی بہت سی شکایات ملیں، وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ پی ٹی آئی پنجاب میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی اگرچہ نادیدہ ہاتھ ملوث ہونے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اپنے ہی قلعے میں 20 میں سے 17 نشستیں ہار جانا نون لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہےجبکہ قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں بھی صورت حال مختلف نظر نہیں آئی۔ 2023 کے عام انتخابات کب ہوتے ہیں کسی کو علم نہیں ۔

اس وقت عمران کی خواہش ہے کہ حکومت کو معیشت کی بحالی کا وقت نہ ملے اور حکومت کی تمنا ہے کہ اسکی میعاد میں جتنا اضافہ ہو سکے اتنا بہتر ہے۔ خان صاحب کبھی کوئی اسمبلی توڑنے کی نوید سناتے ہیں کبھی کسی نئے فتنے کو آواز دیتے ہیں۔ ان حالات میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ گومگو میں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب بھی الیکشن ہونے ہیں، کیا ن لیگ انکے لئے تیار ہے؟ کیا وہ صرف نواز شریف کی واپسی پر تکیہ کئے ہوئے ہے یا پھر ووٹر کو اپنی طرف مائل کرنے کا کوئی پلان بھی انکے پاس ہے؟ عمار مسعود کے مطابق مسلم لیگ ن کی بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی قیادت نے کبھی دوسرے صوبوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی پنجاب کو دی ہے۔ سندھ، خیبر پختونخوااور بلوچستان میں ن لیگ کا ووٹر موجود ضرور ہے مگر وہ اپنے مرکزی قائدین کی راہ ہی تکتا رہتا ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں ن لیگ کو پنجاب سے ہی اتنی نشستیں مل جاتی تھیں کہ انہیں حکومت بنانے کے لئے دوسرے صوبوں کی کم ہی ضرورت پڑتی تھی، لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے۔ اس مرتبہ انتخاب کی جنگ کا اصل میدان ہی پنجاب ہو گا، اگر اس صوبے میں عمران خان کا جادو چل گیا تو ن لیگ کا سیاسی مستقبل بہت مخدوش ہے۔ ابھی الیکشن میں اگرچہ کچھ وقت باقی ہے، ن لیگ کو اپنی تمام تر توانائیاں پنجاب میں صرف کرنا پڑیں گی، صرف یہ کہہ دینے سے کہ نواز شریف نے امیدواروں لسٹیں منگوا لی ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پنجاب کو اگر انتخابی طور پر فتح کرنا ہے تو اس کے عوام کو کوئی سیاسی بیانیہ دینا ہو گا، مزاحمت کا نعرہ تخلیق کرنا ہو گا، اور مفاہمت سے جان چھڑانا ہو گی۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ن لیگ پنجاب میں ’’لاہور دا پاوا ‘‘ جیسی ٹک ٹاک تو بنا لے گی لیکن الیکشن نہیں جیت سکے گی۔

Categories
منتخب کالم

سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولا!!!تحریک انصاف اور پرویز الہیٰ میں اختلافات شدت اختیار کر گئے

لاہور(ویب ڈیسک) عمران خان کی خواہش کے مطابق پنجاب اسمبلی توڑنے سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کے ساتھ اگلے الیکشن کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا جو فارمولا پیش کیا ہے اس پر دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے ہیں جس کے بعد پرویز الٰہی نے عمران کے ساتھ پنگا ڈالنے کی کوشش شروع کر دی ہے

تاکہ اسمبلی نہ توڑنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی نے عمران سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت صوبائی اسمبلی کی 25 اور قومی اسمبلی کی 10 نشستوں کا مطالبہ کردیا ہے۔ پرویز الٰہی چاہتے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ان 35 نشستوں پر تحریک انصاف اپنے امیدوار کھڑا کرنے کی بجائے قاف لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ عمران اپنی اتحادی قاف لیگ کو صوبائی اسمبلی کی سات اور قومی اسمبلی کی تین نشستوں سے زیادہ دینے کو تیار نہیں۔ یعنی پرویز الٰہی کی جانب سے 35 نشستوں کے مطالبے پر عمران انہیں 10سیٹوں کی آفر کر رہے ہیں جو پرویز الٰہی کے لیے قابل قبول نہیں اور اسی لئے انہوں نے جنرل باجوہ کی آڑ میں عمران کے خلاف ایک طرح کی بغاوت کر دی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب عمران نے جنرل باجوہ کے خلاف گفتگو کی تھی تو پرویز الٰہی نے یہ بیان داغ دیا تھا کہ انہیں عمران کا ساتھ دینے کے لئے جنرل باجوہ نے آمادہ کیا تھا اور سابق آرمی چیف نہ صرف قاف لیگ بلکہ عمران کے بھی محسن ہیں۔ تاہم خان صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ جوابی طور پر باریک واردات ڈالتے ہوئے انہیں اپنے پہلو میں بٹھا کر ایک مرتبہ پھر جنرل باجوہ کو چارج شیٹ کر دیا۔ پرویز الٰہی نے بھی اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور اب یہ دھمکی دے ڈالی ہے کہ اگر دوبارہ پی ٹی آئی کی جانب سے جنرل باجوہ کے خلاف کوئی بات کی گئی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے 99 فیصد اراکین پنجاب اسمبلی اسے توڑنے کے حق میں نہیں اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسا چاہتی ہے۔ قاف لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی نے عمران سے اگلے الیکشن کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحریری فارمولے کا مطالبہ کیا ہے جس میں پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی بطور ضامن شامل ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو خدشہ ہے کہ اسمبلی توڑے جانے کے بعد عمران حسب روایت اپنے وعدوں سے یوٹرن لے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ سیاسی طور پر یتیم ہو سکتے ہیں۔ پرویز الٰہی سمجھتے ہیں کہ اگر عمران انکے ساتھ کوئی تحریری سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولا طے کیے بغیر پنجاب اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو آئندہ الیکشن میں انکا اپنی خواہش کے مطابق سیٹیں حاصل کرنے کا خواب بکھر جائے گا۔ اس کے علاوہ پرویز الٰہی کی جانب سے اپنے آبائی ڈویژن اور اضلاع کے لیے مختص کردہ اربوں روپے کا فنڈ بھی غیر موثر ہو جائے گا۔ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل عمران اور پرویز الٰہی کے مابین ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب نے پی ٹی آئی اور اپنی پارٹی کے رہنمائوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ عمران خان سے اس وعدے کی تجدید کی کہ وہ اسمبلیاں توڑنے کا حکم بجا لانے میں تاخیر نہیں کریں گے۔ تاہم انکی باڈی لینگویج ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ دل پر جبر کر کے یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں۔

ذرائع کے بقول اسمبلی توڑنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دینے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا کیونکہ صدر عارف علوی نے عمران خان کو بتایا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت جلد الیکشن کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ بعد ازاں مشاورت سے 23 دسمبر بروز جمعہ اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ ہوا کیونکہ پرویز الٰہی نے اعتدال پسند رہنمائوں کے اس خیال سے اتفاق کیا کہ اس عرصے کے دوران درمیان کا کوئی راستہ بھی نکل سکتا ہے۔ پرویز الٰہی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی توڑنے کے بعد ان کا دوبارہ وزیر اعلیٰ بننا ناممکن نہیں اس لیے ان کی کوشش ہو گی کہ ایک ہفتے اندر کے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر عملدرآمد میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ اور اسی لیے وہ جنرل باجوہ کے خلاف عمران کے بیان کو بنیاد بنا کر ناراضی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ اسمبلی توڑنے سے انکار کرتے ہیں تو عمران اپنے اراکین پنجاب اسمبلی کو استعفے دینے کے لیے کہہ سکتے ہیں جس کے بعد بھی پرویز حکومت کا خاتمہ ہی ہوگا۔ اس لیے پرویز الٰہی اپنے موجودہ منصب کو آئندہ الیکشن میں مطلوبہ سیٹیں حاصل کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ اس مجوزہ پلان کے تحت پہلے انہوں نے اپنے آبائی ضلع گجرات کو ڈویژن کا درجہ دیا اور بعدازاں گجرات اور منڈی بہائوالدین کے لیے ایک سو ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ منظور کرایا۔
یاد رہے کہ گجرات، پرویز الٰہی اور منڈی بہائوالدین، ان کے پرنسپل سیکریٹری محمد خان بھٹی کے آبائی شہر ہیں۔ گجرات ڈویژن چار چھوٹے اضلاع گجرات، منڈی بہائوالدین، وزیرآباد اور حافظ آباد پر مشتمل ہے۔ پرویز الٰہی کی خواہش ہے کہ ان چاروں اضلاع کی بیشتر نشستیں اگلے الیکشن میں ان کی جھولی میں آگریں۔ ان کے خیال میں ایک سو ارب کا فنڈ اس خواہش کی تکمیل میں موثر ثابت ہو گا۔ لیکن عمران نے 23 دسمبر کو خیبر پختونخوا سمیت پنجاب اسمبلی توڑنے کا اعلان کر کے ان خواہشات پر بظاہر پانی پھیر دیا ہے۔ لہٰذا ذرائع کے بقول پرویز الٰہی کی پوری کوشش ہو گی کہ کسی طرح اس اعلان پر عملدرآمد نہ ہو سکے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس کے لیے کیا گیدڑ سنگھی لاتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اقتدار کے لیے سیاسی چالوں کے ماہر کو اس سلسلے میں خاصے دشوار چیلنجز درپیش ہیں۔ اگر وہ پنجاب اسمبلی توڑنے کے اعلان پر عملدرآمد روکنے میں ناکام رہے تو یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا سیاسی دھچکا ہو گا کیونکہ اب ان کے پاس پی ڈی ایم اتحاد سے رجوع کرنے کا آپشن باقی نہیں رہا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف دونوں نے پرویز الٰہی کے حوالے سے ریڈ لائن کھینچ دی ہے۔

Categories
پاکستان منتخب کالم

یہ جو مرضی کر لیں،اسمبلیاں ہر صورت تحلیل ہونگی۔۔فواد چوہدری کا حکومت کو دوٹوک پیغام

