Categories
آرٹیکلز

چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے ساتھ زندگی کے آخری دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ انکی بیوی بھی انہیں چھوڑ کر امریکہ چلی گئی ؟ حیران کن واقعات

لاہور (ویب ڈیسک) دلوں میں اتر جانے والوں کو موت نہیں آیا کرتی، موت اُن کی روح کو لے اڑے یا جسموں کو فنا کر ڈالے وہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ دلوں کے رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں۔اس کی زندہ مثال وہ اداکار ہیں جنھوں نے اپنے جداگانہ انداز، دل موہ لینے والی اداؤں، بڑی بڑی مخمور آنکھوں، منفرد ہیئر سٹائل،

جاذب نظر متوازن سراپے اور شوخ اداکاری کے بل پر لاتعداد دلوں میں کچھ یوں گھر کر لیا کہ آج اُن کی موت کو چار عشرے ہونے کے قریب ہیں لیکن ہر آنے والا دن وحید مراد کی شہرتوں کو دوام بخش رہا ہے۔وحید مراد معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے۔ نثار مراد کے ہاں کسی شے کی کمی نہ تھی اور اُن کا شمار متمول لوگوں میں ہوتا تھا۔ نثار مراد اور ان کی اہلیہ شیریں مراد نے اپنی اکلوتی اولاد کے لیے اپنی محبتوں کے در وا کر دیے۔ دنیا کی ہر نعمت اس بچے کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی۔انھی محبتوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والا ویدو ( وحید مراد ) بھی والدین کی ہر خواہش پر پورا اترتا رہا۔ گریجویشن کے بعد وحید مراد نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لٹریچر بھی کر لیا۔اوائل جوانی اور دوران تعلیم وحید مراد کی گہری نگاہ اپنے والد کے کاروبار پر رہی اور انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ حصول تعلیم کے بعد والد کے شعبے میں اپنے ٹیلنٹ کو آزمائیں گے۔والدین نے بھی بیٹے کی خواہشات کو مقدم سمجھا اور انھیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا۔وحید مراد نے حصول تعلیم کے بعد اپنا فلمی سفر اپنے والد نثار مراد کے فلمساز و تقسیم کار ادارے ’مراد فلم کارپوریشن‘ کے بینر تلے ذاتی فلم ’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘ سے کیا اور اس کے بعد ’انسان بدلتا ہے‘ بھی پروڈیوس کر ڈالی۔ان فلموں کی تکمیل کے دوران فلمسٹار درپن نے

انھیں خاصا تنگ کیا کیونکہ وحید مراد کا تعلق کراچی سے تھا اور دونوں فلمیں بھی وہیں بنی تھیں اور دونوں میں ہیرو کا کردار درپن ادا کر رہے تھے جو لاہور سے مقررہ وقت پر کراچی نہ پہنچتے اور وحید مراد کو خاصا نقصان اٹھانا پڑتا۔درپن کی طرف سے دی جانے والی پریشانی میں بھی کچھ راز پنہاں تھی۔ درپن کے انتظار نے فلمساز وحید مراد کو پریشان کر دیا تو ایسے میں ان کی فلم کی اداکارہ زیبا بیگم نے اُن کو ایک ایسا مشورہ دیا جس نے وحید مراد کی زندگی کی کایا ہی پلٹ ڈالی۔زیبا بیگم نے وحید مراد سے کہا کہ ’ویدو تم خود کیوں ہیرو نہیں بن جاتے ،تم میں کس بات کی کمی ہے۔‘ وحید مراد نے برجستہ جواب دیا کہ ’نہیں میری رنگت گہری سانولی ہے، میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔‘لیکن درحقیقت زیبا بیگم کی کہی ہوئی بات وحید مراد کے دل کو بھا گئی اور انھوں نے مشورے پر عمل کرنے سے پہلے خود کو فلم کے پردے پر آزمانا چاہا اور ایس ایم یوسف کی فلم ’اولاد‘ میں کام کرنا قبول کر لیا۔یوں کیمرے کے پیچھے کھڑا وحید مراد جب کیمرے کے سامنے آیا تو کیمرے نے کمال گرمجوشی سے اسے خوش آمدید کہا۔کیمرے کی قبولیت کے بعد وہ دیکھنے والوں کی نگاہوں کو کچھ یوں بھائے کہ دیکھتے ہیں دیکھتے ہر نگاہ کا مرکز اور دل کی دھڑکن بن بیٹھے اور زیبا بیگم کا ویدو کو دیا ہوا مشورہ کارگر ثابت ہوا اور وہ فلمساز سے فلم ہیرو بن گئے۔وحید مراد اپنے

