Categories
عید اسپیشل

غلطی سے خریدے گئے لاٹری ٹکٹ پر خاتون کا 1.4 ملین ڈالر کا انعام نکل آیا

دو آسٹریلوی خواتین 1.4 ملین ڈالر کی انعامی رقم کو آپس میں تقسیم کریں گی۔یہ انعامی رقم دونوں میں سے ایک خاتون کی غلطی کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ کنبیرا سے تعلق رکھنے والی خاتون سے جب لاٹری کی انتظامیہ نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ٹکٹ انہوں نے غلطی سے خریدا تھا۔ خاتون نے بتایا کہ وہ اپنی دوست کے ساتھ 20 سال سے ایک ہی لاٹری ٹکٹ لیتی ہیں ۔

ایک ہفتے اُن کی دوست ٹکٹ خریدتی ہیں اور دوسرے ہفتے ٹکٹ خریدنے کی باری اُن کی ہوتی ہے۔ خاتون نے بتایا کہ جب انہوں نے ٹکٹ خریدا تو ٹکٹ خریدنے کی باری اُن کی نہیں تھی ، انہوں نے اسے اپنی باری کا ہفتہ سمجھ کر غلطی سے ٹکٹ خرید لیا تھا۔خاتون نے بتایا کہ انہیں اپنی اس غلطی کی بہت خوشی ہے کیونکہ اس غلطی سے اُن کا 1,445,922.15ڈالر کا انعام نکل آیا ہے، جسے وہ اپنی دوست کے ساتھ بانٹ لیں گی۔

Categories
عید اسپیشل

خاتون کی 14 سال سے مسلسل کھانسی کا سبب پھیپھڑوں میں پھنسی ہوئی ہڈی نکلا

ایک 22 سالہ چینی خاتون پچھلے 14 سالوں سے مسلسل کھانسی کی تکلیف میں مبتلا تھیں۔ وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ اس کھانسی کا سبب 14 سال پہلے پھیپھڑے میں پھنسنے والا مرغی کی ہڈی کا ایک ٹکڑا تھا۔ یہ ٹکڑا اُن کے پھیپھڑوں میں اس وقت پھنسا تھا جب اُن کی عمر 7 یا 8 سال تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے کئی بار ہسپتالوں کے چکر لگائے لیکن کوئی بھی مسلسل کھانسی کا سبب نہ جان سکا۔

خاتون اپنے علاج کی کوشش کراتی رہیں۔ کئی بار ڈاکٹروں نے انہیں غلط تشخیص کی۔ ایک بار ڈاکٹروں نے انہیں سانس کی نالیوں کا پھیلاؤ تشخیص کیا۔کئی سال تک وہ اینٹی بائیوٹک لے کر علاج کرتی رہیں لیکن سب بے سود رہا۔ س کا اصل مرض بھی اتفاق سے ہی سامنے آیا ہے۔ وہ ہائپرہائیڈروسس کے لیے سرجری کرانا چاہتی تھیں۔
سرجری سے پہلے ڈاکٹروں نے اُن کے چند ٹسٹ لکھ دئیے، جس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ وہ سرجری کے لیے صحت مند ہیں یا نہیں۔ جب خاتون کی سانس کی بیماری کا معاملہ سامنے آیا تو گوانگژو یونیورسٹی آف چائنز میڈیسن کے فرسٹ ایفیلیٹڈ ہوسپیٹل کے شعبہ کارڈ یو تھوراسک سرجری کے سربراہ وانگ جییونگ نے خاتون کا سی ٹی سکین کرانے کا کہا۔ سی ٹی سکین سے معلوم ہوا کہ خاتون کے دائیں پھیپھڑے میں کوئی بیرونی شے ہے۔ اس پر سرجن یانگ منگ نے اس بیرونی شے کی شناخت کے لیے برونکوسکوپی کا فیصلہ کیا۔ نہوں نے ایک پتلی نالی کو کیمرے اور لائٹ کے ساتھ خاتون کے گلے میں ڈالا اور پھیپھڑے تک پہنچا دیا۔ آدھے گھنٹے میں انہوں نے اسے برونکوسکوپ سے باہر نکال دیا۔باہر نکلنے پر معلوم ہوا کہ یہ مرغی کی ہڈی کا ایک ٹکڑا تھا، اس کا سائز دو سینٹی میٹر تھا۔ خاتون بھی اس ٹکڑے کودیکھ کر حیران رہ گئی۔ انہیں یاد ہی نہیں کہ یہ کس طرح ان کے پھیپھڑے تک پہنچا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ حادثاتی طور پر اُن کے پھیپھڑے میں چلا گیا ہوگا۔

Categories
عید اسپیشل

آئی فون کے شوقین نے گھر کے جنگلے پرٹائلوں کی جگہ سینکڑوں آئی فون 6 سجا دئیے

ٹِک ٹاک کی ایک وائرل ویڈیو میں ایک گھر کے جنگلے پر لگے سینکڑوں آئی فون 6 نے صارفین کو حیران کر دیا ہے۔یہ ویڈیو ایشیا میں کافی مقبول ہو رہی ہے اور اس کی صداقت کے حوالے سے کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ آئی فون 6 کافی پرانا ہو چکا ہے لیکن بہت سے لوگ اسے آج بھی اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلے کے ساتھ نصب سینکڑوں آئی فون 6 نے صارفین کو حیران کر دیا ہے۔

اس ویڈیو کو ویت نامی صارف minhhienapple نے پچھلے ہفتے پوسٹ کیا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس گھر کے مالک نے جنگلے کے ساتھ ستون پر مہنگی ٹائلیں لگانے کی بجائے آئی فون 6 کو بطور ٹائل لگانا پسند کیا ۔جنگلے کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے انہوں نے کئی سو آئی فون 6 استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔اس ویڈیو پر تبصرے کرنے والے بہت سے صارفین نے انہیں آئی فون 6 کے سٹیکر قرار دیا جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ اصل آئی فون 6 ہو سکتے ہیں۔

Categories
عید اسپیشل

ترکی کے فن کار نے 0.35 انچ کی دنیا کی سب سے چھوٹی شطرنج بنا لی

ترکی کے ایک فن کار، جو چھوٹی اشیا بنانے کے ماہر ہیں، نے دنیا کی سب سے چھوٹی شطرنج بنائی ہے، تاہم ابھی اس کا اندراج گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نہیں کیاگیا ہے۔ اس شطرنج کی لمبائی اور چوڑائی 0.35 انچ ضرب 0.35 انچ ہے۔ نیکاتی کورکماز کی بنائی ہوئی یہ شطرنج موجودہ عالمی ریکارڈ کی حامل شطرنج سے دوگنا چھوٹی ہے۔ نیکاتی نے اس شطرنج کو 6 ماہ میں ہر روز 6 گھنٹے کام کر کے بنایا ہے۔

نیکاتی کا کہنا ہے کہ یہ خوردبینی شطرنج قابل استعمال ہے۔ اس پر شطرنج پر کھیلنے کے لیے کھلاڑیوں کو خوردبین اور خصوصی سٹک کی ضرورت پڑتی ہے۔ نیکاتی کے بنائے ہوئے 40 سے زیادہ خوردبینی فن پارے کوشاداسی، ترکی کے نیکاتی کورکماز مائیکرو منییچر آرٹ سنٹر اینڈ ایگزیبیشن ایریا میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ نیکاتی کا کہنا ہے کہ وہ خوردبینی شطرنچ کا عالمی ریکارڈ درج کرانے کے لیے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو شواہد فراہم کریں گے۔ اس وقت دنیا کی سب سے چھوٹی شطرنج کی لمبائی اور چوڑائی 0.6 انچ ضرب 0.6 انچ ہے۔ اسے امریکی فن کار آرا غازارین نے بنایا تھا۔