لاہور(ویب ڈیسک) تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی اور پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کریں گے، رانا ثنااللہ اور احسن اقبال کہہ رہے تھےکہ اسمبلی تحلیل کرو الیکشن میں جائیں گے، آج جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں لیکن ہم بھاگنے نہیں دیں گے، فواد چوہدری کی گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری کا

کہنا ہےکہ تحریک ‏عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا مقصد الیکشن سے فرار ہے، تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی اور پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے اورگورنرکی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینےکا کہنے پر رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ایک بیان میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ اور احسن اقبال کہہ رہے تھےکہ اسمبلی تحلیل کرو الیکشن میں جائیں گے، آج جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں لیکن ہم بھاگنے نہیں دیں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی اور پرویز الہٰی اسمبلی تحلیل کریں گے، عوام کا فیصلہ ہی حتمی ہے۔ خیال رہے کہ عدم اعتماد کے بعدگورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتمادکا ووٹ لینےکا بھی کہہ دیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ اوراسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کیخلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکان نے سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔ جیو نیوز کے مطابق سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر اتحادی جماعتوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد وزیراعلیٰ اوراسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کیخلاف جمع کروائی گئی ہے۔ اس سے قبل سابق صدر آصف زرداری نے پارلیمانی پارٹی کو وزیراعظم شہبازشریف اور چودھری شجاعت سے ہونے والی ملاقات پر اعتماد میں لیا، پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی نے آصف زرداری کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہارکیا۔ آصف زرداری نے کہاکہ

جمہوری استحکام اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے ہر قربانی کیلئے تیار ہیں، آنے والا وقت انتشار کی سیاست کرنے والی قوتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، سیاسی نظام کی بقاء کیلئے بھٹو مشن کو پورا کریں گے۔ پنجاب اسمبلی کو بچانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنماء فواد چودھری نے کہا کہ پرویزالٰہی عمران خان نہیں ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بوجھ پر اسٹینڈلے سکیں، پرویزالٰہی سے طے ہے کہ وہ جمعے کو اسمبلی توڑ دیں گے اگر نہیں توڑیں گے تو ہم اپنی حکمت عملی سامنے لائیں گے۔ انہوں نے اے آروائی نیو زکے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کیلئے 23دسمبر تک کا وقت بات چیت کیلئے دیا جائے، ہم چاہتے ہیں عام انتخابات کیلئے حکومت اور ہمارے درمیان بات چیت ہونی چاہیئے، حکومت جونہی انتخابات کیلئے اعلان کرتی ہے تو ہم فریم ورک کیلئے تیار ہیں، حکومت کسی بھی جگہ الیکشن کرانے کو تیار نہیں ہے یہ ہمارے اور حکومت کے درمیان بڑا مسئلہ ہے کہ وہ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔

Categories
منتخب کالم

جنرل باجوہ نے عمران خان کے لیے اند رخانہ کیا کیا گیم ڈالی؟؟پہلی بار حقائق سامنے آگئے

اسلام آباد(ویب ڈیسک) جنرل باجوہ جنہوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کو حکومت میں لانے اور اُنہیں کامیاب بنانے کےلئے وہ وہ کیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، اُن کے ساتھ وہ کچھ کیا ایسے ایسے الزامات لگائے جس کی ماضی میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
سینئر صحافی انصار عباسی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جس اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو حکومت میں لانے کے لئے ایک عرصے سے تحریک انصاف کے حق میں اور ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف بیانیہ بنایا، عمران خان کو پاکستان کےلئے ایک واحد امید کے طور پر پیش کیا، اُن کے مخالفین کے خلاف جھوٹے سچے کیس بنوائے اور سزائیں دلوائیں، 2018 کے انتخابات میں بدترین پولیٹیکل انجینئرنگ کی اور تحریک انصاف کی حکومت بنوائی، خان کی حکومت کے دوران خان کو کامیاب وزیراعظم بنانے کے لئے ہر قسم کی مدد کی لیکن خان کی حکومت تبدیل ہوئی تو اُسی اسٹیبلشمنٹ اور اُنہی جنرل باجوہ کو غداری کے طعنے دیے، بار بار کہا کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے اور یہ دباؤ جنرل باجوہ پر رکھا کہ وہ ایک بار پھر ماضی کو دہراتے ہوئے عمران خان کے لئےموجودہ حکومت کو چلتا کریں اور فوری الیکشن کروائیں۔ جنرل باجوہ نے کہا اب ایسا نہیں ہو سکتا، فوج نے بحیثیت ادارہ فیصلہ کر لیا کہ اب سیاسی معاملات سے باہر رہے گی لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف اور اُس کے سوشل میڈیا نے جنرل باجوہ اور فوج کے چند اور اہم افسروں کو بدنام کیا، اُنہیں گالیاں تک دیں۔ جو کچھ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان پروجیکٹ کے لئے کیا وہ آئین کے بھی خلاف تھا اور جمہوریت کے بھی۔ لیکن جنرل باجوہ نےجو کیا وہ عمران خان پر بڑا احسان تھا۔ عمران خان نے جو بدلے میں جنرل باجوہ کو دیا، کیا موجودہ اسٹیبلشمنٹ اسے بھول سکتی ہے؟ جنرل باجوہ کی مثال کو دیکھتے ہوئے کیا عمران خان پر نئی اسٹیبلشمنٹ اعتبار کرتے ہوئے وہ کچھ کرے گی جو فوج کے آئینی کردار کے برخلاف ہے؟

میرا نہیں خیال۔ اگرچہ عمران خان نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں یہ تاثر دیا جیسے وہ موجودہ آرمی چیف کو نہیں جانتے لیکن وہ یقین رکھیں کہ موجودہ آرمی چیف اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ویسے خان صاحب کی یاددہانی کے لئے جنرل عاصم منیر وہی ہیں جنہیں اُنہوں نے اپنی حکومت کے دوران بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی اس لئے فارغ کر دیا تھا کہ جنرل عاصم نے خان صاحب کے کچھ قریبی افراد کی مبینہ کرپشن کی اطلاعات اُنہیں مہیا کی تھیں جس پر خان صاحب ناراض ہوگئے تھے۔ یہ وہی جنرل عاصم منیر ہیں جنہیں اُن کی تعیناتی سے چند ہفتہ قبل تک عمران خان آرمی چیف بنانے کی مخالفت کرتے رہے۔ امید ہے خان صاحب کو اب سب یاد آ گیا ہوگا۔ لیکن چاہے خان صاحب نے ماضی میں جو کیا وہ اچھا تھا یا بُرا، میری نئے آرمی چیف اور نئی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے یہ توقع ہو گی کہ وہ سیاسی طور پر نیوٹرل ہی رہے گی نہ عمران خان کے حق میں، نہ اُن کے خلاف اور کسی دوسرے کے حق میں۔

Categories
منتخب کالم

تاریخ پر تاریخ دینے والے کپتان کیا اسمبلیاں توڑ دیں گے؟جانئے کچھ حقائق

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چھ ماہ تک اپنے لانگ مارچ کے لئے تاریخ پر تاریخ دینے والے سابق وزیراعظم عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے تاریخیں دیتے ہوئے ایک اور تاریخ دے دی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ 17 دسمبر کو لاہور میں عمران خان ایک جلسے سے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی

اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ تاہم لاہور کے جلسے سے براہ راست خطاب کی بجائے خان صاحب زمان پارک والے گھر سے ویڈیو لنک کا استعمال کریں گے۔ یاد رہے کہ عمران نے پچھلے ماہ اپنے نام نہاد لانگ مارچ کا خاتمہ کرتے ہوئے دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری نئے الیکشن کی تاریخ دے ورنہ وہ اپنی دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ دوسری جانب حکومت انہیں پہلے ہی جواب دے چکی ہے اور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ خان عمران کو بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ دھمکیاں دینے کی بجائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان پر عمل کریں۔ حکومت کا موقف ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں دونوں صوبوں میں دوبارہ الیکشن کروا دیے جائیں گے۔ 13 دسمبر کو وزیر اعظم شہباز شریف بھی عمران کا فوری الیکشن کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ ہم نے تباہ حال معیشت کے باوجود حکومت اسلئے نہیں سنبھالی تھی کہ فوری الیکشن کروا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مشکل معاشی فیصلوں کی سیاسی قیمت ادا کی ہے لہٰذا الیکشن موجودہ اسمبلی کی معیاد مکمل ہونے پر ہی ہوں گے چاہے خان صاحب جو مرضی کرتے رہیں۔ ایسے میں اب بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور وہ 17 دسمبر کو لاہور کے جلسے میں تاریخ کا اعلان کریں گے۔ اس سے پہلے ایسی خبریں بھی آ رہی تھی کہ صدر عارف علوی کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ نئی الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ لیکن حکومتی ذرائع نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسحاق ڈار کی صدر علوی سے ملاقات ان کی اپنی خواہش پر ہوئی تھی جس کا بنیادی ایجنڈا ملکی معیشت تھی۔

دوسری جانب اب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما پرویز خٹک نے بھی کہہ دیا ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے اور اگر الیکشن پر بات ہو گی تو ہی مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھا جائے گا۔ لاہور میں پارٹی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سنجیدگی دکھائے گی تو مذاکرات ہوں گے۔ تاہم وہ شاید بھول گئے کہ حکومت کی جانب سے الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات کا مطالبہ سختی سے رد کیا جا چکا ہے۔پرویز خٹک کے مطابق: ’کون سی اسمبلی پہلے تحلیل کرنی یہ فیصلہ عمران کریں گے اور پی ٹی آئی ہر وقت الیکشن کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’پرویز الٰہی سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور وہ اسمبلی توڑنے کا ’وعدہ پورا‘ کریں گے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرویز الٰہی ہمارے ساتھ ہیں اور جب خان صاحب کہیں گے وہ اسمبلی توڑ دیں گے۔‘ دوسری جانب پرویز الٰہی پہلے ہی واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ پنجاب اسمبلی مارچ سے پہلے نہیں توڑی جا سکتی چونکہ اراکین اسمبلی کے علاقوں میں ترقیاتی کام چل رہے ہیں جن کی تکمیل ضروری ہے۔ پرویز الٰہی کے اس موقف پر خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف اعلان کرچکے ہیں کہ جب تک پنجاب اسمبلی نہیں توڑی جائے گی خیبر پختون خوا کی اسمبلی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ ایسے میں اب خان صاحب 17 دسمبر کو لاہور میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تاریخ کا اعلان کریں گے لہذا دیکھنا یہ ہے کہ وہ خیبر پختونخوا کے ساتھ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ بھی کرتے ہیں