والدین کے ہی اکلوتے نہیں بلکہ فلمی دنیا میں بھی یکتا اور منفرد اداکار تھے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر عروج کی انتہا بالآخر زوال ہے لیکن نازونعم میں پلنے والے جہاندیدہ وحید مراد اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور آخر کار جب انھوں نے زوال کو سامنے پایا تو وہ اندر سے ٹوٹ گئے۔یکے بعد دیگرے ہونے والے دو حادثات میں وحید مراد اپنے چہرے کی دلکشی کھو بیٹھے۔ ایسے میں جب انھیں ڈھارس کی سخت ضرورت تھی تو فلم انڈسٹری نے انھیں نظرانداز کر دیا بلکہ وہ اپنے مختصر سے خاندان کو بھی ناراض کر بیٹھے۔وحید مراد کی اہلیہ بھی انھیں اس حال میں چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں اور جب کوئی ڈھارس بندھانے اور امید دلانے والا نہ رہا تو وہ ٹوٹ کر بکھر گئے۔وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ لوگ انھیں بھول جائیں گےوحید مراد نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل اپنے دیرینہ دوست انور مقصود کے پروگرام ’سلور جوبلی‘ میں اس بات کا برملا ااظہار کیا تھا کہ ’اگر میں نہ رہوں، مجھے کچھ ہو جائے یا میں دنیا سے اٹھ جاؤں تو مجھ پر فلمبند یہ گانا میری موت کے بعد کی زندگی کا عکاس ہو گا:بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں۔۔۔جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں۔۔۔لیکن وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں جس قدر شہرتیں سمیٹیں، وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ وہ موت کے 38 برس بعد بھی زندہ و جاوید ہیں۔وحید مراد کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 38 برس بیت چکے ہیں لیکن موجودہ نسلیں اُن کو فلم یا ٹی وی سکرین پر دیکھ کر آج بھی دل ہار بیٹھتی ہیں۔

Categories
آرٹیکلز

نیا آرمی چیف کون ہوگا،پتہ چل گیا۔۔۔کیا نیا آرمی چیف عمران خان کا دباؤ لے گا؟؟سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اہم سوالات کے جوابا ت دے دیے

اسلام آباد(ویب ڈیسک) وفاقی حکومت کی جانب سے اس مرتبہ آرمی چیف کی تعیناتی کو غیر متنازعہ رکھنے کے لیے سنیارٹی کی بنیاد پر فیصلہ کیے جانے کی خبروں کے باوجود افواہیں گرم ہیں کہ نئے فوجی سربراہ کا فیصلہ لندن میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوگا۔ دوسری جانب حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی قیادت نے عمران خان کو

اقتدار سے اس لئے نہیں نکالا تھا کہ وقت آنے پر آرمی چیف انکی یا راولپنڈی کی مرضی سے تعینات ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ شہباز شریف نے نہیں بلکہ نواز شریف نے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی مشاورت سے کرنا ہے، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس نازک وقت پر ایسے تگڑے فیصلے کرنا ضروری ہو گیا ہے جن سے نہ صرف ملک بلکہ فوج کے ادارے کو بھی بچایا جا سکے۔ ویسے بھی بقول عمران خان فوج کوئی جانور تو نہیں جو وقت آنے پر پوزیشن لینے کی بجائے نیوٹرل ہو جائے۔اس حوالے سے بی بی سی کے لیے اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں سینئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور سیاست کا محور صرف اور صرف نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور اس کے گرد گھومتی خواہش رہی ہے، آرمی چیف کی تعیناتی وہ خواہش تھی جو عمران خان کے سینے میں ہی رہی اور عین تعبیر کے وقت خواب چھین لیا گیا۔ 2019 میں بھی جب انہیں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا موقع ملا تو یہ خواہش ان کے دل میں ہی رہ گئی اور انہیں جنرل باجوہ کو توسیع دینا پڑ گئی۔ عمران کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے سیاست ہر روز رنگ دکھا رہی ہے اور رنگ ڈالنے والے بھی کچھ انداز بدل رہے ہیں۔ طریقہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی تاہم کھیل کے سارے اصول وہیں سے طے ہوں گے جہاں سے ہمیشہ ہوتے آئے ہیں۔