Categories
عید اسپیشل

ایک ہی قرعہ اندازی کے لیے ایک جیسے 25 ٹکٹ خریدنے والا 25انعام جیت گیا

ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ایک غیر معمولی جواری کی قسمت اس وقت جاگی جب انہوں نے ایک ہی قرعہ اندازی کے لیے ایک جیسے یعنی ایک ہی نمبر کے 25 ٹکٹ خریدے اور ان کا مجموعی طور پر 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر کا انعام نکل آیا۔ یمنڈ ہرینگٹن نے ورجینیا لاٹری کے عملے کو بتایا کہ انہوں نے ورجینیا بیچ کے ایک سٹور سے 17جولائی کو ہونے والی قرعہ اندازی کے لیے 1 ڈالر کے 25 ٹکٹ خریدے۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا ”کسی نے مجھے کہا کہ 25 بار کھیلو“۔ ریمنڈ کی اس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہیں پتا چلا کہ ان کا نمبر چار چھ چار صفر پر انعام نکل آیا ہے۔ اس نمبر کے ایک ٹکٹ پر 5 ہزار ڈالر کا انعام نکلا تھا۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر ملے۔ریمنڈ نے بتایا کہ اس رقم سے وہ اپنے دو بیٹوں کی مدد کریں گے، جو اس وقت کالج میں پڑھتے ہیں۔

Categories
عید اسپیشل

نیوزی لینڈ میں شارک کا عجیب و غریب بچہ دریافت

سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں پائی جانے والی نایاب شارک کا ایک بچہ دریافت ہوا ہے جو دکھنے میں کسی دوسری ہی دنیا کی مخلوق لگتا ہے۔برطانوی ٹی وی کے مطابق گھوسٹ شارک جنہیں کیمائرابھی کہا جاتا ہے بہت مشکل سے نظر آتی ہیں جبکہ ان کے بچوں کا نظر آنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ایک جزیرے کے قریب 1.2 کلو میٹر کی سمندری گہرائی میں یہ بچہ پایا گیا جو اسی وقت انڈے سے نکلا تھا۔

سائنسدانوں کی ٹیم نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس دریافت سے گھوسٹ شارک کے حمل کے مراحل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ٹیم کی ایک ممبر ڈاکٹر برٹ فنوچی کا کہنا تھا کہ شارک کے بچے کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی ہے۔ اصل میں پانی تلے آبی جانداروں کی آبادی سے متعلق تحقیق کی جارہی تھی جب یہ بچہ انڈے سے نکلا۔انہوں نے یہ بھی کہا سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے جاندار عام طور پر نظر نہیں آتے بالخصوص شارک کی یہ قسم۔

Categories
عید اسپیشل

بعض وھیل ساتھی کی تلاش میں 6000 کلومیٹر کا سفر بھی کرتی ہیں،تحقیق

اگرچہ وھیل گہرے پانیوں میں لمبے سفر کی عادی ہوتی ہیں لیکن بالخصوص نسل خیزی اور ملاپ کے وقت وہ قدرتے سرگرم ہوکر اپنے ساتھی کی تلاش میں 6000 کلومیٹر تک کا فاصلہ پورا کرتی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ہمپ بیک وھیل دنیا کے بڑے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ وہ موسمِ گرما مین الاسکا اور کینیڈا میں رہتی اور کھاتی ہیں۔

پھر سردیوں میں وہ نسل خیزی کے لیے ہوائی یا پھر میکسیکو تک جاتی ہیں۔ سائنسداں اب تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ یہ دومقامات ان کے جنسِ مخالف سے ملاپ کے اہم مقامات ہیں۔ لیکن طویل فاصلے تک سفر کرنے والے وھیل کی سیٹیوں اور گیتوں سے کچھ مزید معلومات سامنے آئی ہے۔ہوائی میں واقع وھیل ٹرسٹ سے وابستہ ڈاکٹر جیمز ڈارلنگ اور ان کے ساتھیوں نے شمالی اوقیانوس میں تیرنے والی ہمپ بیک وھیل کی 1977 سے اب تک لی جانے والی 26000 تصاویر کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔
وھیل کے جلد کی رنگت اور دم کے اوپر دھاریاں انہیں انفرادی شناخت دیتی ہیں۔ پھر سافٹ ویئر کی مدد سے سائسدانوں نے ایک ہی موسمِ سرما کے دورِ نسل خیزی میں دو وھیل کو شناخت کیا جو ہوائی گئیں اور وہاں سے میکسیکو تک پہنچیں۔ایک نر وھیل نے 4545 کلومیٹر سفر کیا جس میں 53 دن لگے۔ پہلے یہ نروھیل ہوائی جزیرے اولووالو گیا جہاں کچھ وقت ایک غول کے ساتھ گزارا۔ ھر اس نے میکسیکو کے کلیریئن جزیرے پر تین وھیل کے ساتھ رہا۔دوسرا بھی غالبا نر وھیل تھا جس نے 2018 میں 49 دن میں 5944 کلومیٹر کا سفر کیا جو میکسیکو پہنچا اور اس کے بعد ہوائی کے آواو چینل پہنچا۔ یہاں سات نر وھیل نے ایک مادہ سے ملاپ کی کوشش کی اور اسے لبھایا۔ پھر موسمِ گرما میں یہ دونوں وھیل کینیڈا اور الاسکا میں بھی دیکھی گئیں۔ماہرین نے ثابت کیا کہ صرف نر ہی نہیں بلکہ مادہ وھیل بھی سمندروں میں بہت طویل سفر کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق وھیل ایک گھنٹے میں چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہیں۔

Categories
عید اسپیشل

خود اعتمادی کی اہمیت

ایک بزنس ایکزیکٹو قرضے میں ڈوب چکا تھا اور اسے اس سے نکلنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آرہا تھا۔ قرض دہندگان اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ سپلایئرز پیسے مانگ رہے تھے۔ وہ ایک پارک میں سار ہاتھوں میں دیے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اسکی کمپنی کودیوالیہ پن سے بچانے کےلیے کیا کیا جائے۔

اچانک ایک بوڑھا آدمی اس کے سامنے آیا اور کہا: میں دیکھ سکتا ہوں تمہیں کوئی چیز پریشان کر رہی ہے۔ ایکزیکٹو نے اپنی ساری کہانی اسے سنائی تو اس نے کہا:مجھے لگتا ہے میں تمھاری مدد کر سکتا ہوں۔ بوڑھے نے اس آدمی سے اسکا نام پوچھا، ایک چیک لکھا اور اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ یہ لو پیسے اور مجھے ایک سال بعد یہیں ملنا اور واپس کر دینا۔ وہ مڑا اور پھر اسی پھرتی سے غائب بھی ہو گیا جس سے آیا تھا۔ بزنس ایکزیکٹو نے اپنے ہاتھ میں 500،000 ڈالرز کا ایک چیک دیکھا جس پر جاھن ڈی روکفیلر کے دستخط تھے جو کہ اس وقت کا دنیا کا امیر ترین انسان تھا۔ اس نے بھانپ لیا کہ وہ اب اپنی پریشانیاں جھٹ میں دور کر سکتا ہے۔ لیکن اس نے اس چیک کو اپنی سیف میں محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا یہ سوچتے ہوئے کہ شاید یہ ایسے ہی پڑا ہوا اس میں کام کرنے کا اعتماد بحال کر دے۔ نئی امید کی وجہ سے اس نے نئے لین دین کو بہتر طریقے سے سلجھانا شروع کر دیا۔ اس نے لین دین میر اور فراوانی پیدا کر دی اور بڑے بڑے معرقے فتح کیے۔ کچھ ہی ماہ بعد وہ قرضے سے نکل آیا تھا اور دوبارہ سے دولت بنانے لگ گیا تھا۔ پورے ایک سال بعد وہ اس پارک واپس آیا تاکہ وہ چیک اس آدمی کو واپس کر سکے۔ اپنے کیے ہوئی وعدے کے مطابق وہ بوڑھا آدمی آہی گیا۔ لیکن جیسے ہی ایکزیکٹو نےاسے چیک واپس تھمانے اور اپنی کامیابی کی داستان سنانے کی کوشش کی، ایک نرس بھاگتی ہوئی آئی اور اس بوڑھے آدمی کو پکڑ لیا۔ وہ خوشے سے چلا دی کہ اس نے اس بوڑھے آدمی کو پکڑ ہی لیا اور کہا: میں امید کرتی ہوں کہ اس نے آپکو تنگ نہیں کیا ہوگا۔یہ ہمیشہ علاج گاہ سے بھاگ آتا ہے اور سب کو کہتا ہے کہ