یا پھر اس معاملے پر مکمل یوٹرن لے جاتے ہیں۔ 13 دسمبر کو عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک لاہور میں مختلف علاقوں کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی تاریخ دی جائے۔ اراکین اسمبلی نے تمام فیصلوں کا اختیار عمران کو دے دیا۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور میں جو جلسہ ہونے جارہا ہے وہ محدود نوعیت کا ہوگا اور لبرٹی گول چکر پر منعقد کیا جائے گا جہاں بڑی سکرین لگائی جائے گی اور عمران گھر سےخطاب کریں گے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا کافی مشکل ہے کیوں کہ چند دن قبل ہی وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے 750 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن کی تکمیل کے لئے کم از کم 6 سے 8 ماہ درکار ہیں۔ تاہم تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جس طرح عمران نے پارلیمنٹ سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا تھا اسی طرح وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ سینئر صوبائی وزیر پنجاب میاں اسلم اقبال نے پنجاب کے اراکین اسمبلی کے عمران خان کی زیر صدارت اجلاس کے بعد گفتگو میں کہا کہ ’اسمبلیاں 20 دسمبر سے قبل توڑی جائیں گی اعلان لبرٹی چوک میں کیا جائے گا۔ اسلم اقبال نے کہا کہ دونوں اسمبلیاں تحلیل کرنا ہمارا اصل مقصد نہیں، ہمارا اصل مقصد تو جلد انتخابات ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا اور 65 فیصد پاکستان سے اپنی حکومت ختم کر دینا کافی مشکل لگتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان تو بار بار کیا جا رہا ہے اور تاریخ پر تاریخ بھی دی جارہی ہے لیکن عملی طور پر ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

Categories
منتخب کالم

گھڑی سکینڈل نے عمران خان کی سیاست کیسے ادھیڑی؟کیا کیا نئےخطرات کپتان کے سر پر منڈلانے لگے ہیں ؟

اسلام آباد(ویب ڈیسک) معروف اینکر پرسن اور صحافی جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ قائداعظم کے بعد عمران خان دوسرے لیڈر تھے جنھیں عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی اتنی زیادہ سپورٹ ملی، لیکن افسوس انھوں نے ملک کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو انھوں نے سعودی شہزادہ کی جانب سے ملنے والی گراف برینڈ کی قیمتی گھڑی

کے ساتھ کیا، آج اگر ان سے گھڑی کے بارے میں پوچھا جائے تو موصوف مسکرا کر کہتے ہیں گھڑی میری تھی، میں نے بیچ دی، ملک کے بارے میں بھی انکا یہی رویہ تھا کہ میرا ملک تھا، میں اسے عثمان بزدار کے حوالے کرتا یا محمود خان کے، آپ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں ؟ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیئےکہ کیا اس آرگومنٹ کا کوئی جواب ہو سکتا ہے؟ میرا خیال ہے قوم یوتھ کے علاوہ اس منطق کو کوئی سمجھ سکتا ہے اور نہ بیان کر سکتا ہے۔ اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ گراف (Graff) سوئٹزر لینڈ کی کمپنی ہے اور یہ صرف بادشاہوں اور ملکاؤں کے لیے ہیروں اور جواہرات کی سپیشل پراڈکٹس بناتی ہے جو مارکیٹ میں نہیں ملتیں، صرف محلات میں جاتی ہیں اور وہیں استعمال ہوتی ہیں۔ گراف نے 2018 میں سعودی عرب کے ولی عہد کے لیے دو اسپیشل گھڑیاں بنائی تھیں۔ عمران خان بطور وزیراعظم جب 18 ستمبر 2018 کو سعودی عرب کے پہلے دورے پر گئے تو ولی عہد نے انہیں گراف کی گھڑی، دو ہیرے والے کف لنکس، سونے کا ایک پین اور ایک انگوٹھی بطور تحفہ دی۔ دنیا بھر میں حکمران دوسرے حکمرانوں کو تحائف دیتے ہیں، یہ تحفے عموماً عجائب گھروں میں رکھ دیے جاتے ہیں یا پھر ایوان صدر یا وزیر اعظم ہاؤس میں سجائے جاتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں کئی سو سال پرانے تحفے بھی نمائش کے لیے رکھے ہیں۔ تاہم جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ پاکستان میں روایت ذرا سی مختلف ہے،

یہاں صدر یا وزیراعظم کو ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کرا دیے جاتے ہیں۔ توشہ خانہ مغلوں کے دور میں ہندوستان میں بنا تھا۔ اس میں بادشاہ کو ملنے والے تحائف رکھے جاتے تھے۔ توشہ خانہ مغلوں سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں آیا‘ پھر وائسرائے کے پاس آیا اور قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کے پاس آ گیا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی دور میں سرکاری تحائف کو سرکاری ملکیت سمجھا جاتا تھا اور کوئی اہلکار انھیں ذاتی طور پر استعمال نہیں کر سکتا تھا۔پاکستان میں بھی شروع میں یہی روایت تھی۔ بیورو کریٹس سے لے کر صدر تک تمام تحائف توشہ خانہ میں جمع ہو جاتے تھے لیکن پھر اس رُول میں تبدیلی آ گئی، توشہ خانہ کے اہلکار تحائف کی قیمت کا تخمینہ لگاتے اور پھر اس قیمت کا 20 فیصد خزانے میں جمع کرا کر تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے ذاتی استعمال میں لانے لگا، لہٰذا بھٹو سے لے کر عمران تک سب حکمران اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ہم اب واپس عمران خان کے تحائف کی طرف آتے ہیں‘ عمران خان کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 2018 میں چار انتہائی قیمتی تحائف دیے اور روایت کے مطابق یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرا دیے گئے۔ توشہ خانہ نے گراف کی گھڑی کا تخمینہ ساڑھے آٹھ کروڑ‘ کف لنکس کی مالیت 56 لاکھ 70 ہزار روپے‘ پین کی قیمت 15 لاکھ روپے اور انگوٹھی کی مالیت 87لاکھ 50 ہزارروپے ڈکلیئر کی‘ چاروں تحائف کی ٹوٹل مالیت دس کروڑ 92 لاکھ روپے بنی اور اس کا 20 فیصد دو کروڑ دو لاکھ 78 ہزار روپے بنا‘ عمران نے یہ رقم خزانے میں جمع کرائی اور چاروں تحائف توشہ خانہ سے لے لیے‘

یہ معاملہ یہاں تک بھی جائز اور قانونی تھا لیکن اس کے بعد اسٹوری میں دو ٹوئسٹ آئے اور یہ اسکینڈل بن گیا۔ عمران نے جن دو کروڑ 2 لاکھ 78 ہزار روپے سے یہ تحائف خریدے، وہ رقم انہوں نے اپنی ٹیکس ریٹرن میں ڈکلیئر نہیں کی تھی‘ یہ رقم ان کے اکاؤنٹس میں موجود بھی نہیں تھی، لہٰذا سوال پیدا ہوا کہ یہ رقم پھر کہاں سے آئی؟ دوسرا چند ماہ بعد گراف کے دبئی آفس نے اپنے ہیڈکوارٹر زکو مطلع کیا کہ ولی عہد کے لیے بنائی گئی گھڑیوں میں سے ایک فروخت کے لیے ہمارے پاس آئی ہے۔ ہم کیا کریں؟ ہیڈکوارٹرز نے ولی عہد کے سیکریٹری سے رابطہ کیا اور سیکریٹری نے ولی عہد سے پوچھا‘ وہ اس حرکت پر حیران رہ گئے تاہم انھوں نے گھڑی خریدنے کا عندیہ دے دیا اور یوں وہ گھڑی گراف نے 14 کروڑ روپے میں خرید کر ولی عہد کو بھجوا دی، یہ حرکت غیراخلاقی بھی تھی‘ غیرقانونی بھی اور غیر سفارتی بھی ‘یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ گھڑی دبئی میں کس نے فروخت کی تھی؟ پارٹی کے چند لوگ ذلفی بخاری کو اس کا ذمہ د ار قرار دیتے ہیں‘ یہ الزام لگاتے ہیں۔ بقول جاوید چوہدری، خاتون اول بشری ٰبی بی نے گھڑی ذلفی بخاری کو دی جو اسے دبئی میں فروخت کر آئے‘ میں نے اس بات کی تصدیق کے لیے ذلفی بخاری سے رابطہ کیا لیکن ان کا دعویٰ تھا ’’میں نے زندگی میں یہ گھڑی دیکھی اور نہ ہی میں اس معاملے میں انوالو ہوا‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا ’’عمران نے اگر توشہ خانہ کی رقم ادا کر دی تھی