شطرنج کے اس کھیل میں بادشاہ ہی چال چلے گا اور پیادے حکم مانیں گے۔ اس دوران کیا کیا نہیں ہوا؟ شام و سحر بدل گئے، کئی موسم گُزر گئے، حکومت اپوزیشن میں بیٹھ گئی، اپوزیشن حکومت کا حصہ بن گئی، پتے تبدیل، مہرے تبدیل، کھیل کے کھلاڑی تبدیل حتیٰ کہ میدان تبدیل۔۔۔ نہیں بدلا تو اہم تعیناتی کے گرد گھومتا پہیہ نہیں بدلا۔ سیاسی پروگراموں کا موضوع، جوتشیوں، پنڈتوں کی تپسیاؤں کا محور، چاند اور سورج گرھنوں کا پھیر، ستاروں کی چالوں کا چلن، تبصرہ نگاروں کا موضوعِ سُخن اور سیاستدانوں کی اُمیدوں کا گلشن ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہا ہے اور وہ ہے نئے چیف کی تعیناتی۔عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ سیاست سے دور رہنے پر مجبور عسکری مقتدرہ بھی چپکے چپکے، چھپ چھپ کر روز خود کو ’غیر سیاسی‘ ہونے کا دلاسہ دیتی ہے۔ چند ایک اب بھی ’آ اب لوٹ چلیں‘ کی آس میں ’مذاکرات کے دروازے بند تو نہیں ہو سکتے‘ کے دلاسے دیتے کھڑکی کا ایک پٹ کھول لیتے ہیں۔ ویسے بھی غیر سیاسی ہو کر سیاسی ہونے میں جو مزہ ہے وہ کسی اور چیز میں کہاں؟ یعنی اب بھی دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی ’سیاست‘ کے رات دن۔۔۔ بہرحال اب فوج کا ادارہ گزرے دنوں کی ’غلطیوں‘ کو ہی درست کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہونی اور انہونی کے درمیان پُل صراط پر چلتے سیاسی نظام کو اب سہارا ہے تو ’غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ‘ کا۔۔۔ یہ کردار البتہ جاتے جاتے جائے گا مگر خواہش اور خبر کے بیچ پھنسی اسٹیبلشمنٹ کردار نبھانے کی کوشش میں دو کشتیوں کی مسافر ہے۔
ایک طرف گلے پڑی محبت اور دوسری جانب محبت سے زیادہ ضرورت۔ ایک طرف پُرانا پیار اور دوسری طرف نئی دکان کا ادھار جسے چکانا ضروری ہے تاکہ آئندہ کے لیے کھاتہ بند نہ ہو۔ ایک طرف برسوں کی محنت سے تیار کردہ اثاثہ اور دوسری جانب نیا تیار کردہ بیانیہ کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی، اصلی اور وکھری ٹائپ کی ہے۔ بہرحال یہ کوشش تاحال جاری ہے، دیکھیے نظام سرخرو ہو پاتا ہے یا نہیں؟عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ یوں تو آرمی چیف تعینات کرنے کا اصل اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے مگر یہ بات الگ ہے کہ کئی ایک آرمی چیفس کو وزیراعظم متعین کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ اس شرف سے محروم رہ جانے والے عمران خان جیسے وزرائے اعظم کو قطعی دُکھی اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس جس نے چیف لگایا، اُس اُس نے مزہ پایا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے جہاں دیدہ دانشور، جنرل ضیا کی معصومیت اور وفادار طبیعت سے دھوکا کھا گئے اور نواز شریف جیسے دو تہائی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم بھی جنرل مشرف کی ’غیر سیاسی شخصیت‘ کا نشانہ بن گئے۔جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ بھی نواز شریف کا نظرِ انتخاب ٹھہرے مگر وقت نے ثابت کیا کہ چیف تو پھر چیف ہوتا ہے۔ اب کی بار آرمی چیف کی تعیناتی کا قرعہ شہباز شریف کے ہاتھ آیا ہے جبکہ اقتدار سے باہر عمران خان اس قلق میں ہیں کہ یہ قرعہ فال عین وقت پر اُن کے ہاتھ سے چھین لیا گیا۔ شہباز شریف اس اہم ذمہ داری کو کیسے نبھائیں گے یہ اُن کے لیے امتحان ہے لیکن یاد رہے کہ چھڑی جس کے ہاتھ آئے وہ اپنی مرضی سے ہی گھمائے، یعنی جس کے ہاتھ چھڑی۔۔ اُس کی طاقت بڑی۔ دیکھتے رہیے نومبر کے اختتام تک، گھڑی کی ٹک ٹک کس پر آ ٹھہرتی ہے؟ کپ اور ہونٹوں کے درمیان ابھی کچھ گھونٹ باقی ہیں۔