یہ جاھن ڈی روکفیلر ہے۔ پھر اس کے بعد وہ وہ اس بوڑھے کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔ حیران زدہ ایکزیکٹو وہیں کھڑا ہوگیا کہ سارا سال اس نے اس سہارے پر لین دین کیے، نئے گاہک بنائے، نئے کاروباری پلان بنائے اور کام کیا، لوگوں کو قائل کیا کہ اس کے پاس 500،000 ڈالرز ہیں۔ مگر حقیقت میں اس کے پاس کچھ نہ تھا سوائے اس پر اعتمادی کے جس نے اسے آگے بڑھایا اور اس میں ایک نئی طاقت پھونک دی تب جب کہ وہ بالکل ہار مان چکا تھا۔ انسان کا خود پر اعتماد ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ کیونکہ خود اعتمادی ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔

Categories
عید اسپیشل

اولاد

ایک بوڑھا آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ رہنے کے لیے گیا۔ کوئی تیسرا دن تھا کہ اس کے بیٹے اور بہو نے نوٹ کیا کہ وہ کھاتے وقت ہاتھوں کی کپکپی کی وجہ سے جگہ جگہ کھانا گرا دیتا تھا اور ایک دن تو اس نے حد کردی کہ اس سے اچانک تھوڑی سی چائے بھی ڈائننگ ٹیبل پر ڈل گئی۔ سارا دستر خوان بیڑہ غرق ہو گیا۔ چائے کی پیالی نیچے فرش پر گر کر کرچی کرچی ہو گئی۔ بوڑھے کو بہت شرمندگی ہو ئی۔ اس کے بیٹے اور بہو نے سوچا کہ

ایسے تو روز روز گند مچے گا کیوں نہ ابا جی کی ایک سادی سی لکڑی کی میز ایک کونے میں علیحدہ لگا لیں۔ان کے لیے برتن بھی علیحدہ کردیے۔لکڑی کے پیالے اور لکڑی کی پلیٹ چمچ علیحدہ کرکے ابا جیکو ان میں کھانا پینا دینے لگے۔ ایک دن میاں بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بیوی ٹی وی دیکھ رہی تھی اور شوہر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس کی نظر اپنے چار سالہ بیٹے پر پڑی۔۔اس نے بیٹے سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو۔ بچے نے ہاتھ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جمع کر رکھے تھے۔۔ ہاتھ کھول کے اپنے باپ کو دکھائے اور بولا کہ آپ اور امی جب بوڑھے ہو جا ئیں گے تو میرے پاس رہیں گے نا۔ اس وقت کے لیے آپ دونوں کے لیے لکڑی کے برتن بنا رہا ہوں کیوں کہ آپ دونوں علیحدہ ٹیبل پر اکیلے کھایا کریں گے نا۔ بچے کی بات سن کر خاوند دم بخود رہ گیا اور بیوی کی طرف دیکھا جو ٹیوی چھوڑ چھاڑ کے بچے کی بات پر رنجیدہ تھی۔ اگلے دن سے دونوں میاں بیوی نے کونے والا ٹیبل باہر پھینک دیا اور بچے کے داداجان بھی باقی سب کے ساتھ کھانا کھانے لگے۔ آج بھی بڑھاپے کی وجہ سے ان سے کبھی چائے گرتی ہے تو کبھی سالن مگر اب ان کا بیٹا اور بہو کوئی شکایت نہیں کرتے۔ انسان جو کچھ بھی اپنی اولاد کو سکھاتا ہے اپنے اعمال کی پاداش اور اپنی تربیت سے سکھاتا ہے۔ جو بھی آج ہم بوئیں گے وہی کل ہم نے کاٹنا ہے تو اپنی رویے کو سب کے ساتھ بہتر بنائیں تاکہ آپ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کر سکیں۔

Categories
عید اسپیشل

اشفاق احمد کہتے ہیں

میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے، اس کے میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں، عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے، میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں،

میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی، بابا نے کہا، اشفاق احمد کہتے ہیں میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے سے خصوصی محبت تھی۔اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بنا محنت کیے اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے اماں نے جیسے ہی مٹھی آگے کی مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا کبھی بائیں کبھی شمال کبھی جنوب۔ سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اس کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔ بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے فٹ سے جواب دیا نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا نہ ذلیل ہوتا، بابا بولا بالکل ٹھیک، افتخار افی یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے تو اللہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور

اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تو نے اللہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔ بابا عجیب سی ترنگ میں بولا پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا ان کی تعریف کرنے والا ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو معاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کر لو امر ہو جاؤ گے۔ یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سر جھکائے زار و قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا، اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔ آمین

Categories
عید اسپیشل

نیوٹن

نیوٹن دنیا کا مشہور سائنس دان تھا۔ اس کے تین قوانین آج بھی دنیا بھر میں پڑھائے جاتے ہیں۔ نیوٹن سے کسی نے ایک بار پوچھا‘تم سے پوری دنیا متاثر ہے‘ کیا آج تک تمہیں بھی کسی نے متاثر کیا‘ نیوٹن نے مسکرا کر جواب دیا ”ہاں میرے ملازم نے‘ پوچھنے والے نے پوچھا‘وہ کیسے‘ نیوٹن بولا‘میں سردیوں میں ایک بار ہیٹر کے پاس بیٹھا تھا‘ مجھے اچانک گرمی محسوس ہونے لگی‘ میں نے اپنے ملازم کو بلوایا اور اس سے ہیٹر کو دھیما کرنے کی درخواست کی“ ملازم میری بات سن کر ہنسا اور اس نے کہا‘

style=”text-align: right;”>جناب آپ بھی بڑے دلچسپ انسان ہیں‘ آپ کو اگر گرمی محسوس ہو رہی ہے تو آپ مجھے آواز دینے یا ہیٹر دھیما کرنے کی بجائے اپنی کرسی کو گھسیٹ کر آگ سے ذرا سا دور کر لیتے‘ آپ کا مسئلہ فوراً حل ہو جاتا‘ نیوٹن کا کہنا تھا‘میرے ملازم کا بتایا ہوا وہ اصول میرے تینوں اصولوں پر بھاری تھا‘ اس نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق دیا اور یہ سبق یہ تھا کہ اگر آپ کو گرمی لگ رہی ہے تو آپ آگ بجھانے کی بجائے یا کسی کو مدد کیلئے طلب کرنے کی بجائے‘ اپنی کرسی کو آگ سے ذرا سا دور ہٹا لیں‘ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس نے مجھے سبق دیا تھا کہ اگر آپ رزق کی تنگی کا شکار ہیں تو آپ اپنے آپ کو خواہشات کی انگیٹھی سے دور کر لیں‘ آپ قناعت اختیار کر لیں تو آپ بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے‘ آپ اللہ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

Categories
عید اسپیشل

دس باتوں نے مجھے بِل گیٹس بنایا

بل گیٹس کہتے ہیں کامیابی کا راستہ بہت مشکل اور کٹھن ہوتا ہے‘ کامیابی کے سفر میں آپ کو پریشانیاں‘ دقتیں اور مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں لیکن آخر میں ہرے بھرے باغ انہیں کو ملتے ہیں جو سچی لگن سے محنت کرتے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ اپنی کامیابی کا راز وہ 10 سنہری اصولوں میں بتاتے ہیں اور کہتے ہیں زندگی میں تمام تر کامیابی اور تجربے کا نچوڑ یہ 10گولڈن اصول ہیں۔ زندگی: زندگی آسان نہیں ہے‘ کوئی بھی شخص خوش قسمت اور پرفیکٹ پیدا نہیں ہوتا لیکن