تو وہ گھڑی کے مالک تھے اور وہ اسے جہاں چاہتے اور جب چاہتے فروخت کرتے کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔‘‘ بقول جاوید، عمران نے 2018 سے 2021 تک غیر ملکی سربراہوں سے 58 تحائف حاصل کیے ان کی کل مالیت 14 کروڑ 20 لاکھ 42 ہزار ایک سو روپے بنتی ہے۔ ان میں رولیکس کی چھ گھڑیاں ‘ سونے اور ہیروں کے لاکٹ سیٹ‘ ایئر رنگز‘ سونے کی انگوٹھیاں اور ہیروں کے بریسلٹ بھی شامل ہیں اور انتہائی مہنگے لیڈیز بیگز بھی‘ خاتون اول کو 20مئی 2021کو بھی نیکلس‘ ایئررنگز‘ انگوٹھی اور بریسلٹ ملا اور توشہ خانہ نے اس کی مالیت 58لاکھ 60 ہزار روپے طے کی تھی اور خاتون اول نے رقم جمع کرا کر یہ تحائف لے لیے‘ سوال یہ ہے کیا یہ تحائف عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملے یا پھر وزیراعظم اور خاتون اول کو اور یہ اگر خاتون اول اور وزیراعظم کو ملے تو پھر ان کا اصل وارث کون ہے؟ یقیناً پاکستان لہٰذا یہ کسی بھی صورت حکومت پاکستان کے ہاتھ سے باہر نہیں جانے چاہیے تھے لیکن ہم بفرض محال یہ مان بھی لیں کہ خزانے میں 20فیصد رقم جمع کرا کر وزیراعظم یا صدر ان تحائف کے حق دار بن سکتے ہیں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے ان تحائف کو مارکیٹ میں بیچنے کی کیا تُک تھی؟ یہ حرکتیں یقیناً سفارتی تعلقات کی خرابی کا باعث بنتی ہیں اور شاید یہ وہ بات تھی جس کی وجہ سے ہمارے وزیراعظم عمران خان 21 ستمبر 2019 کو سعودی شاہی جہاز پر امریکا کے دورے پر گئے لیکن رائل فیملی نے واپسی سے پہلے اپنا جہاز واپس منگوا لیا اور وزیراعظم کمرشل فلائٹ سے پاکستان تشریف لائے۔

جاوید سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ رویہ دنیا کی پہلی اسلامک نیوکلیئر پاور کے سربراہ کے شایان

Categories
منتخب کالم

نواب اسلم رئیسانی کی پارٹی میں شمولیت! کیا مولانا دوبارہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے قریب ہو رہے ہیں؟بڑا سوال کھڑا ہو گیا

کوئٹہ(ویب ڈیسک) سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت جمعیت علماء اسلام میں شمولیت سے یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ انکے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور بلوچستان کی سیاسی بساط پر مولانا کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔ صوبے کی سیاسی و قبائلی اثر و رسوخ رکھنے والی متعدد شخصیات نے

حالیہ دنوں میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان رہنماؤں میں سب سے قابل ذکر نواب اسلم رئیسانی ہیں۔ جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت ہونے والے ورکرز کنونشن میں نواب اسلم رئیسانی کے علاوہ میر ظفر اللہ زہری، میر غلام دستگیر بادینی اور میر امان اللہ خان نوتیزئی بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان شخصیات کی شمولیت سے ان کی جماعت صوبے میں مضبوط ہو گی اور بلوچستان کا مستقبل اب جے یو آئی سے وابستہ ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عام انتخابات سے قبل صوبے کی متعدد سیاسی اور قبائلی شخصیات عموماً اُن سیاسی جماعتوں کا رُخ کرتی رہی ہیں جن کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہو اور اب ان ’الیکٹیبلز‘ اور اثر و رسوخ رکھنے والے رہنماؤں کی جے یو آئی میں شمولیت ایک ’معنی خیز‘ تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت نہیں بلکہ عوام میں جڑیں رکھنے والی مضبوط جماعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سیاسی اور قبائلی شخصیات کی شمولیت سے جے یو آئی مزید مضبوط ہو گی اور اکثریت ملنے کی صورت میں ہم آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں اپنی حکومت بنائیں گے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جے یو آئی میں بااثر شخصیات کی شمولیت سے نہ صرف صوبے میں اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے بلکہ مستقبل میں جے یو آئی

کے بلوچستان میں حکومت بنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے سیاسی و قبائلی شخصیات میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سرفہرست ہیں۔ وہ نہ صرف رئیسانی قبائل کے سربراہ ہیں بلکہ ’چیف آف ساراوان‘ بھی ہیں۔بلوچستان کے قبائلی نظام میں خان آف قلات کے بعد چیف آف ساراوان کا نمبرآتا ہے جس کی بنیاد پر ان کو ’خان ثانی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی پہلی مرتبہ پاکستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی کے بعد وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے دوسرے اہم رہنما میر ظفراللہ زہری ہیں جو زہری قبائل کے سربراہ نواب ثنا اللہ زہری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ میر ظفراللہ زہری 2008 میں قلات کی نشست سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل بننے والے ضلع سوراب سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر ظفراللہ زہری اپنے بھائی نوابزادہ نعمت اللہ زہری کے مقابل انتخاب لڑے تھے مگر انھیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی جس تیسری شخصیت نے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی وہ میر امان اللہ خان نوتیزئی ہیں جن کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے۔ وہ 2018 کے عام انتخابات میں اگرچہ دوسرے نمبر پر رہے لیکن 2002 سے 2013 کے انتخابات میں ضلع چاغی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے چوتھے فرد میر غلام دستگیر بادینی ہیں، جن کا تعلق ضلع نوشکی سے ہے۔

وہ 2013 کے عام انتخابات میں رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق بااثر افراد کی جے یو آئی میں شمولیت کا فائدہ نہ صرف جے یو آئی بلکہ ان افراد کو خود بھی ہو گا۔کوئٹہ سے سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کی نشست سے اگرچہ نواب اسلم رئیسانی زیادہ تر منتخب ہوتے رہے لیکن اس بار ان کے لیے انتخابی معرکہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت موقف کے باعث مشکل ہو گیا ہے۔ذوالفقار نے بتایا کہ مستونگ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر جے یو آئی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے جو نواب اسلم رئیسانی کی شمولیت کے باعث انھیں ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشست سوراب میں بھی جے یو آئی کا ووٹ بینک ہے جبکہ ضلع چاغی اور نوشکی میں بھی جمعیت علمائے اسلام کا ووٹ بینک ہے جس کی وجہ سے یہاں سے ان امیدواروں کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ ان شخصیات کی پارٹی میں شمولیت سے انھیں اور جے یو آئی دونوں کو فائدہ ملے گا۔ شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ’ان شخصیات کا یہ فائدہ ہو گا کہ جے یو آئی کے ووٹ ملنے سے ان کے کامیابی کے امکانات بڑھیں گے جبکہ ان کی کامیابی کی صورت میں جے یوآئی کو بلوچستان اسمبلی میں فائدہ ملنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی فائدہ پہنچے گا۔ شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ 2018 میں جے یو آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے

جس کے باعث خود مولانا فضل الرحمان بھی اپنی نشست جیت نہیں سکے تاہم اب صورتحال بہتر نظر آتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بیشتر عوامی حلقوں میں یہ لہر چل پڑی ہے کہ جے یو آئی بلوچستان میں ایک مقبول جماعت بننے والی ہے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی و قبائلی رہنماؤں کو عندیہ دے رہے ہیں کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت انہی کی ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ عام انتخابات میں عموماً جے یو آئی کے حصے میں بلوچستان اسمبلی کی دس سے گیارہ نشستیں آتی ہیں، تاہم اس مرتبہ یہ جماعت 16 سے 20 نشستیں حاصل کرنے کے تخمینے لگا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواب اسلم رئیسانی کی صورت میں جے یو آئی کو بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے لیے ایک امیدوار بھی مل گیا ہے کیونکہ نواب اسلم رئیسانی ایک آزمائے ہوئے وزیر اعلیٰ ہیں۔ بلوچستان میں ماضی میں حکومتیں بنانے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بظاہر جہاں پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی ایک تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ اب فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں گے چنانچہ اب ایسا لگ رہا کہ بلوچستان میں اس مرتبہ عوامی مینڈیٹ پر انحصار کیا جائے گا۔

Categories
منتخب کالم

جنرل باجوہ نے مارشل لا کے بعد کی تیاری بھی کر لی تھی،سینئر صحافی حامد میر کا انکشاف

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے دعوی ٰکیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے دل میں مارشل لاء لگانے کی خواہش لے کر رخصت ہوئے کیونکہ میں نے موصوف کی زبان سے مارشل لاء کی بات کئی مرتبہ سنی۔ اس خواہش کا اظہار باجوہ نے

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل بھی کیا اور بتایا کہ ہمارے پاس ہر وقت ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مارشل لاء لگنے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے۔ حامد میر کے بقول مجھے مخاطب کرتے ہوئے جنرل نے کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ آج کل کچھ سیاستدان عجیب و غریب ہوائیاں چھوڑتے سنائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو مارشل لاءسے بچا لیا۔ موصوف نے یہ انکشاف کرتے ہوئے دلیل دی کہ اگر خان صاحب صدر عارف علوی کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے سے روک دیتے تو ملک میں مارشل لاءلگ جاتا۔ فواد نے جو بھی کہا وہ انتہائی غور طلب ہے کیونکہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک طرف جنرل قمر جاوید باجوہ دوسری مرتبہ ایکسٹینشن کیلئے سرگرم تھے، دوسری طرف فیض آباد دھرنے کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والا ایک جرنیل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ یقین دلا رہا تھا کہ اگر اسے آرمی چیف بنا دیا جائے تو وہ نہ صرف عمران خان کو نیست و نابود کر دے گا بلکہ اس کی آنے والی نسلیں بھی سیاست سے توبہ کر لیں گی۔ تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں نے موصوف سے فیض یاب ہونے سے معذرت کر لی۔ حامد میر کہتے ہیں