Categories
آرٹیکلز

خان صاحب : فوج میں ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ کس فرمائش کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کو یہ بات بتائی تھی ؟ جاوید چوہدری نے اہم واقعہ بیان کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی سے پہلے ملک میں دو اہم واقعات ہوئے‘ تین اپریل 2016کو پاناما پیپرز آئے اور ان میں نواز شریف فیملی کی غیرملکی کمپنیاں اور جائیدادیں نکل آئیں‘ عمران خان کے ہاتھ ایک اور کارڈ آ گیا

اور انھوں نے نواز شریف کو چور ثابت کرنا شروع کر دیا۔دوسرا واقعہ ڈان لیکس تھا‘ یہ خبر6 اکتوبر 2016 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے شایع ہوئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ نے اسے بریچ قرار دے دیا‘ تحقیقاتی کمیٹی بنی اور میاں نواز شریف نے پرویز رشیداور طارق فاطمی کے قلم دان واپس لے لیے تاہم حکومت نے دعویٰ کرنا شروع کر دیا یہ دونوں ایشوز جان بوجھ کر بنائے گئے ہیں۔جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد 29 نومبر 2016کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی عنان سنبھال لی‘ انھیں آرمی چیف بنانے کا فیصلہ صرف اور صرف میاں نواز شریف نے کیا تھا تاہم اس میں اسحاق ڈار اور چوہدری نثار کا بھی کردار تھا مگر فیصلہ بہرحال میاں صاحب نے کیا اور اس کی وجہ صرف ایک تھی‘ میاں صاحب جانتے تھے جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں‘ یہ کسی بھی حال میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے‘ بہرحال جنرل قمرجاوید باجوہ آئے اور انھیں ورثے میں پاناما کیس اور ڈان لیکس مل گئیں۔ڈان لیکس حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بلاوجہ نزع کا باعث بنی ہوئی تھیں‘ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ آئے گی‘ حکومت ذمے داروں کو فارغ کر دے گی اور یوں یہ ایشو ختم ہو جائے گا‘ حکومت نے 29 اپریل 2017 کو انکوائری رپورٹ جاری کر دی اور تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم آفس سے نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔ادھر ’’ نوٹیفکیشن ری جیکٹڈ‘‘ کی ٹویٹ آ گئی‘ حکومت اس ٹویٹ کے بعد کم زور ہو گئی‘

وزیراعظم کا چند دن بعد چین کا دورہ تھا‘ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی یوں افہام و تفہیم سے ڈان لیکس کا معاملہ نبٹ گیا‘ 10مئی 2017 کو ٹویٹ واپس ہو گئی‘ حکومت مضبوط ہو گئی لیکن ریٹائرڈ آرمی آفیسرز نے آرمی چیف پرتنقید شروع کر دی۔ن لیگ نے بھی شیر زندہ باد کا بیانیہ شروع کر دیا‘ یہ بیانیہ مریم نواز کے میڈیا سیل کا کارنامہ تھا اور یہ ان لوگوں کی بڑی سیاسی غلطی تھی‘ یہ لوگ اگر خاموش ہو جاتے‘ فتح کے شادیانے نہ بجاتے تو معاملہ آگے نہ بڑھتا لیکن ان کی غیر سنجیدہ حرکت نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دراڑ میں اضافہ کر دیا اور یہ بڑھتی چلی گئی۔جنرل باجوہ کھلے دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف ان کے ساتھ ہمیشہ عزت سے پیش آئے اور ان کے ان سے تعلقات بہت اچھے تھے ‘ پاناما پیپرز میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ یہ انٹرنیشنل لیکس تھیں‘ یہ ہوئیں اور عمران خان نے یہ کیچ پکڑ لیا‘ وزیراعظم ہاؤس کی ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا ’’آپ یہ معاملہ عدالت میں نہ لے کر جائیں‘ اسے پارلیمنٹ میں ہی حل کر لیں۔یہ ایشو اگر عدالت چلا گیا تو کوئی ادارہ اور شخص آپ کی مدد نہیں کر سکے گا‘‘ وزیراعظم کا جواب تھا ’’میرے بچے پُراعتماد ہیں‘ انھیں عدالت جانے دیں‘ اللہ کرم کرے گا‘‘ اور حکومت سپریم کورٹ چلی گئی اور یوں یہ معاملہ بگڑتا چلا گیا‘ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا‘