right;”>اپنی زندگی بدلنے کا اختیار خدا نے انسان کو دیا ہے‘ کامیابی اور ناکامی‘ دولت اور شہرت‘ عزت اور ذلت انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ یاد رکھیے آپ کی زندگی کا اسٹیرنگ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ کامیابی: یہ دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتی‘ دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ کون ہیں‘ کہاں سے آئے ہیں‘ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں‘ ہاں اگر آپ کامیاب ہو جاتے ہیں تو ساری دنیا آپ کے ساتھ ہے‘ کامیابی آپ کے حالات‘ رویے اور خود اعتمادی کو بدل کر رکھ دے گی۔ محنت: کامیابی کبھی بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی‘ آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور اسکی قیمت ”محنت“ ہے‘ اس لیے یہ سوچنا بند کر دیں کہ کامیابی آسمان سے آپ کی جھولی میں گرے گی‘ محنت کے بغیر کامیابی کو بھول جانا بہتر ہے۔۔۔ایٹی چیوڈ: آپ سمجھتے ہیں سکول میں ٹیچر بہت سخت تھے‘ جاب میں باس بہت غصے والے ہیں‘ بزنس میں کلائنٹس بہت مشکل ہیں‘ مسئلہ ان سب لوگوں کے ساتھ نہیں ایشو آپ کے ایٹی ٹیوڈ کا ہے‘ زندگی‘ حالات اور لوگوں کے بارے میں اپنے ایٹی ٹیوڈ کو تبدیل کیجئے‘ زندگی میں کامیابی اور ناکامی کا بہت بڑا انحصار آپ کے ایٹی ٹیوڈ پر ہوتا ہے۔ اہمیت: ہر چھوٹی اور بڑی چیز کی اہمیت ہوتی ہے کبھی مت سوچئے کہ آپ کی جاب یا بزنس چھوٹا ہے یاد رکھیے چھوٹی جاب اور چھوٹا بزنس ہی ایک دن اچھی جاب اور بڑے بزنس میں تبدیل ہوتے ہیں۔۔۔۔ غلطیاں: غلطیوں سے سیکھئے‘ اس دنیا میں کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہے اور ہر کوئی غلطیاں کرتا ہے‘ اہم یہ ہے کہ آپ اپنی غلطیوں سے کتنا سیکھتے ہیں‘

غلطیاں ضرور کیجئے لیکن ان سے سیکھیے اور انہیں کبھی مت دوہرایے‘ اسی طرح آپ اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔۔۔۔ انحصار: زندگی میں بہت سارے فیصلے اور کام آپ کو خود کرنے پڑتے ہیں‘ دوسرے لوگوں پر انحصار مت کریں اور اپنے تمام فیصلے اور کام خود کریں‘ اگر آپ ہر فیصلے اورکام کیلئے دوسرے لوگوں پر انحصار کریں گے تو زندگی میں ایک سٹیج پر ہر فیصلے اور کام کیلئے کسی نہ کسی کے محتاج ہو نگے‘ اور یہی چیز آپکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔۔۔۔ چانس: آپ کے پاس صرف ایک چانس ہوتا ہے‘ ہماری زندگی میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف ایک دفعہ ہوتی ہیں اور آپ کو وہ چانس لینا چاہیے۔ وقت: وقت کی قدر کریں‘ ہمارے پاس ایک دن میں 24 گھنٹے اور ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں‘ آپ کو انھیں بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے‘ آپ اپنے وقت کوکس طرح استعمال کرتے ہیں یہی چیز آپ کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرتی ہے۔۔۔ حقیقت: ہمیشہ زمینی حقائق کو مد نظر رکھیے‘ جو کچھ آپ ٹی وی اور فلموں میں دیکھتے ہیں وہ سب مصنوعی ہے‘ اصل زندگی میں آپ کو باہر نکلنا پڑتا ہے‘ کام کرنا پڑتا ہے اور نتائج لانے پڑتے ہیں .

Categories
عید اسپیشل

10 وجوہات جو مسکراہٹ کواہم بناتی ہیں

کیا آپ کو یاد ہے کہ آخری بار کب مسکراہٹ آپ کے چہرے پر جگمگائی تھی؟ ایسا مشکل سوال تو نہیں مگر پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں ہر روز نت نئے بحران سامنے آتے رہتے ہیں خوشی کے لمحات بہت کم ہی رہ گئے ہیں۔ مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چہرے کا یہ عام تاثر صرف مزاج ہی خوشگوار نہیں بناتا بلکہ اس کے دیگر حیرت انگیز فوائد بھی ہیں۔

ہر سال اکتوبر کے پہلے جمعے کو مسکراہٹ کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور حدیث نبویٰ بھی ہے کہ مسکراہٹ صدقہ ہے۔ جسمانی اور ذہنیطور پر بہتر محسوس کرنا ہمارے چہرے کے تاثرات ہمارے مزاج پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ جذبات دماغ میں جگہ بناسکتے ہیں مگر ہمارے چہرے کے مسلز کی حرکت احساسات کو تبدیل کردیتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سامنے آنے والی تحقیقی رپورٹس کے مطابق مسکراہٹ مثبت جذبات کو بڑھاتی ہے یا کم از کم منفی جذبات کو دبا دیتی ہے اور مزاج میں خوشگواریت محسوس ہونے لگتی ہے۔ مصنوعی مسکراہٹ میں کارآمد مسکراہٹ، چاہے آپ خوشی محسوس نہ بھی کررہے ہوں، تب بھی مزاج یا موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈارون نے تو 1872ئ میں ہی کہہ دیا تھا کہ چہرے کے تاثرات میں تبدیلی جذباتی تناؤ کو تبدیل کردیتے ہیں اور اب سوئیڈن کی اپسلا یونیورسٹی کی تازہ تحقیق میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے مصنوعی مسکراہٹ نہ صرف مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ اسے خوشگوار بھی بنادیتی ہے۔ اب چاہے کتنا بھی غصہ یا مشکل حالات ہو اور ہم واقعی خوشی محسوس نہ کررہا ہو تو بھی مسکراہٹ کے ذریعے اپنے مزاج کو بہتر بنانا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔سنجیدہ چہروں پر مسکراہٹ کیسی لگتی ہے؟ تناؤ میں کمی امریکا کی کنساس یونیورسٹی کی 2012 کی تحقیق کے مطابق مسکراہٹ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے جسکی وجہ دل کی دھڑکن کی رفتار میں کمی آنا ہوتی ہے۔ اور یہ چیز ہمارے ذہن پر سوار تناؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، اس طرح مشکل حالات میں خود کو تناؤ سے پاک رکھ کر چیلنجز کا سامنا کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ قابل اعتماد بناتی ہے پٹس برگ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق مسکراتا چہرہ لوگوں کو اس فرد کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد لگتا ہے جو مسکرا نہ رہا ہے۔ تحقیق کے مطابق مسکراہٹ سے چہرے کی کشش بڑھ جاتی ہے۔ اور

لوگوں کے اندر اس پر اعتماد کرنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہرے پر مسکراہٹ جتنی بڑی ہوگی وہ فرد اتنا ہی زیادہ قابل اعتماد نظر آئے گا۔ دماغی تربیت کے لیے بہترین دماغ منفی چیزوں کو زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے تاہم مسکرانے کی عادت ہمارے ذہن کو زیادہ مثبت اور پر امید رہنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزمرہ میں مسکراہٹ کو عادت بنالینے سے ہمارے دماغ کے اندر خوشی کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے مثبت سوچ کو بڑھاوا ملتا ہے۔ مسکراہٹ چھوت کی طرح پھیلتی ہے کیا کبھی آپ نے نوٹس کیا کہ آپ کی مسکراہٹ کے جواب میں دوسرا فرد بھی مسکرانے لگتا ہے؟ تو سائنس کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کسی کو مسکراتے دیکھ کر ہمارے دماغ میں کچھ خاص خلیات حرکت میں آجاتے ہیں اور ہم لاشعوری طور پر مسکرانے لگتے ہیں۔ یہ چیز درحقیقت انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح ہیولیٹ پیکارڈ کی ایک تحقیق کے مطابق کسی دوست، رشتے دار بلکہ کسی اجنبی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے سے بھی ہمارے دل اور دماغ میں ایسی خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے جو چاکلیٹ کھانے یا پیسوں کے حصول وغیرہ سے بھی زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ خاص طور پر کسی بچے کی مسکراہٹ کو دیکھنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔رشتے مضبوط بناتی ہے جو لوگ زیادہ ہنستے مسکراتے ہیں ان کی شادیاں بھی زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔ ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن خواتین کی مسکراہٹ نمایاں ہوتی ہے وہ اپنی شادیوں سے زیادہ مطمئن بھی ہوتی ہیں، جبکہ جتنا زیادہ کوئی خاتون مسکراتی ہے اس کی شادی بھی طویل عرصے تک برقرار بھی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہنسنے مسکراتے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ پرامید، خوش باش اور جذباتی طور پر مستحکم بھی ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں صحت مند رشتے کا سبب بنتی ہیں۔ دفتری کام میں مددگار ہونٹوں کو کچھ دیر کے لیے پھیلانا دفتر میں نہ صرف مزاج کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ

آپ کو ایک محنتی اور اچھا ورکر بھی بنادیتی ہے۔ 2010 کی ایک تحقیق کے مطابق خوشی ایک ایسا عنصر ہے جو دفاتر میں کام کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ضروری اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مثبت جذبات ہی کامیابی کی منزل کی جانب لے جاتے ہیں جبکہ منفی سوچ نیچے گرا دیتی ہے۔ تخلیقی سوچ کا حامل بنائے مسکراہٹ ذہن کے ان گوشوں کو جلا بخشتی ہے جو تخلیقی کاموں میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ زیادہ ہنسنے مسکرانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں مسائل کا سامنا کرتے ہوئے بہترین حل سوچنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ درحقیقت مسکراہٹ سے ڈوپامائن نامی ہارمون دماغ میں کارج ہوتا ہے جو خوشی کا احساس دلاتا ہے اور کسی فرد کی فیصلہ سازی اور معلومات کی تجزیے کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔ مسکراہٹ بالکل مفت ہے تو اگر آپ تناؤ کم کرنا چاہتے ہیں، رشتے مضبوط یا کسی کا دن روشن کرنا چاہتے ہیں تو مسکراہٹ موثر ترین حکمت عملی ہے متعدد مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جس پر آپ کی جیب سے کچھ خرچ نہیں ہوتا۔

Categories
عید اسپیشل

انٹرویو میں ان 5 بنیادی غلطیوں سے بچیں

اس جدید اور تیز رفتار دور میں کسی نوکری کے لیے اہل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ کو یہ ملازمت مل جائے گی۔ یہاں انٹرویو کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔آپ کو نوکری پر رکھنے والے آپ سے یہ امید نہیں کررہے ہوتے کہ آپ بغیر کسی غلطی کے اپنا انٹرویو مکمل کرلیں گے تاہم کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن سے بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے۔ ہم یہاں آپ کو ایسی ہی پانچ عام غلطیاں بتارہے ہیں جو

عام پر انٹرویو کے دوران ہوجاتی ہیں۔تفصیلات میں نہ جانا انٹرویو لینے والے افراد یہ بات جاننا چاہتے ہیں کہ آپ نے ماضی میں کیا حاصل کیا ہے۔ تفصیلات میں جائے بغیر بات کرنے سے آپ اپنے انٹرویور کے لیے مشکل پیدا کردیں گے کہ وہ آپ کو اس نوکری کے لیے منتخب کرے۔ مثال کے طور پر یہ کہنا ہے کہ ‘میں آن لائن مارکیٹنگ کے بارے بہت کچھ جانتا ہوں’ اس کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ ‘پچھلی نوکری میں میں آن لائن مارکیٹنگ ٹیم کا سربراہ تھا اور میری تجاویز کے باعث ہماری سوشل میڈیا پر انگیجمنٹ 40 فیصد بڑھ گئی۔’ بہت لمبے جواب دیناغیر ضروری طور پر اپنے جوابات لمبے کرنے سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ آپ اپنے خیالات کا اظہار کم الفاظ میں کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ یہ کسی بھی انٹرویور کے لیے ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے جسے آپ کے علاوہ بھی کئی افراد کے انٹرویو کرنے ہیں۔ انٹرویور کی جانب سے اشاروں کا جائزہ لیں اور اگر وہ آپ کے جوابات میں مداخلت کررہا ہے تو یہ ایک اشارہ ہے کہ آپ شاید ضرورت سے زیادہ وقت لے رہے ہیں۔ اگر انٹرویو کے دوران انٹرویو کرنے والا شخص آپ سے یہ کہتا ہے کہ ان کے پاس 45 منٹ اور متعدد سوالات ہیں تو اس کا مطلب پہلے سوال کا جواب آپ کو دس منٹ کے اندر ختم کرلینا چاہیے۔ کمپنی یا نوکری کے بارے میں لاعلم ہونا یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی کمپنی کی اندرونی راضوں کا علم آپ کو ایک انٹرویو کے دوران تو نہیں ہوگا۔تاہم اگر آپ کو اپنی نوکری اور کمپنی کے بارے میں بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں،

یہ بات انٹرویو کے دوران برا تاثر ڈال سکتی ہے۔ اس کا بہترین حل کمپنی کی جانب سے دیا گئے اشتہار اور کمپنی کی ویب سائٹ کا جائزہ لینا ہے۔ سوالات کے جواب دینے سے گریز کرناکبھی کبھار کچھ امیدوار کچھ مضامین پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی پچھلی نوکری کے بارے میں بات کرنا کہ کیا وہ وہاں سے نکالے گئے یا انہوں نے نوکری خود چھوڑی اور اس کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ایک انٹرویور باآسانی یہ بات سمجھ جائے گا کہ آپ کسی سوال کا جواب دینے سے گریز کررہے ہیں اور یہ بات آپ کے خلاف جاسکتی ہے۔ ایسے موقع پر بہترین صورت یہی ہے کہ آپ سچ اعتماد کے ساتھ پیش کریں۔ خود کے بارے میں شبہات دور کرنا زیادہ تر امیدوار اس سوال کا مناسب جواب نہیں دے پاتے کیوں کہ عام طور پر انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انٹرویو کے دوران اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بہتر ہے۔تاہم زیادہ تر انٹرویورز یہ سمجھ جاتے ہیں اور واقعی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ یہ نوکری کرنے کے لیے درست امیدوار ہیں یا نہیں۔ اگر انٹرویور اس طرح کے سوالات آپ کے سامنے رکھے تو ان کا مناسب انداز میں جواب دیں۔ اگر انٹرویور کا خیال ہے کہ آپ کا کسی مخصوص شعبے میں مطولبہ تجربہ نہیں تو یہ آپ کا کام ہے کہ اسے اس بات پر قائل کریں کہ آپ اپنے کم تجربے کے باوجود اس مسئلے کو کس طرح حل کریں گے۔

Categories
عید اسپیشل

6 غلطیاں جو جلد بوڑھا کردیں

ہوسکتا ہے آپ ایسے 80 یا 90 سالہ افراد کو جانتے ہوں جو جسمانی طور پر مستعد اور ہر کام کرتے ہوں اور ایسے بھی 40 یا 50 سال کے لوگ آپ نے دیکھے ہوں گے جن سے ہلا بھی نہیں جاتا۔ درحقیقت آپ کی چند عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو جسم کو تیزی سے بڑھاپے کی جانب گامزن کردیتی ہیں۔ تاہم ان عادتوں سے واقف ہوکر انہیں ترک کرنا اور قبل از وقت بڑھاپے سے بچنا کافی آسان ہے۔ خراب غذائی عادات ناقص غذا شرطیہ آپ کو قبل از وقت بڑھاپے کا