کہ باجوہ اور فیض مل کر کھیل رہے تھے یا ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے لیکن یہ طے ہے کہ جی ایچ کیو سے وزارت دفاع کو آرمی چیف کیلئے نام بھجوانے کی سمری میں تاخیر بہت سوچ سمجھ کر کی گئی۔ بالآخر جب سمری بھیج دی گئی تو خیال تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو عمران خان صدر عارف علوی کو اس فیصلے کی تصدیق سے روک دیں گے۔ چورن یہ تھا کہ یوں ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور مار شل لاء کے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ تاہم فواد چودھری برا نہ منائیں تو عرض ہے کہ جب وزیر اعظم آفس نے سمری صدر علوی کو بھجوائی تو ہماری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس پر دستخط کر دیئے۔یعنی صدر علوی نے نئے آرمی چیف اور نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے تقرر نامے پر دستخط کرنے کے بعد اسلام آباد سے لاہور کا سفر کیا جہاں انہوں نے عمران سے ایک نمائشی مشاورتی ملاقات کی۔ یہ بھی یاد رہے کہ علوی وزیر اعظم شہباز شریف کے سرکاری جہاز پر لاہور گئے۔ چنانچہ خان صاحب علوی کو نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری سمری پر دستخط سے روکنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ تاہم فواد کا یہ دعوی ٰتسلیم کیا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کو بھی مارشل لاء کے خطرے کا احساس تھا اور انہوں نے صدر کو سمری پر دستخط سے نہیں روکا ہو گا۔ یوں مارشل لاء کا خطرہ ٹل گیا۔ لیکن حامد میر سوال کرتے ہیں کہ یہ مارشل لاء کس نے لگانا تھا؟

ظاہر ہے جنرل قمر باجوہ نے ہی لگانا تھا جن کی زبان سے میں نے مارشل لاء کی بات ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار سنی۔ انکے دل کے کسی گوشے میں پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی خواہش اکثر اوقات انگڑائیاں لیتی رہتی تھی۔ یہ خواہش ان کی زبان پر تڑپنے کے بعد واپس دل میں جا کر سو جاتی تھی۔ جنرل باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک سیکورٹی ورکشاپ میں کئی گھنٹے تک خطاب فرمایا۔ ان کا آغاز میں تو یہی کہنا تھا کہ فروری 2021ء میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے کہا کہ پاکستان میں مارشل لا لگانا بہت آسان کام ہے اور ہمارے پاس ہر وقت ان لوگوں کی فہرستیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مارشل لاء لگانے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے۔ حامد میر کے بقول مجھے مخاطب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے۔ حامد میر کے بقول اس روز انہوں نے میڈیا پر بہت غصہ نکالا اور کہا کہ جب بھی ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچتے ہیں، آپ جیسے لوگ کشمیر فروشی کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پھر جنرل نے یہ الزام بھی لگا دیا کہ آپ لوگ بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ تقریباً ہر ملاقات میں ہماری تنخواہوں پر ضرور گفتگو کرتے تھے

لیکن ان کی انفارمیشن ہمیشہ غلط ہوتی تھی، اس روز بھی نسیم زہرا نے انہیں چیلنج کیا اور کہا کہ آپ نے ٹیکس چوری کا الزام لگایا ہے تو ثبوت پیش کریں ورنہ اپنے الفاظ واپس لیں۔باجوہ صاحب نے نسیم زہرا کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب اس جرات مند خاتون نے بھی بلند آواز میں آرمی چیف سے بار بار کہا کہ ثبوت کے ساتھ بات کریں تو پاکستان کے طاقتور ترین شخص نے بات بدل دی۔ حامد میر کہتے ہیں کہ سچ تو یہی ہے کہ سیاستدانوں کی کمزوریاں سازشی جرنیلوں کی طاقت بنتی ہیں۔ جنرل باجوہ کے پاس نسیم زہرا کی کوئی کمزوری نہیں تھی لہٰذا انہوں نے ایک منٹ میں موصوف کو چپ کروا دیا۔ اس روز باجوہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ فوج بحیثیت ادارہ نیوٹرل ہو چکی ہے لیکن انہوں نے ذاتی حیثیت میں عمران کو سمجھانے کی کافی کوشش کی۔ باجوہ ایک زمانے میں شہباز شریف کو بھی بہت سمجھایا بجھایا کرتے تھے۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل ایک دن جنرل باجوہ نے تب کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار اور ان کے نائب فیض حمید کی موجودگی میں شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ وزیر اعظم بن جائیں تو آپکی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟ شہباز شریف کو سمجھ آ گئی کہ میرے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے صلاح مشورے کے بعد ہی کابینہ بنے گی۔

لیکن جنرل باجوہ نے کہا کہ آپکو اپنے بھائی نواز شریف کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب شہباز شریف ایک چھوٹی سی ہاں کہہ دیتے تو وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نےتینوں جرنیلوں کو صاف بتا دیا کہ وہ ہمیشہ سے فوج کےساتھ مفاہمت کے حامی رہے ہیں لیکن وہ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ جنرل باجوہ ذاتی طور پر عمران کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کے انکار کے بعد عمران ان کی مجبوری بن گئے۔ عمران خان نے باجوہ کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ باجوہ نے کہا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر حفیظ شیخ کو لے آئو، خان صاحب مان گئے۔ جب باجوہ صاحب نے کہا کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹا دو تو خان صاحب نہیں مانے۔ حامد میر کے بقول ساری بات یہیں سے بگڑی، خان صاحب کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے باجوہ صاحب ہیں۔ یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔تحریک عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے شہباز شریف کو اپنا امیدوار بنا کر خود باجوہ کو حیران کر دیا۔ باجوہ نے آخری وقت تک عمران کو بچانے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ لیکن باپ والے باجوہ صاحب کے بھی باپ نکلے، خالد مگسی نے براہ راست باجوہ کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیا کہ آپ نے مارشل لاء لگانا ہے تو لگا دو ہم بلوچ روز روز اپنا فیصلہ نہیں بدلتے۔ جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو اس کے بعد باجوہ صاحب نے پرویز الٰہی کو ان کے خلاف استعمال کیا اور پھر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر دبائو ڈالا کہ آپ یا تو نئے انتخابات کا اعلان کریں یا پھر استعفے دیں۔ راجہ صاحب نے جس جگہ اور جس انداز میں انکار کیا اس پر تو پورا کالم لکھا جاسکتا ہے۔ انہیں بہاولپور سے بھی پیغامات آتے رہے کہ آپ نئے الیکشن کا راستہ ہموار کریں لیکن راجہ صاحب نے سب کو ’’بے فیض‘‘ کر دیا۔لیکن اب بھی بہت سے راز آشکار ہونے ہیں اور بہت سے چہروں کا نقاب سرکنے والا ہے۔

Categories
منتخب کالم

نئی فوجی قیادت کو “ڈنڈے “کا استعمال بند کرنا ہوگا۔سینئر صحافی انصار عباسی کی اپیل

اسلام آباد(ویب ڈیسک) معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ میرٹ پر نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد فوج کو سیاست دانوں کو اپنے ڈنڈے سے ہانکنے اور سیاستدانوں کو فوج کے ڈنڈے سے ہانکے جانے کی تاریخ کو دفن کرنا ہو گا کیونکہ اسی میں فوج اور پاکستان کی بقا ہے۔

ماضی پاک فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانے اور گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد ایک طرف اگر فوج اور آئی ایس آئی کو اپنے متنازعہ کردار سے پیچھے ہٹنا ہے تو دوسری جانب یہ سیاستدانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں کیلئے نہ تو فوج اور آئی ایس آئی کی طرف دیکھیں اور نہ ہی ان اداروں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کریں۔اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ نئی فوجی قیادت کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوج کی عوام میں عزت کو بحال کرنا ہے جس کیلئے سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ جب فوج یا آئی ایس آئی سیاسی تنازعات کا حصہ بن جائے تو اُن کے بارے میں بھی سیاست ضرور ہوگی۔ کوئی ایک سیاسی جماعت اور اُس کے سپورٹرز اگر ان اداروں کے حق میں بات کریں گے تو کوئی دوسری سیاسی جماعت یا گروہ ان پر تنقید کرے گا۔ انکا کہنا ہے کہ ویسے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ہدف تنقید بنی رہی لیکن جو کچھ ہم نے گزشتہ سات آٹھ مہینوں کے دوران دیکھا اور سنا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ جس عمران کو اقتدار میں لانے کے لئے فوج نے کھلم کھلا سیاسی انجینئرنگ کے تمام ریکارڈ توڑے، اُس نے اپنی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُسی اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بھرمار کر دی،

موصوف اور انکی جماعت نے سوشل میڈیا کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کے خلاف درجنوں ٹرینڈز چلائے، اُنہیں غدار کہا، اُن پر مبینہ رجیم چینج کی امریکی سازش کو پاکستان میں کامیاب کروانے کا الزام دھرا، اُنہیں جانور کہا، اور گالم گلوچ تک کی گئی۔انصار عباسی یاد دلاتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے تسلیم کیا کہ فوج کے ادارے نے گزشتہ سال خود کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اب اس فیصلے پر سختی سے عمل ہو گا۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے پیش رو کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے گی اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے وقار اور آئین کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ چاہے تو وہ اس قانون کو ختم کرنے کیلئے آزاد ہے، کیونکہ قانون سازی فوج کا کام نہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا کام وفاقی حکومت کے ساتھ معلومات شیئر کرنا اور اس کے احکامات ماننا ہے، نہ کہ اسے ڈکٹیشن دینا۔ نئے چیف کا یہ بیان نہایت خوش آئند ہے۔ اب اُنہیں اپنے تین سالہ دور میں اس موقف پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا۔انصار عباسی کہتے ہیں کہ پاک فوج اور آئی ایس آئی ملک کے دفاع اور سیکورٹی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ ایسے اداروں کا اندرونی طور پر تنازعات اور خصوصاً سیاسی تنازعات سے پاک رہنا بہت ضروری ہے۔