وزیراعظم کو تحقیقات میں ایجنسیاں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا مگر وہ نہ مانے اور اس کے بعد معاملہ پھیلتا چلا گیا۔نواز شریف کے قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تعیناتی وزیراعظم کی خواہش پر ہوئی تھی‘ جنرل نوید مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے رشتے دار تھے اور مریم صاحبہ کا خیال تھا ان کی وجہ سے ان کی فیملی کو پاناما کیس میں ریلیف ملے گا‘ آرمی چیف نے جنرل نوید مختار کی تعیناتی کے وقت وزیراعظم سے کہا تھا‘ سر فوج چین آف کمانڈ کا نام ہے۔یہاں کوئی ایک شخص اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا‘ یہ بات زیادہ وضاحت کے ساتھ اکتوبر 2021 میں وزیراعظم عمران خان کو بھی بتائی گئی تھی‘ یہ واقعہ کب اور کیوں ہوا تھا‘ یہ ہم آپ کو آیندہ قسطوں میں بتائیں گے‘ سردست ہم واپس آتے ہیں۔میاں نواز شریف نے آرمی چیف سے دوسری پرسنل ریکویسٹ 2017 میں کی تھی‘ میاں نواز شریف کو گلہ تھا‘ مریم نواز سے جے آئی ٹی کے دو افسران کا رویہ ٹھیک نہیں ہے‘ اس کے بعد دونوں آفیسرز کا رویہ بدل گیا اور مریم نواز نے دوبارہ ان کی شکایت نہیں کی‘ اسٹیبلشمنٹ کے ذرایع بھی یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف نے ان دو ایشوز کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے کبھی کوئی پرسنل کام نہیں کہا تھا‘ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق قریبی ساتھی یہ تسلیم کرتے ہیں پاناما کیس کے دوران میاں نواز شریف کو یہ مشورہ دیا گیا تھا۔آپ مستعفی ہو جائیں

اور اپنی پارٹی کے کسی ایم این اے کو وزیراعظم بنا دیں‘ یہ معاملہ ایک دو سال میں سیٹل ہو جائے گا اور آپ دوبارہ منتخب ہو کر وزیراعظم بن جائیں گے مگر میاں نواز نہیں مانے تھے تاہم انھیں ڈس کوالی فکیشن کے بعد اگست 2017 میں شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانا پڑ گیا‘ یہ اگر یہ فیصلہ چند ماہ قبل کر لیتے تو شاید قید تک نوبت نہ آتی۔دوسری طرف بعض ذرایع یہ تسلیم کرتے ہیں میاں نواز شریف اگر ڈس کوالی فکیشن کے بعد ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ نہ بناتے‘ یہ اگر خاموش بیٹھ جاتے اور ان کی پارٹی اپنی حکومتی مدت پوری کر کے الیکشن میں چلی جاتی تو شاید عمران خان وزیراعظم نہ بن پاتے‘یہ حقیقت ہے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا۔2018 کے الیکشنز میں جہانگیر ترین کے جہاز سے لے کر لوٹا سازی تک تمام ہتھکنڈے استعمال ہوئے‘ عمران خان کو تاریخی سپورٹ دی گئی لیکن یہ اس کے باوجود الیکشن میں اکثریت حاصل نہ کر سکے چناں چہ انھیں وزیراعظم بنانے کے لیے اتحادیوں کا بندوبست کرنا پڑ گیا اور یوں اگست 2018میں عمران وزیراعظم بن گئے۔یہ بھی حقیقت ہے آرمی چیف جولائی 2018سے قبل عمران خان سے کبھی نہیں ملے تھے‘ یہ ان کے وزیراعظم بننے سے چند دن قبل ایک افسر کے ساتھ بنی گالا گئے اور عمران خان سے ملاقات کی۔ مستقبل کے وزیراعظم کی گفتگو زیادہ قابل فہم نہیں تھی‘ ان کی زیادہ تر باتیں تخیلاتی تھیں‘ ملاقات ختم ہو گئی اور یہ دونوں بنی گالا سے رخصت ہو گئے۔

Categories
آرٹیکلز

گاڑی کی ڈگی میں وزیر اعظم والا کیا معاملہ ہے ؟ اصل کہانی سامنے آگئی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حذیفہ رحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ غیر مناسب طرزِ سیاست ہے کہ جب اہم ترین معاملات پر قوم اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تو آپ ایک نان ایشو کو اہم ترین ایشو بنا کر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔کہاں حاکمِ وقت کی