شکار بناسکتی ہے، جنک فوڈ، میٹھی یا زیادہ چربی والی غذائیں اس سفر کو تیز کردیتی ہیں جبکہ محدود مقدار میں کیلوریز اور زیادہ غذائیت پر مبنی خوراک جیسے پھل، سبزیاں، اجناس اور گوشت وغیرہ کا استعمال اس سے سے بچاتا ہے۔ کم نیند اگر آپ مناسب نیند نہیں لیتے تو آپ کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے، نیند صحت مند اور خوش باش زندگی کے ضروری ترین اجزاء میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ دماغ کو اپنا کام ٹھیک کرنے میں مدد دیتی ہے جبکہ جسمانی نظام کو بھی ری چارج کرتی ہے۔ نیند سے دوری سے جسمانی وزن میں اضافہ، کینسر اور دیگر طبی مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تناؤ کبھی کبھی کا تناؤ تو نقصان دہ نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے کیونکہ یہ مختلف ہارمونز کو خارج کرتا ہے، مگر جب یہ روزمرہ میں آپ کو شکار کرنے لگے تو یہ ہارمونز سردرد اور دل میں درد کا باعث بنتے ہیں، طویل المعیاد بنیادوں پر شدید تناؤ آپ کو نوجوانی میں ہی بوڑھا دکھانے لگتا ہے۔ جسمانی سرگرمیوں سے دوری ہر وقت بیٹھے رہنے کی عادت جسم کے لیے تباہ کن بلکہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے، بیٹھے رہنے کے نتیجے میں زیریں جسم کے عضلات کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جبکہ میٹابولز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان جلد بوڑھا ہونے لگتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ بہت زیادہ جسمانی محنت کرنے لگیں بلکہ کرسی سے کچھ دیر کے لیے اٹھ کر چہل قدمی کرنا بھی مثبت اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

تمباکو نوشی اگر آپ تمباکو نوشی، منشیات وغیرہ کی لت کا شکار ہوں تو یہ چیزیں جسم کو آپ کے خیال سے بھی تیزی سے تباہ کردیتی ہیں، ایک سگریٹ کے نتیجے میں 15 منٹ کے اندر ڈی این اے کو نقصان پہنچ سکتا ہے تواس سے نجات پالینا ہی بہترین ہے۔ تمباکو نوشی کے نتیجے میں جلد موت کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ خطرات کے عناصر کو نظرانداز کرنا اگر ہائی بلڈ پریشر، ہائی بلڈ گلوکوز یا ہائی گلوکوز کی تشخیص نہ ہوسکے تو یہ جسم کو تباہ کردینے والے امراض ثابت ہوتے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اکثر افراد کو ان امراض کا علم ہی اُس وقت ہوتا ہے جب ہارٹ اٹیک یا فالج کا حملہ ہوتا ہے اور اُس وقت تک کافی تاخیر ہوچکی ہوتی ہے، تو ہر چند ماہ کے اندر ان کے ٹیسٹ کرالینا اور ان کی علامات پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

Categories
عید اسپیشل

ایک عقلمند اور ایک بیوقوف کا انٹرویو

ایک عقلمند اور ایک بیوقوف کا ایک ہی جگہ پر انٹرویو تھا۔ دونوں ایک ساتھ ہی انٹرویو کے لیے چلے ۔راستے میں عقلمند نے بیوقوف سے کہا کہ جو سوال مجھ سے ہو نگے وہی تم سے پوچھے جائیں گے۔ اس لیے میں جو جواب دوں گا وہ تم اچھی طرح سے رٹ لینا اور پھر تم بھی اپنے سوالوں کا وہی جواب دینا جو میں دوں گا۔ بیوقوف نے رضا مندی ظاہر کردی۔ وہ جب وہاں پہنچے تو سب سے پہلے عقلمند کی باری آئی ۔۔۔

اس سے سوالات شروع ہوئے۔ پہلا سوال تھا: پاکستان کب وجود میں آیا؟ اس کا جواب تھا: ویسے تو g1930 سے کوششیں جاری تھیں لیکن 1947 میں آ کر وجود میں آیا۔ دوسرا سوال: ہندوستان کے وزیر اعظم کا نام کیا ہے؟ جواب: ویسے تو بدلتے رہتے ہیں لیکن فی الحال نریندر مودی ہیں۔ تیسرا سوال: مریخ پر آبادی ہے یا نہیں؟ جواب: سائنسدان تحقیق تو کررہے ہیں لیکن ثابت نہیں کرسکے۔ انٹرویو لینے والے نے اس کو جانے کی اجازت دے دی۔۔ اب بیوقوف کی باری آئی۔ اس سے پہلا سوال تھا:۔ تم کب پیدا ہوئے؟ بیوقوف کا جواب: ویسے تو 1930 سے کوششیں جاری تھیں لیکن 1947 میں آکر وجود میں آیا۔ دوسرا سوال: تمہارا نام کیا ہے؟ جواب:ویسے تو بدلتے رہتے ہیں لیکن فی الحال نریندر مودی ہے۔ انٹرویو لینے والا )غصے سے(:کیا تم پاگل ہو؟ بیوقوف: سائنسدان تحقیق تو کررہے ہیں لیکن ثابت نہیں کرسکے۔؟

Categories
عید اسپیشل

لاہور لاہور اے

لاھور کا بہت مشہور بازار ھے شاہ عالمی مارکیٹ ‘وهاں شام 5 بجے تھے اور بازار رش سے بھرا ھوا تھا ، اسی رش میں میاں بیوی ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف تھے اور تقریباً 200 سے ذیادہ بندے ان کے اس فیملی تماشے کو انجوائے کر رہے تھے ، بات کچھ اس طرح تھی کے بیوی ضد کر رہی تھی اپنے شوہر سے کے آج تم گاڑی خرید ہی لو میں تھک گئی تمہاری موٹر سائیکل پر سفر کرتے کرتے ، اور شوہر نے کہا اوے پاگل عورت تماشا نا بنا میرا دنیا کے سامنے اور

موٹر سائیکل کی چابی مجھے دے ، بیوی “نہیں کہا تمہارے پاس اتنا پیسہ ھے! آج کار لو گے تو ہی گھر چلوں گی “،شوہر “اچھا پھر لے لے گے ابھی چابی دو”بیوی نہیں دونگی شوہر ” اچھا نا دو میں تالہ ہی توڑ دیتا ھوں بیوی نے کہا توڑ دو لیکن نا چابی ملے گی نا میں ساتھ جاؤں ” شوہر “اچھا پھر یہ لے میں تالہ توڑنے لگا ھوں جاؤ تیری مرضی میرے گھر نا آنا پھر” “جاؤ جاؤ نہیں آتی تم جیسے کنجوس کے گھر”شوہر نے لوگوں کی مدد سے موٹرسائیکل کا تالہ کھول لیا اور اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا اور بولا “تم آتی ھو یا میں جاؤں” تو وہاں کھڑے لوگوں نے سمجھایا کے بی بی جاؤ اتنی سی بات پر اپنا گھر نہ خراب کرو پھر اس نے شوہر سے وعدہ لیا کے موٹر سائیکل بیچ کر جلد ہی گاڑی لے لے گا پھر دونوں کی صلح ھوگئی اور دونوں چلے گئے تو جناب ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اسی جگہ پر پھر سے مجمح لگ گیا ایک بندہ شور کر رہا تھا کے میرا موٹرسائیکل کوئی چُرا کر لے گیا –

Categories
عید اسپیشل

طالبہ کے پرس میں کیا تھا ؟؟

ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیش آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوں کے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ،ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی ،کسی بھی پرس میں کتابیں ،کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی ، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گیاتھا ، اوریہی جائے حادثہ تھا ،حادثہ کیاتھا ،اورکیاپیش آیا؟!تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گزارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں ،ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی ،اس کی پریشانی

بڑھ گئی تھی ، وہ تفتیشی کمیٹی پردزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔اس نے اپنے پرس پرہاتھ رکھاہوا تھا !!تفتیش شروع ہوچکی ہے ،اس کی باری آنے ہی والی ہے ،لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے …. چندمنٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے ،لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیاگویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگزنہیں کھول سکتے ، اسے کہاجارہا ہے ،پرس کھولو! تفتیش کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے ،پرس کو سینے سے چپکا لی ہوئی ہے ، تفتیش نے پھرکہا : پرس ہمارے حوالے کرو،لڑکی زور سے چلاکر بولتی ہے : نہیں میں نہیں دے سکتی ۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی ،سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں ،آخر رازکیا ہے ؟حقیقت کیا ہے ؟ بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا،ساری لڑکیاں خاموش ….لکچر بند …. ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔پتہ نہیں کیا ہوگا …. پرس میں کیاچیز ہے ؟ تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی ،طالبہ آفس میں آئی ،ادھراس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہورہی تھی ،سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا ،یااللہ ! کیاتھا پرس میں ….؟ آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ….؟پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی ،نہ فحش تصویریںتھیں ، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی …. اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے ، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے ، بس یہی تھے اورکچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی

تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے ….تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے ۔ ہم تنگ دست ہیں ،ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے ۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تواس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔یہ دلدوز منظر کیاتھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ،اللہ پاک ہر شخص کو ایسی مجبوری سے بچائے ،اور ایسے بُرے دن کسی کو نہ دیکھنے پڑیں ۔ بھائیو اور بہنو! یہ منظر ان مختلف المناک مناظر میں سے ایک ہے، جو ممکن ہے ہمارے پڑوس میں ہو اور ہم اسے نہ جانتے ہوں،یا بسا اوقات ایسے لوگوں سے نظریں اوجھل کئے ہوئے ہوں ۔

Categories
عید اسپیشل

گھر میں سولر سسٹم کتنے روپے میں لگ سکتا ہے؟

سورج کی جانب سورج مکھی کی طرح رخ کیے ہوئے، ایک چھوٹا 20 واٹ کا پینل، جس کا حجم ایک چائے کی ٹرے جتنا تھا، یوسف محمد کے دو کمروں کے گھر کے احاطے میں چارپائی کے برابر رکھا ہوا تھا۔ 2016 میں بھی گرڈ اسٹیشن سے بجلی ضلع ٹھٹھہ کے اس ماہی گیر گاؤں تک نہیں پہنچی ہے، مگر یہاں کے باسیوں نے اس کا حل نکال لیا ہے اور وہ ہے سولر پاور۔یوسف محمد وضاحت کرتے ہیں کہ

اس کی لاگت انہیں تین ہزار روپے سے بھی کم پڑی تھی ‘اس پینل کے ذریعے میں دنیا کے ساتھ جڑا رہتا ہوں’۔ڈی سی کنورٹر یا کار فون چارجر سے منسلک یہ پینل روزانہ دن میں ایک بار موبائل فون کی بیٹریاں چارج کرتا ہے، انھوں نے بتایا، ‘میں سولر پینل کو اپنے فشنگ ٹرالر میں بھی لے جاتا ہوں، یہ بالکل مفت ملنے والی بجلی ہے’۔قومی اخبار سنڈے میگزین کی رپورٹ کے مطابق شمسی توانائی کی مقبولیت ملک بھر میں بتدریج بڑھ رہی ہے اور ہر شعبہ زندگی اس کو اپنا رہا ہے۔ گرڈ کی بجلی جس کا بیشتر حصہ خام تیل اور پانی کے ٹربیونز سے بنتا ہے، مہنگی ہوتی جارہی ہے یہاں تک کہ عام استعمال بھی کافی مہنگا پڑتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ناقابل انحصار سپلائی اور مسلسل شارٹیج نے ملک میں بجلی کے بحران کو بڑھایا ہے۔ایک فری لانس ڈیٹا انٹری آپریٹر ذوالفقار شاہ کی تو تمام ڈیوائسز گرڈ بجلی نے لگ بھگ تباہ ہی کردی تھیں جو کہ وہ اپنے پروفیشنل امور کے لیے استعمال کرتے تھے،ان کا کہنا تھا ‘میں نے بار بار بجلی جانے سے اپنے آلات کو نقصان پہنچنے کے باعث شمسی توانائی کو اپنالیا’۔وہ بتاتے ہیں ‘ میں نے چار سستے پرانے سولر پینلز خریدے جو گڈانی کی شپ بریکنگ یارڈ سے نکالے گئے تھے، میں نے ان میں دو 120 ایمپیئر کی ری سائیکل ٹرک بیٹریز کا اضافہ کیا جو کہ گارڈن کے علاقے سے خریدی تھیں، اسی طرح ریگل چوک کے قریب الیکٹرونک مارکیٹ سے میں نے ایک سستا یو پی ایس لیا، لگ بھگ 80 ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد اب مجھے میرے کمپیوٹر کے لیے بلاتعطل بجلی ملتی ہے، شمسی توانائی کی مہربانی سے مجھے اب بار بار بجلی جانے کا خوف نہیں رہا جبکہ میری آمدنی بھی مستحکم ہوئی ہے’۔یہاں ایسے بھی افراد ہیں جنھوں نے مکمل ہوم سسٹم نصب کروا رکھے ہیں جو سورج سے بجلی پیدا کرتے

ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی زندگیاں آسان ہوگئی ہیں اور اگلے بیس سے پچیس سال تک کے لیے وہ بجلی کے بحران سے آزاد ہوگئے ہیں۔ سز اے سلیم ملتان کے ایک علاقے میں مقیم ہیں جہاں اکثر لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، بجلی کے بار بار تعطل کے نتیجے میں گھر کی مصنوعات کو ہونے والے نقصان نے انہیں توانائی کے متبادل ذریعے کو تلاش کرنے پر مجبور کیا، انھوں نے بتایا، ‘جب ایک کے بعد ایک ہماری مصنوعات غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور وولٹیج میں کمی بیشی کے نتیجے میں خراب ہونے لگیں تو ہم نے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا’۔اس خاندان نے 5 کلو واٹ کا سولر سسٹم خریدا جس کی قیمت 8 لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی، مگر یہ سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہوئی، ‘ہمارا بجلی کا بل ڈرامائی حد تک کم ہوگیا کیونکہ اب ہم میپکو (ملتان الیکٹرک پاور کمپنی) کی بجلی کو کبھی کبھار ہی استعمال کرتے ہیں، مثال کے طور پر جب باہر بادل چھائے ہوئے ہوں اور سورج زیادہ چمک نہ رہا ہو، اس سے پہلے ہم ہر ماہ 30 ہزار روپے کا بل ادا کرتے تھے مگر اب یہ بمشکل ہی دو ہزار سے زیادہ ہوتا ہے’ ۔انہوں نے بتایا ‘آج ہمارے گھر کے پنکھے، ٹیلیویژن، فریج، فریزر، ایئرکنڈیشنر، واشنگ مشین اور واٹر پمپ مفت بجلی پر چل رہے ہیں، رات کے وقت کے لیے ہم بیٹریوں میں اکھٹی ہونے والی بجلی استعمال کرتے ہیں جو

دن بھر چارج ہوتی رہتی ہیں، میرے بچوں کو آخر سکون میسر آگیا ہے اور وہ بجلی کے تعطل کے بغیر رات کو پڑھ سکتے ہیں’۔اگر متعدد صارفین کے دعوؤں پر جایا جائے، تو ایسی مصنوعات جنھیں پاور سسٹم سے بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے وہ بھی شمسی توانائی سے بغیر کسی مشکل کے کام کرتی ہیں، بیشتر افراد وضاحت کرتے ہیں کہ بیک اپ بیٹریوں کا انتخاب استعمال کے مطابق کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر مسز اے سلیم کے گھر میں 200 ایمپیئر فی کس والی بارہ ٹرک بیٹریوں کی ضرورت پڑی جو کہ ان کی توانائی ضروریات پوری کرتی ہیں۔سولر پینلز کو زیادہ جگہ درکار نہیں ہوتی اور انہیں چھت پر نصب کیا جاسکتا ہے، آج کل متعدد گھروں میں ان پینلز کو دیکھا جاسکتا ہے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔کراچی میں ریگل چوک کے قریب واقع الیکٹرونکس مارکیٹ کی ہر دوسری دکان میں سولر پینلز فروخت کیے جارہے ہیں، اگرچہ تین طرح کے سولر پینلز دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں، سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز یا monocrystalline، پولی سیلیکون پینلز یا پولی کرسٹلائن اور ٹی ایف ٹی پینلز، مگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ صارفین اکثر سنگل کرسٹل سیلیکون یا پولی سیلیکون پینلز کا انتخاب کرتے ہیں، طلب کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی بھرمار ہے۔اگر دونوں کی فروخت کا موازنہ کیا جائے تو سنگل کرسٹل سیلیکون پینیلز زیادہ فروخت ہوتے ہیں کیونکہ وہ ابر آلود موسم میں بھی کام کرتے ہیں، جبکہ پولی سیلیکون پینلز کو سورج کی زیادہ روشنی درکار ہوتی ہے، یہ اگرچہ سستے ہوتے ہیں مگر آج کل بیشتر افراد ابر آلود موسم میں کام کرنے والے پینلز کا انتخاب کررہے ہیں۔ الیکٹرونکس مارکیٹ کی ایک دکان کورین الیکٹرونکس کے محمد افسر علی کے مطابق ‘دونوں قسم کے پینلز کے درمیان کچھ ایسا ہی ہے جیسے ایک فور اسٹروک انجن اور ایک ٹو اسٹروک انجن کے درمیان، فور اسٹروک انجن کی پک اپ اچھی ہوتی ہے مگر گرم ہونے کے بعد کارکردگی ختم ہوجاتی ہے،