ماضی میں فوج کے ڈنڈے اور آئی ایس آئی کو جس طرح گاہے گاہے سیاسی جوڑتوڑ، حکومتیں بنانےو گرانے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا گیا، اُسے اب پاکستان کی اُس تاریخ کا حصہ بن جانا چاہئے جسے بحیثیت قوم ہمیں اب کبھی نہیں دہرانا۔ ویسے ہمارے سیاستدانوں کے بیانات جو مرضی ہوں، ماضی قریب تک تقریباً تمام بڑی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی نظریں فوج پر ہی مرکوز رہیں کہ وہاں سیاست کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے! ہماری سیاسی جماعتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے۔ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں بلکہ باہمی سیاسی تنازعات اور اختلافات پر بھی آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کریں، اس کیلئے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کریں، گالی اور اختلاف برائے اختلاف کی بجائے دلیل اور اصول کی بنیاد پر سیاست کریں۔سیاست دانوں کو حکومت میں آ کر آئین کے مطابق حکمرانی کرنے کا گر سیکھنا چاہئے تاکہ جو کچھ آئین میں لکھا ہے اس کے ثمرات عوام کو بھی ملیں اور جو خرابیاں ہمارے گورننس سسٹم میں موجود ہیں اُنہیں دور کیا جائے یہی بہتر طرزِحکمرانی کا بہترین نسخہ ہے ،جس پر سیاستدانوں کو عمل کرنا چاہئے۔

Categories
منتخب کالم

“عمران خان احسان فراموش ، جھوٹا اور ناقابل بھروسہ شخص ہے”منصور علی خان نے جنرل باجوہ کا موقف پیش کردیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) اینکر پرسن منصور علی خان کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی کل جائیداد تقریباً 40 سے 50 کروڑ روپے کی بنتی ہے، سابق آرمی چیف کو اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے فون کرکے ارشد شریف کے قتل کے بارے میں بتایا، اپنے ایک وی لاگ میں منصور علی خان نے سابق آرمی چیف کے قریبی

ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اپنی جائیداد کی تفصیلات جمع کر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسے پبلک کردیں۔ ان کی تمام تر پراپرٹی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے اندر ہے، یہ وہ پراپرٹی ہے جو انہیں فوج کی طرف سے ملی، اگر انہوں نے کوئی جائیداد بیچ کر دوسری خریدی بھی ہے تو وہ بھی ڈی ایچ اے کےاندر ہی خریدی ہے، ان کی صرف ایک پراپرٹی ایسی ہے جو انہوں نے اپنی بیوی کے نام پر لی ہوئی ہے، یہ اسلام آباد میں سکھ چین کے ایک پراجیکٹ میں ایک اپارٹمنٹ کی صورت میں ہے۔ لاہور کے مین بلیوارڈ پر جو پلازہ ہے وہ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی ملکیت ہے اور اس کا جنرل باجوہ سے کوئی تعلق نہیں صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے جنرل باجوہ کے ذرائع نے بتایا کہ انہیں رات کو دو بجے اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے فون کرکے واقعے کے بارے میں بتایا، ان کا ارشد شریف کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، وہ اکثر ہمارے دفاتر میں چائے پیتا اور کھانا کھاتا تھا، کسی بات پر اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے قتل میں ہمارا ہاتھ ہو، ہم بھی چاہتے ہیں کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔ سنہ 2019 کی پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے سابق آرمی چیف کا موقف ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے،

بھارت نے اپنے براہموس میزائلوں کو پاکستان کی بیسز کی طرف کردیا تھا، اس کے بعد کسی ذریعے سے بھارت کو پیغام دیا گیا کہ اگر ایک بھی میزائل پاکستان آیا تو اس کی جگہ پر تین میزائل ان پر مارے جائیں گے۔ جب بھارت کے تین جہاز گرے تو پاکستان کو اپر ہینڈ مل گیا۔ ابھی نندن کو چھوڑنا جنرل باجوہ کا فیصلہ تھا جس سے معاملات ٹھنڈے ہوئے۔ نیب کے حوالے سے جنرل باجوہ کا موقف ہے کہ اس نے بلا وجہ خوف و ہراس پھیلایا اور اس کی وجہ سے بہت سے ایسے کام جو ملک کے فائدے میں ہوتے نہیں ہوسکے۔ عمران خان کے حوالے سے ذاتی رائے شیئر کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے ذرائع کو بتایا کہ یہ انتہائی جھوٹا شخص ہے ، ایک دن کوئی بات کرتا ہے اگلے دن کوئی بات کرتا ہے، آپ اس کی کہی ہوئی بات پر یقین نہیں کرسکتے ، یہ احسان فراموش انسان ہے، بطور ادارہ ان کیلئے وہ کچھ کیا گیا جس کی مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود اس شخص نے اپنی سیاست اور ذات کی خاطر وہ راستہ اختیار کیا جس پر میر جعفر اور میر صادق کہا گیا۔ جنرل باجوہ نے عمران خان کی حکومت میں دو لوگوں کی تعیناتی کی تجویز دی تھی جن میں سے ایک مشیر قومی سلامتی معید یوسف اور دوسرے وزیر داخلہ اعجاز شاہ تھے۔ اعجاز شاہ کا اپنا ایک ایجنسیوں کا ماضی تھا جس کی وجہ سے ان کا نام دیا گیا تھا۔ منصور علی خان کے مطابق جنرل باجوہ پر قانونی طور پر پابندی ہے کہ وہ دو سال تک آن کیمرا آکر انٹرویوز وغیرہ نہیں دے سکتے
لیکن اگر ان سے کوئی ذرائع کے ذریعے سوالات پوچھتا ہے تو وہ جواب دینے کو تیار ہیں، انہوں نے عمران خان کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں ان کے تمام ثبوت ان کے پاس موجود ہیں۔

Categories
منتخب کالم

پرویز الٰہی کی شجاعت حسین کو دھوکہ دینے کی کہانی،چوہدری سالک حسین کی زبانی

لاہور(ویب ڈیسک) چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین نے انکشاف کیا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی نے پی ڈی ایم کو چھوڑ کر عمران خان سے ہاتھ ملانے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دو مرتبہ فون کیا تھا لیکن انہوں نے دونوں مرتبہ یہی جواب دیا تھا کہ یہ آپ کا اپنا سیاسی فیصلہ ہے، ہم سیاسی معاملات سے الگ ہو چکے ہیں

اور آپ کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لہٰذا آپ اپنا فیصلہ خود کریں۔ تاہم اطلاع یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ پرویز الٰہی کی ڈیل بشریٰ بی بی کے لیول پر ہوئی تھی کیونکہ عمران خان کی گارنٹی بشری بی بی کے علاوہ اور کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انکشاف سالک حسین نے اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری کیساتھ ایک ملاقات میں کیا جس کی تفصیل سینئر صحافی نے اپنی تازہ تحریر میں بیان کی یے۔ جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ میں نے سالک حسین سے پوچھا ’’چوہدری پرویز الٰہی کو جب آسانی کے ساتھ وزارت اعلیٰ مل رہی تھی اور وہ خوش بھی تھے تو پھر انھیں بنی گالا جانے اور اپنا وعدہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ سالک اس سوال پر ہنس کر بولے: ’’یہ ہمارے لیے بھی حیران کن تھا۔ 28مارچ کے دن بارہ بجے تک تمام معاملات ٹھیک چل رہے تھے‘ پرویز صاحب کی گیارہ بجے اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر بات ہوئی‘ انھوں نے ڈار صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فیصلہ ہوا شام کو میاں نواز شریف بھی فون کریں گے لیکن پھر مونس الٰہی نے بتایا پی ٹی آئی کا وفد تھوڑی دیر میں آ رہا ہے۔ والد صاحب نے کہا‘ یہ اب کیا لینے آ رہے ہیں؟ پرویز صاحب کا جواب تھا کہ ہم ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے مل لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر آ گئے‘ ہم سب ان سے ملے‘ وہاں وجاہت حسین‘ طارق چیمہ‘ مونس الٰہی اور حسین الٰہٰی بھی موجود تھے‘ طارق چیمہ کی شاہ محمود سے تلخ کلامی ہو گئی‘ چیمہ صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں عمران خان کو ووٹ نہیں دوں گا خواہ کچھ بھی ہو جائے۔

پرویز صاحب نے بھی صاف انکار کر دیا اور یوں وفد مایوس واپس چلا گیا۔ لیکن بقول سالک حسین، شاہ محمود قریشی جاتے جاتے پورچ میں مونس الٰہٰی کو سرگوشی میں کہہ گئے کہ طارق چیمہ آپ کا کام خراب کر دے گا۔ ہم نے یہ سرگوشی سن لی۔ گھنٹے بعد مونس الٰہی نے سب کو بتایا کہ پرائم منسٹر ہاؤس سے فون آیا ہے، عمران خان پرویز الٰہی سے بنی گالا میں ملنا چاہتے ہیں‘ والد صاحب اور چوہدری وجاہت کا ردعمل یہ تھا کہ ہمیں اب ملنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری بات پکی ہو چکی ہے۔ ہم پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں، پرویز صاحب کا جواب تھا کہ ہم عمران خان سے مل کر اس سے بھی پیچھا چھڑا لیتے ہیں‘ والد صاحب انھیں روکتے رہے لیکن وہ نہ مانے‘ باپ بیٹا جب جانے لگے تو شجاعت صاحب نے ان سے کہا‘ آپ دونوں اس کے ساتھ کوئی وعدہ نہ کرنا‘ دونوں نے کہا‘ بالکل ٹھیک‘ جب پرویز الہٰی اور مونس گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تب بھی والد صاحب نے پرویز صاحب کو بلایا‘ لیکن وہ واپس نہیں آئے ان کی جگہ مونس آیا اور والد صاحب نے اس سے کہا کہ اس سے کوئی وعدہ نہ کرنا، ہماری بات طے ہو چکی ہے۔ یوں یہ دونوں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر ٹکرز چلنے لگے پرویز الہٰی عمران خان کے وزیر اعلی بن گئے ہیں اور ہم سب نے سر پکڑ لیے‘وجاہت صاحب شدید غصے میں تھے۔ پرویز صاحب واپس آ کر سیدھے اپنے کمرے میں گئے اور دروازہ اندر سے لاک کر کے سو گئے۔ وہ دس بجے تک سوتے رہے‘