جانب سے بددیانتی کرکے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی تحفے گھر لے جانے پر جواب دہی ہورہی ہے اور کہاںآپ نے غیرمرئی دنیا کی باتیں شروع کردی ہیں۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ خان صاحب وہی سرخ رنگ کی ڈائری ساتھ لے کر گئے ہیں مگر ڈائری سے پہلے بہت کچھ گھر جاچکا تھا ،جس کا حساب کتاب غالباً اس چھوٹی سی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔اعجاز الحق جیسے سیاستدان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار ہوں اور ایک منتخب وزیراعظم کے متعلق یہ کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے ایک ایم پی اے ملک احمد خان کے ساتھ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر آرمی ہاؤس جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہباز شریف کار کے بجائے ہمیشہ بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور لاہور سے اسلام آباد کے طویل سفر کے دوران کمر کی تکلیف کے باعث گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ جاتے ہیں،تاکہ طویل سفر میں زیادہ دیر گاڑی میں بیٹھنے سے کمرپر بوجھ نہ آئے۔شاید اعجاز الحق لاعلم ہیں کہ محفوظ قیمتی گاڑی کی کوئی ’’ڈگی‘‘نہیں ہوتی ۔پنجاب میں اعجاز الحق کے دوست عمران خان کی حکومت ہے۔سیف سٹی کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کرلیں کہ کبھی شہباز شریف نے قیمتی محفوظ گاڑی کے علاوہ بھی کسی دوسری گاڑی پر سفر کیا ہو۔شہباز شریف تو دن کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خوشگوار تعلقات کو تسلیم کرتے ہیں۔ہمیشہ اداروں کی سپورٹ کرتے ہیں ۔انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں بقول اعجاز الحق کے گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر آرمی ہاؤس جائیں ؟آج جب پوری قوم نے ایک فیصلہ کیا،ایک ایسا شخص جو کہ صبح شام اپنے مخالفین کو چور کہتا تھا اوربات بات پر ریاستِ مدینہ کی بات کرتا تھا ، ایسے میں اس کی چوری رنگے ہاتھوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پکڑ لی تو آپ نے انتہائی مضحکہ خیز شوشہ چھوڑ دیا ،جو کہ آپ ایسے سیاست دان کے لیے مناسب نہیں تھا ۔ویسے شہباز شریف کو بھی دائیں بائیں نظر دوڑانی چاہئے کیونکہ اعجاز الحق نے تو ایک منفی شوشہ ضرور چھیڑا ہے مگر آج سے کئی ماہ پہلے جب شہباز صاحب وزیراعظم نہیں بنے تھے تب بھی آپ کی جماعت کے ہر رکن اسمبلی کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ فلاں رکن صوبائی اسمبلی بنیادی طور پر شہباز شریف اور جنرل باجوہ(اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پل کا کردار اداکررہے ہیں۔کوئی دوست اگر آ پ کے لئے کوئی اہم کام سرانجام دے ہی رہا ہے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی چاہئےکہ پارٹی کی میٹنگز اور ساتھی اراکین سے ایسی معلومات شیئر نہ کرے،کیونکہ جب معلومات ہاتھ سے نکل جاتی ہیں توپھر اعجاز الحق ہوں یا کوئی اور… اس کا استعمال اپنی مرضی سے من گھڑت باتیں شامل کرکے کرتا ہے کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

Categories
آرٹیکلز

بدھاں بائی کی ’سہگل حویلی‘ شیخ رشید احمد کی لال حویلی کیسے بنی؟ بی بی سی کی خصوصی معلوماتی رپورٹ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتوم مضمون نگار ذکیہ نیئر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔راولپنڈی کے بوہڑ بازار سے گزر ہو تو لال حویلی پر نگاہیں ضرور ٹکتی ہیں جسے شہر کی پہچان کہا جاتا ہے۔ حویلی کے سامنے برسوں سے مقیم چاچا صادق کہتے ہیں

کہ ’کبھی رات کے اندھیروں میں حسن و جمال کے مدح سراؤں کی بھیڑ لگا کرتی تھی، سر تال کی محفلیں سجتی تھیں۔ اب یہاں سیاسی شطرنج کی بساط سجتی ہے۔‘لال رنگ میں رنگی یہ عمارت کس نے بنوائی؟ شیخ رشید احمد صاحب کے پاس کب سے ہے اور راولپنڈی کی باقی عمارتوں سے قدرے مختلف اس رہائش گاہ کی تاریخ کیا ہے؟ یہ وہ سوال تھے جن کے جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہم بوہڑ بازار جا پہنچے۔حویلی کے آس پاس دکانوں کے تھڑوں پر بیٹھے بزرگوں سے حویلی سے جڑی داستانیں سن کر قدم محکمہ اوقاف کی جانب بڑھتے چلے گئے جہاں چار دن مسلسل چکر لگانے کے بعد کوئی ذمہ دار افسر تو نہ ملا لیکن وہاں موجود اہلکاروں نے کچھ کاغذ الٹ پلٹ کر بتایا کہ ’حویلی کے کچھ حصے جن میں مندر بھی شامل ہے، محکمے کے پاس ہیں، جبکہ ایک حصہ شیخ صاحب کا ہے۔‘واضح رہے کہ حال ہی میں ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک راولپنڈی نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کو 7 روز میں لال حویلی خالی کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا جس کے خلاف شیخ رشید نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ایسا ہی ایک نوٹس ان کو 2014 میں بھی ملا تھا۔ اس وقت شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ لال حویلی سے متصل محکمہ اوقاف کی جائیداد جو دراصل ایک مندر ہے پچھلے 15 سے 20 سال سے عوامی مسلم لیگ کے زیراستعمال رہی۔شیخ رشید کے مطابق ’ہمارے پاس زمین نہیں،