دوسری جانب ٹو اسٹروک انجن گرم ہونے کے بعد زیادہ اچھا چلتا ہے، سنگل کرسٹل سیلیکون پینلز کو فور اسٹروک انجن کہا جاسکتا ہے جبکہ پولی سیلیکون پینلز ٹو اسٹروک انجن سمجھے جاسکتے ہیں’۔کونسا سسٹم زیادہ بہتر رہے گا، اس کے تعین کے لیے صارفین کے پاس ایک اور طریقہ کار بھی ہے، ان میں سب سے مقبول قسم ہائیبرڈ سسٹم ہے، جو کہ گرڈ سے یا ونڈ ٹربیون سے بھی منسلک ہوجاتا ہے اور رات کو بھی بیٹریوں کو چارج رکھتا ہے۔جہاں تک ونڈ ٹربیون کی بات ہے تو افسر علی وضاحت کرتے ہیں کہ اس طرح کا پاور سسٹم پاکستان میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ اس کے لیے کم از کم 12 ناٹیکل میل کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کی ضرورت ہوتی ہے، ‘ہوا میں نمی اور مٹی ونڈ سسٹم کو زنگ آلود اور ناکارہ بنا دیتے ہیں، اس کے مقابلے میں سولر پینلز زیادہ موثر ہیں’۔مارکیٹ کے بیشتر دکانداروں نے ایک گھر میں ایک سولر سسٹم کی لاگت کے فارمولے کی وضاحت کی، ان کے تخمینے کا آغاز چالیس روپے کی ایک بیٹری سے ہوتا ہے، جس کو واٹس اور گھنٹوں سے ضرب دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو چوبیس گھنٹوں کے لیے ایک ہزار ووٹ کی ضرورت ہے تو اس فارمولے کے مطابق 40x1000wattsx24 hours کا اطلاق ہوگا۔یہ لگ بھگ 9 لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں اور عام طور پر ان میں نصب کرنے کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔تاہم افسر علی کے مطابق ‘اس لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے اگر آپ مقامی بیٹریاں استعمال کریں، جو کہ 40 روپے کے فارمولے کو 25 روپے تک لے جاتی ہیں، جسے ایک ہزار واٹ اور پھر 24 سے ضرب دی جاتی ہے، اس طرح لاگت چھ لاکھ روپے ہوجاتی ہے’۔انہوں نے مزید بتایا، ‘اسی طرح اگر آپ چوبیس گھنٹے سولر پاور استعمال نہیں کرنا چاہتے بلکہ

صرف لوڈ شیڈنگ کے دوران استعمال کرتے ہیں تو آپ کو گھنٹوں کو کم کرنا ہوگا، جیسے چھ گھنٹے، پھر یہ فارمولہ کچھ اس طرح ہوگا 25x1000x6 جو کہ ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے، آج کل بیشتر افراد اس آپشن کو ترجیح دیتے ہیں’۔پاکستان میں سورج کی تپش بہت زیادہ ہوتی ہے اور ماہرین زور دے کر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سورج کی ریڈی ایشن اور درجہ حرارت کا موازنہ جرمنی سے کیا جائے تو پاکستان میں سولر پینلز سے 33 فیصد زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ جرمنی نے رواں سال مئی میں اس ذریعے سے 45.5 گیگا واٹس بجلی پیدا کی تھی، جبکہ ملک کی مجموعی طلب 45.8 گیگا واٹ ہے۔شمسی توانائی پر منتقل ہونے کے حوالے سے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے بجلی کے لوڈ کو ایل ای ڈی لائٹس کو اپنا کر کم کیا جائے جو کہ بہت کم کرنٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے، یہ مہنگے تو ہوسکتے ہیں مگر طویل المعیاد عرصے کے حوالے سے کفایتی بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح انورٹر والے ریفریجریٹرز، فریزر اور ایئرکنڈیشنرز بھی مقبولیت حاصل کررہے ہیں، حالانکہ ان کی قیمت عام مصنوعات کے مقابلے میں تیس ہزار روپے سے زیادہ ہوسکتی ہے۔مارکیٹ میں توقع کی جارہی ہے کہ شمسی توانائی گھریلو صارفین کا انتخاب بنے گی، موجودہ حالات میں یہ شہریوں کے لیے لوڈشیڈنگ سے نجات کا واحد ذریعہ ہے جو کہ سورج کی بدولت طویل عرصے تک کے لیے کارآمد ہے۔

Categories
عید اسپیشل

دنیا کا سب سے جینیس بچہ

کم انگ یونگ ‘ایک ساؤتھ کورین بچہ تھا۔وہ 1963میں سیول میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی عمر صرف تین سال تھی تو وہ با آسانی انگریزی، کورین ، جرمن اور جاپانی زبان میں لکھی کہانیاں پڑھ سکتا تھا۔ اس کی ہر حرکت حکمت اور دانائی سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔ اس کے ماں باپ نے اس کا آئی کیو ٹیسٹ دلوایا۔ٹیسٹ کے دوران اس کی عمر صرف دو برس تھی۔ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو اس کا آئی کیو دوسو دس سے زیادہ تھا۔

بڑے بڑے جینیس کا آئی کیو اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔ جب وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے والدین نے ’ناسا ‘ کی درخواست پر اپنے بیٹے کو ناسا میں کام کرنے بھیج دیا۔وہ آٹھ سال کی عمر میں ایکویشنز حل کر سکتا تھا۔ اس نے ناسا میں کافی عرصے کام کیا۔ وہ جب آٹھ سال کا تھا تو کہتا تھا کہ میں پورا دن ایکویشنز حل کرتا ہوں اور کھاتا پیتا اور سوتا ہوں بس۔ لیکن میں بہت تنہا محسوس کرتا ہوں۔اس نے دنیا کو اپنی عقل سے بہت متاثر کیا۔ کچھ عرصے وہ امریکہ میں رہائش پزیر رہا اور پھر ساؤتھ کوریا لوٹ گیا۔ ساؤتھ کوریا واپس جا کر اس نے سول انجینئرنگ میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ وہ جب صرف چھ ماہ کا تھا تو وہ بولنا سیکھ گیا تھا ۔ اس کی عمر صرف آٹھ ماہ تھی جب اس کو الجبرا سمجھ آنے لگ گیا تھا۔ وہ صرف چار سال کی عمر میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے لگا تھا اور جب وہ صرف پندرہ سال کا تھا تو وہ اپنی پوری تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ چار سال اس نے ناسا کے ساتھ امریکہ میں کام کیا اور اس میں اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو مزید چمکا لیا مگر اس کے بعد اس کو تنہائی سے وحشت ہونے لگی اور سولہ سال کی عمر میں وہ سب کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ساؤتھ کوریا اپنے گھر لوٹ گیا۔ اس کی واپسی پر لوگوں نے بہت تنقید کی اور اس کو ایک ’ناقص جینیس‘ کہہ کر بلانے لگے۔

اس نے اپنے گھر رہنے کو ترجیح دی اور ساؤتھ کوریا کی ایک لوکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔2014 میں وہ شن ہن یونیورسٹی کا اسوسی ایٹ پروفیسر بن گیا اور ڈویلپ منٹ ریسرچ سنٹر کا وائس صدر بن گیا۔آج وہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ خاص ہونا اہم نہیں ہوتا بلکہ اتنا قابل رشک ہونے کے باوجود اس کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کو رشتوں اور دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے اور عام آدمی کی زندگی گزارنا اس کی حسرت تھی۔ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہو، فطری بات ہے کہ وہ اسی کو مانگتا ہے۔