مونس الٰہٰی نے ہمیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی‘ پرویز الٰہٰی رات دس بجے کمرے سے باہر آئے تو کافی پریشان اور مایوس نظر آئے تھے‘ وہ ہمارے سامنے صوفے پر ڈھیر ہو گئے اور سر جھکا لیا۔ شجاعت صاحب نے ان کی طرف دیکھا تو انھوں نے صرف اتنا کہا میں کنفیوز ہو گیا تھا اور اسکے بعد خاموش ہو گئے‘ بہرحال چوہدری ظہور الٰہی کا خاندان ٹوٹ گیا‘‘۔بقول جاوید چوھدری، میں نے سالک سے پوچھا ’’کیا اس دن کسی کا فون آیا تھا جس کی وجہ سے پرویز الٰہی نے اپنا ارادہ بدل دیا؟‘‘چوہدری سالک حسین کا جواب تھا ’’ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہاں البتہ پرویز الٰہی صاحب نے دو بار آرمی چیف کو فون کیا تھا‘ پہلے دن جب ن لیگ کا وفد ہمارے گھر آیا اور دوسرے دن جب پی ٹی آئی کے لوگ آئے تھے‘‘ میں نے پوچھا ’’اور بات کیا ہوئی تھی؟‘‘ سالک حسین کا جواب تھا ’’جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں مرتبہ جواب دیا تھا یہ آپ کا اپنا سیاسی فیصلہ ہے‘ ہم سیاسی معاملات سے الگ ہو چکے ہیں۔ ہم آپ کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ اپنا فیصلہ خود کریں‘‘ جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ میں نے سالک حسین سے پوچھا ’’یہ بات ناقابل فہم ہے پرویز الٰہی جب پی ڈی ایم کے وزیراعلیٰ بن رہے تھے تو پھر وہ اچانک کیسے بدل گئے؟‘‘ سالک حسین کا جواب تھا ’’ہم خود حیران ہیں لیکن اس گیم کے اصل آرکیٹیکٹ مونس الٰہی ہیں‘ وہ شاید محسوس کر رہے تھے کہ نون لیگ میں ان کی گنجائش کم ہو گی‘ اور پی ٹی آئی میں پولیٹیکل اسپیس زیادہ ہے۔

یوں وہ پرویز الٰہی کے بعد وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں لہٰذا وہ پی ڈی ایم کے مذاکرات میں بھی ان ایزی ہو جاتے تھے۔ ان کے حکومت کے ساتھ بھی آخری وقت تک رابطے رہے تھے لہٰذا وہ پرویز الٰہی کو کھینچ کر اُدھر لے گئے‘‘۔ جاوید کہتے ہیں کہ میں نے سالک حسین سے پوچھا ’’چوہدری وجاہت آخری وقت تک آپ کے ساتھ تھے‘ پھر وہ ان کے ساتھ کیوں مل گئے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’چوہدری شجاعت بوڑھے اور علیل ہیں‘ شاید وجاہت فیملی ان کے بعد چوہدری ظہور الٰہی کی لیگیسی کیری کرنا چاہتی ہے تاہم یہ درست ہے 28 مارچ کی رات تک وہ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس سے شدید ناراض تھے‘‘۔ بقول جاوید، میں نے سالک سے پوچھا کہ ’’آپ اور طارق چیمہ نے 11 اپریل کو پی ڈی ایم کو ووٹ دیا‘ یہ فیصلہ کس کا تھا؟‘‘ وہ بولے ’’ طارق چیمہ نے 27 اور 28 مارچ کو خود ہی اعلان کر دیا تھا کہ میں اپنی بات کا پہرہ دوں گا جب کہ میں نے اس رات سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا‘۔ میں نے والد سے بات کی تو انھوں نے مجھ سے کہا‘ تم خاموش رہو، جب ووٹنگ کا وقت آئے گا تو جا کر پی ڈی ایم کو ووٹ دے دینا لہٰذا میں ووٹنگ کا انتظار کرنے لگا۔‘‘ بقول جاوید چوہدری انہوں نے سالک سے پوچھا ’’کیا فیملی کے اندر پہلے سے اختلافات تھے یا 28 مارچ واحد وجہ بنی؟ انھوں نے تسلیم کیا ’’خاندان کے اندر مسائل چل رہے تھے‘ شجاعت صاحب نے سیاست میں پرویز الٰہی کی بچوں کی طرح تربیت کی‘ شجاعت صاحب نے انھیں سیاست میں ایک طرح سے گود لیا اور پوری زندگی انھیں اپنے سگے بھائیوں سے زیادہ عزت دی لیکن پرویز صاحب اور ان کے بچوں نے اس محبت کا کبھی بھرم نہیں رکھا‘‘۔ جاوید نے پوچھا ’’مثلاً‘‘۔ سالک بولے ’’مثلاً میاں چنوں میں ہماری شوگر مل تھی‘

وہ ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی‘ پرویز صاحب کی منڈی بہاؤالدین کی مل نقصان میں جا رہی تھی‘ انھوں نے ہمیں کہا‘ یہ ایک گندہ کاروبار ہے۔ اس میں بدنامی بہت ہے‘ ہم اس سے نکل جاتے ہیں‘ ہم نے ان کی بات مان لی‘ انھوں نے ہماری چلتی ہوئی شوگر مل اپنی بند ہوتی شوگر مل کے ساتھ بیچ دی اور اپنی نئی اور بڑی سوگر مل لگا لی۔ ہماری والدہ پرویز صاحب کی بہن ہیں تاہم ہمارے مابین کئی ایسے ایشوز موجود تھے لیکن میں ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا‘‘۔بقول جاوید چوہدری انہوں نے سالک حسین سے پوچھا ’’عمران خان کے ساتھ پرویز الٰہی کی ڈیل کس نے کرائی تھی؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہم سب کا خیال ہے یہ ڈیل بشریٰ بی بی کے لیول پر ہوئی تھی۔خسرو بختیار نے مونس الٰہی کا بیگم صاحبہ کے ساتھ رابطہ کرایا تھا‘ یہ دونوں آخری وقت تک ان کے ساتھ رابطے میں تھے‘ ہمارے خاندان سے منسلک ایک اور خاتون بھی درمیان میں تھیں‘ یہ فرح گوگی کی دوست ہیں شاید انھوں نے بھی کوئی کردار ادا کیا ہو‘‘۔ جاوید نے پوچھا ’’ یہ خاتون کون ہیں؟‘‘ سالک حسین نے فوراً جواب دیا ’’میں ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ بشریٰ بی بی کو گارنٹر سمجھتے ہیں‘‘۔ وہ ہنس کر بولے ’’پورے ملک میں صرف بشریٰ بی بی عمران خان کی گارنٹی دے سکتی ہیں۔ وہ عمران خان کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ اور امریکا سے بھی تگڑی ہیں اور ہماری اطلاعات کے مطابق وہی گارنٹر ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’پی ٹی آئی کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کی بیگم یعنی مونس الٰہی کی والدہ یعنی آپ کی پھوپھی پی ٹی آئی کی ممبر ہیں‘‘۔ سالک ہنس کر بولے کہ ’’مونس کی والدہ اور پرویز الٰہی صاحب کی بیگم چوہدری شجاعت حسین کی ہمشیرہ ہیں‘

وہ پی ٹی آئی میں باقاعدہ شامل ہیں یا نہیں میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تاہم یہ حقیقت ہے یہ عمران خان کی فین بھی ہیں اور لبرٹی چوک کے ہر احتجاج میں بھی شریک ہوتی ہیں۔ پرویز صاحب جب بھی عمران خان کے خلاف بولتے تھے تو وہ انھیں بھی منع کرتی تھیں‘‘۔ بقول جاوید چوہدری میں نے سالک حسین سے پوچھا ’’چوہدری شجاعت نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے لیے 22 جولائی کا خط کس کے کہنے پر لکھا تھا‘‘۔ وہ بولے ’’آصف علی زرداری نے چوہدری صاحب کو تیار کیا تھا‘۔وہ ساڑھے پانچ گھنٹے چوہدری صاحب کے پاس بیٹھے اور انھیں راضی کر لیا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا زرداری صاحب اس دن پرویز الٰہی سے بھی ملنا چاہتے تھے‘‘۔ ان کا جواب تھا ’’جی نہیں یہ صرف شجاعت صاحب سے ملنے آئے تھے اور خط کی بات صرف ان دونوں کے درمیان تھی۔ اس میں کوئی تیسرا شخص شامل نہیں تھا‘‘۔ جاوید چوہدری کے بقول انہوں نے سالک سے پوچھا کہ ’’آپ نے ن لیگ کے ساتھ ملنے کا ٹھیک فیصلہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’میں بہت مطمئن ہوں‘ شہباز شریف انتہائی محنتی‘ کلچرڈ اور دوسروں کو عزت دینے والے انسان ہیں‘ وہ عزت ہمیں عمران خان سے نہیں ملی تھی‘ مونس نے مجھے ایک دن کہا تھا ن لیگ والے جس دن تمہیں چھتر ماریں گے تمہیں اس دن ہماری باتیں یاد آئیں گی لیکن یہاں معاملہ باکل مختلف ہے‘ مجھے کام کرنے کا موقع بھی مل رہا ہے اور عزت بھی ہے‘ دوسرا ہم نے اپنی بات کا بھرم رکھنے کے لیے اپنے خاندان کی قربانی دے دی مگر ہم وعدے سے نہیں پھرے لہٰذا ہم مطمئن ہیں۔‘‘

Categories
منتخب کالم

جنرل باجوہ کے سسر اور بہنوئیوں نے بھی مال بنایا۔۔۔سینئر صحافی اسد طور نے بڑا الزام عائد کر دیا

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سینئیر صحافی اسد علی طور نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اثاثوں کے تنازعے پر تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دونوں بہنوئیوں اور سسر جنرل اعجاز امجد نے بھی پچھلے چھ برس میں اربوں روپے بنائے۔ اسد طور نے کہا کہ پچھلے 6 سالوں میں آرمی چیف کے اہلخانہ نے سرکاری ٹیکس ریکارڈ