اوپر والا ڈھائی مرلے کا چوبارہ ہے، ہمارے علاوہ 19 دیگر لوگ بھی لال حویلی میں رہتے ہیں۔‘حویلی اندر سے کیسی ہے؟ کیسے ایک حویلی میں محبت کے لیے بنائی گئی راہداریاں سیاست کی بھول بھلیوں کی نذر ہوئیں ۔۔ کیا اس سے جڑی داستان کے کرداروں کو اب بھی حویلی کے اندر جا کر محسوس کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کا تعلق اس کی ملکیت سے جڑے قانونی تنازعے سے ہے۔دھن راج کو بدھاں کے گھنگروؤں کی جھنکار اس قدر بھائی کے وہ اسے دل بیٹھے۔ محبت کی اسی کہانی نے ’لال حویلی‘ کی بنیاد رکھی۔دھن راج بدھاں کو اپنے ساتھ راولپنڈی لے آئے اور بوہڑ بازار میں ایک شاندار حویلی بنوائی جو سہگل حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔بدھاں بائی مسلمان تھیں اس لیے احترام میں دھن راج نے بدھاں کے لیے حویلی کے صحن میں مسجد اور اپنے لیے مندر بنوایا۔ شیخ رشید احمد اپنی کتاب ’فرزند پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دونوں اپنی اپنی عبادت گاہوں میں بنا کسی خوف کے عبادت کیا کرتے تھے مگر آج اسی مندر مسجد اور حویلی کے درمیان کئی گھر حائل ہیں۔‘آس پاس کے پرانے مکین بشمول چاچا صادق، چاچا امین اور چاچا رحمت بتاتے ہیں کہ ’حویلی میں آنے کے بعد بدھاں صوم و صلوٰۃ کی پابند ہو گئی تھی۔آہستہ آہستہ گانا سیکھنے والوں کی تعداد کم اور بدھاں سے اسلامی درس لینے والے بڑھتے گئے۔‘ادھر عدالت نے سہگل حویلی کو متروکہ ملکیت قرار دے دیا جس کے بعد حویلی کے 20ویں حصے میں سے صرف وہی حصہ بدھاں بائی کو مل سکا

جو آج لال حویلی کہلاتا ہے۔عدالت میں بدھاں بائی سے جج نے کہا کہ وہ بیان دے دیں کہ وہ ہندو ہو چکی ہیں یا دھن راج مسلمان ہو چکے تھے۔ اس دوران دو بار عدالت کی سماعت ملتوی ہوئی کہ بدھاں کو یہ بیان دینے پر قائل کیا جائے اور پوری حویلی صرف اسی کے حصے میں آئے۔ مگر اس نے عدالت میں کہا کہ ’وی ہیو شئیرڈ ایوری تھنگ ایکسیپٹ ریلیجن۔‘ (یعنی مذہب کے سوا ہم نے سب کچھ بانٹا)۔ یوں حویلی کا بڑا حصہ اس سے چھن گیا”۔بوہڑ بازار کی چھوٹی بڑی دکانیں اور گلیاں بھی کسی زمانے میں عمارت کے صحن کا حصہ تھیں۔چاچا رحمت بتاتے ہیں کہ ’محبت اور حویلی کی تقسیم ہوئی لیکن کرچی کرچی بدھاں بائی ہو گئی۔ محبت دور اور نشانی تقسیم ہوئی تو بدھاں کا وجود بھی بکھر گیا۔‘شیخ رشید بتاتے ہیں ’اسی حویلی میں چوری کی غرض سے آئے چوروں نے اسکے جوان سالہ بھائی کو بھی قتل کیا۔۔۔ طرح طرح کے لوگ اسے اکیلا پا کر حویلی میں جھانکتے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ بہت امیر خاتون ہے جسکے پاس سونے چاندی کے زیورات ہیں مگر دامن میں ادھوری محبت اور اسکی منقسم نشانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک رات بدھاں بائی سہگل حویلی چھوڑ گئی اور کبھی نہ لوٹی۔ وہ کہاں گئی کیوں گئی کوئی نہیں جانتا مگر دوبارہ سہگل حویلی میں اسے کسی نے نہ دیکھا۔‘پھر سالوں یہ حویلی ویران پڑی رہی کوئی خوف کے مارے اسے خریدنے کو نہ بڑھتا۔۔حویلی کے بالکل ساتھ والے مکان کی مکیں یاسمین سناتی ہیں کہ ’وقت وہ بھی آیا جب سہگل حویلی کو لوگ جنوں کی حویلی کہنے لگے کسی کو یہاں بجتی پائل سنائی دیتی تو کسی کو بدھاں کے قہقہے۔