کے مطابق 12 ارب روپے سے زائد مالیت کے اثاثے بنائے، انکے اہل خانہ نے بیرون ملک کاروبار شروع کیا، پیسہ ملک سے باہر بھجوایا اور پھر کئی غیر ممالک میں قیمتی ترین جائیدادیں بھی خریدیں۔ لیکن اسد طور کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ اور ان کے اہلخانہ نے پھر بھی ہماری قوم پر رحم کھایا ہے ورنہ وہ 12 ارب تو کیا، 1200 ارب روپے کی جائیدادیں اور اثاثے بھی بنا سکتے تھے۔ اسد طور نے اپنی یوٹیوب چینل پر بتایا کہ سابقہ آرمی چیف کے دو بہنوئی لاہور کی پوش پیراگون سوسائٹی میں رہائش پذیر ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ صبح سے شام تک ان کی گلی میں پارکنگ کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ وہاں اپنے کام کروانے کے لئے فائلیں لے کر پھرتے تھے کہ باری آنا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہاں مبینہ طور پر ہر طرح کی ڈیلز ہوتی تھیں۔ دوسری جانب جنرل باجوہ کے سسر ریٹائرڈ میجر جنرل اعجاز امجد بھی بڑے پیمانے پر بزنس ڈیلز کر رہے تھے۔ ذرائع کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے کے لئے جو بھی زمین حاصل کی جاتی تھی اور جو ٹھیکیدار زمینیں لے کر دیتے تھے ان کو بھاری معاوضے ادا کئے جاتے تھے۔ وہ ٹھیکیدار ریٹائرڈ میجر جنرل اعجاز امجد کے قریبی روابط میں تھے اور مل بانٹ کر زمینیں خریدی جاتی تھیں جنہیں بعد میں ڈی ایچ اے میں شامل کروا دیا جاتا تھا اور یوں وہ ہر مہینے اربوں روپے بنا رہے تھے۔ اسد طور کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سب کارروائیوں کے بعد اگر جنرل باجوہ، ان کی اہلیہ، ان کے سسر اور انکے بہن بھائیوں کے ظاہر کردہ اثاثے سرکاری دستاویزات کے مطابق 12 ارب

روپے سے زائد مالیت کے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ انہوں نے تو کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت کم اثاثے بنائے ہیں۔ وہ اگر چاہتے تو 1200 ارب مالیت کے اثاثے بھی بنا سکتے تھے۔ انہیں کون روک سکتا تھا۔ انہوں نے جو مال 6 سال میں بنایا وہ صرف 3 سال میں بھی بنایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاپا جون پیزا فیم والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بطور کور کمانڈر کوئٹہ جو جائیداد اور اثاثے بنائے وہ جنرل قمر باجوہ کے ظاہر کردہ اثاثوں سے کہیں زیادہ ہیں لہذا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سابق آرمی چیف کتنا مال بنا سکتے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل احمد نورانی کی نیوز ویب سائیٹ فیکٹ فوکس پر شائع ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنرل باجوہ کے خاندانی اثاثوں میں پچھلے 6 سالوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ احمد نورانی کے مطابق آرمی چیف کا خاندان ارب پتی بن چکا ہے۔ انکے خاندان نے ایک بین الاقوامی کاروبار شروع کیا، پیسہ پاکستان سے باہر بھجوایا اور بیرون ملک کئی جائیدادیں خریدیں۔ خبر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایک خاتون جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ آرمی چیف کی بہو بننے سے 9 روز قبل تب یکایک ارب پتی بن گئیں جب انہیں ڈی ایچ اے گوجرانوالہ میں 23 اکتوبر 2018 کو 8 عدد پلاٹ گذشتہ تاریخوں میں الاٹ ہوئے اور 2 نومبر 2018 کو وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔ دراصل یہ خاتون صابر مٹھو نامی ایک شخص کی بیٹی ہیں جو جنرل باجوہ کے بیٹے سے بیاہی گئی تھیں۔ نورانی کے مطابق اچانک ارب پتی ہوجانے کا معجزہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر کوئی شخص کسی ایسی اراضی کا

پہلے سے مالک ہو جہاں بعد ازاں ڈی ایچ اے بن گیا ہو۔ اسکے علاوہ اسی روز ماہ نور صابر نامی یہ خاتون کانسٹیٹیوشن ون گرینڈ حیات ٹاور اسلام آباد میں ایک قیمتی اپارٹمنٹ کی مالک بھی بن گئیں۔ یہ وہی وقت تھا جب عمران خان سمیت اور کچھ سیاستدانوں اور ججوں کو بھی اس ٹاور میں اپارٹمینٹ دیے گئے تھے۔ بعد میں اس مشکوک عمارت کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے قانونی قرار دے دیا تھا حالانکہ سی ڈی اے نے اس عمارت کو غیر قانونی قرار دے کر گرانے کی تجویز دی تھی۔ احمد نورانی کی خبر میں جنرل باجوہ کے سمدھی صابر ‘مٹھو’، آرمی چیف کی اہلیہ کے اثاثوں کے حوالے سے بھی الزامات عائد کیے گئے اور کہا گیا کہ تین سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود آرمی چیف کے بیٹوں کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں حاصل ہو سکیں۔ لیکن آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل قمر باجوہ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کے خاندان کے اثاثوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

Categories
منتخب کالم

باجوہ نے آخری وقت تک عمران حکومت بچانے کی کوشش کی،سینئر صحافی حامد میر کا انکشاف

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ جنرل قمر باجوہ نے عمران خان کی حکومت بچانے کی بھرپور کوشش کی اور پی ڈی ایم قیادت پر تحریک عدم اعتماد واپس لینے کے لیے بھر پور دباؤ بھی ڈالا لیکن اپوزیشن جماعتیں ڈٹ گئیں اور عمران کو گھر جانا پڑ گیا، ان کا کہنا ہے کہ

جنرل قمر باجوہ کو آخری وقت تک یقین رہا کہ تحریک عدم اعتماد واپس ہو جائے گی اور انہوں نے عمران خان کو بھی یہی بتایا تھا لیکن کی امیدوں کے برعکس اپوزیشن نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی پی ڈی ایم کی قیادت نے جنرل قمر باجوہ کو تحریک عدم اعتماد لانے کے متعلق گمراہ کیا اور یہی تاثر دیا کہ تحریک نہیں آئے گی۔ جنرل باجوہ جس چینل کے ذریعے پی ڈی ایم سے بات چیت کر رہے تھے اسے اپوزیشن والے غلط بتا رہے تھے کہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جا رہی کیونکہ ہمارے پاس کامیابی کے لیے بندے ہی پورے نہیں ہیں۔ تب کی اپوزیشن اور موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل سیاست دان جان بوجھ کر جنرل باجوہ کو گمراہ کر رہے تھے اور اسی وجہ سے وہ آخر وقت تک غلط فہمی میں رہے۔ یوں اپوزیشن کی سٹریٹجی کامیاب رہی اور وہ عمران خان کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ جیو نیوز کے پروگرام ‘جیو پاکستان’ میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ جس دن شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کر کے یہ فیصلہ سنایا کہ عمران حکومت کے خلاف ہم تحریک عدم اعتماد لے کر آ رہے ہیں اس کے بعد افراتفری مچ گئی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، اہم اداروں کے بہت سارے لوگوں کے تبادلے کر دیئے گئے کہ تم نے ہمیں اس بارے میں بتایا کیوں نہیں۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو تب تک تک فوج تین کور کمانڈرز کانفرنسوں میں بحث مباحثے کے بعد اصولی فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی لہٰذا اب جنرل

باجوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کو تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے نہیں کہہ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں فوج کے ادارے کو بائی پاس کرتے ہوئے یعنی فوج سے بالا بالا اپنے لوگوں کے ذریعے ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت کو پیغام دیا کہ وہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ حامد میر نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں کو اغوا کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کی تفصیل بھی کسی وقت سامنے لاؤں گا۔ تاہم چونکہ جنرل باجوہ کا پیغام براہ راس نہیں تھا اس لئے وہ اتنا موثر ثابت نہیں ہوا۔ دوسری جانب جب پرویز الہیٰ نے شہباز شریف کے ساتھ کمٹ منٹ کر لی تو یہ بھی جنرل باجوہ کے لیے بہت بڑا سرپرائز تھا۔ انہیں لگ رہا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف پرویز الہیٰ کو کبھی قبول نہیں کریں گے مگر ان کا اندازہ یہاں بھی غلط ہو گیا۔ پھر انہوں نے پرویز الہیٰ کو مونس الہیٰ کے ذریعے پیغام بھیجا کہ آپ پی ڈی ایم کی بجائے عمران خان کا ساتھ دیں۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو گئی تو جنرل باجوہ نے پی ڈی ایم میں شامل 13 جماعتوں کے رہنماؤں کو ملاقات کے لیے بلایا اور ان سے کہا کہ تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں تاکہ عمران خان استعفی دے کر گھر چلا جائے۔ مگر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ کر عوام کی نظروں میں گندا نہیں ہونا چاہتے۔ اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم بھی ان کے ہمراہ تھے۔

اس کے بعد جنرل باجوہ نے شہباز شریف اور آصف زرداری سے علیحدہ ملاقات کی لیکن باجوہ کو بتایا گیا کہ عدم اعتماد کا فیصلہ 13 اتحادی جماعتوں کا ہے اور اگر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پیچھے ہٹ گئیں تو مستقبل میں ان کی اتحادی جماعتیں کبھی ان کے ساتھ نہیں چلیں گی۔ اس ملاقات کا ڈی جی آئی ایس آئی کو علم نہیں تھا۔ حامد۔میر کے مطابق جنرل باجوہ اخری دم تک عمران خان کو بچانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے مگر عمران اپنے رویے کی وجہ سے اپنی حکومت نہ بچا سکے اور یہی سمجھتے رہے کہ جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ ڈرامہ کرتے ہوئے ان کو دھوکہ دیا ہے۔ عمران کو یہی لگتا رہا کہ جیسے میں باجوہ کی ساری باتیں مان جاتا ہوں اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کی قیادت بھی ارمی چیف کی بات مان جائے گی۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا اور خان صاحب کا دھڑن تختہ ہو گیا۔