‘شیخ رشید صاحب حویلی خریدنے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’کافی عرصہ گمنامی میں رہنے والی سہگل حویلی کو کشمیر سے آئے ایک خاندان نے دو لاکھ 18 ہزار میں خریدا۔ پھر خریدنے والے نے شیخ رشید کو ساڑھے پانچ لاکھ میں حویلی بیچ دی۔ یوں سہگل حویلی کوڑیوں کے بھاؤ خرید لی گئی۔‘حویلی کو شیخ رشید نے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا۔ کئی ممتاز سیاستدانوں کو دعوت سخن دینے والی بالکنی بھی توجہ کا مرکز رہی۔ اسی بالکنی میں نوابزادہ نصر اللہ، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے سیاستدانوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔شیخ رشید نے حویلی کی تزئین و آرائش میں لال رنگ کی کشمیری لکڑی کا استعمال کیا۔ نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کے بعد اسے نام بھی نیا دیا گیا ’لال حویلی‘۔ یہ نام بھی شیخ رشید احمد کا ہی دیا گیا ہے اور حویلی پر چسپاں اس نام کی تختی بھی سن 80 کی دہائی میں لگائی گئی تھی۔ یوں بدھاں بائی کی سہگل حویلی شیخ رشید کی لال حویلی بن گئی۔شیخ صاحب یہ بتاتے ہوئے جذباتی دکھائی دیے کہ ’بدھاں بائی کا ڈانس گھر آج بھی موجود ہے جبکہ وہ دو کمرے جن میں وہ رہا کرتی تھی ان پر پرانے قفل پڑے ہیں۔‘ شیخ رشید صاحب نے بدھاں کا بیڈ جس پر عدالت میں دیا جانے والا بیان کندہ ہے اپنے کمرے میں سجا رکھا ہے.شیخ رشید نے اپنی کتاب فرزند پاکستان میں لکھا کہ ’ایک بار کشمیر سے ایک افسر حویلی دیکھنے آیا وہ رو پڑا اور بولا ’یہ میری ماں بدھاں کی حویلی ہے۔ ‘شیخ صاحب کہتے ہیں ’ہم نے اسے روکنا چاہا بدھاں کے بارے میں جاننا چاہا مگر وہ کچھ کہے بنا چلا گیا۔‘بدھاں کے لیے بنوائی گئی مسجد اب بازار کے رہائشیوں کے استعمال میں ہے جبکہ مندر کی حالت مخدوش تر ہے جسکا کوئی والی وارث نہیں۔شیخ صاحب کو حویلی چھوڑنے کے پھر سے احکامات ملے ہیں لیکن وہ اپنی نجی اور سیاسی محفلوں میں ایک جملہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’اگر مجھے چوائس ہو کہ زندگی یا لال حویلی تو میں لال حویلی کو چُن لوں گا۔‘

Categories
آرٹیکلز

کیا اسٹیبلشمنٹ نے لاڈلے عمران کو پھر سے گود میں اٹھا لیا ہے ؟ سلیم صافی کے تہلکہ خیز انکشافات ، اصل صورتحال سامنے آگئی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے میری کوشش رہی کہ میں سیاست اور صحافت کا موضوع سیلاب زدگان کو بنائوں۔ اس مقصد کیلئے میں نے جیو تک کے خلاف ٹویٹ کئے لیکن بدقسمتی سے تمام سیاستدان بالعموم اور عمران خان

بالخصوص سیلاب اور سیلاب زدگان کو نمبر ون ایشو بنانے نہیں دے رہے ہیں۔ بلکہ سوائے حامد میر صاحب کے ہمارے اہلِ صحافت کے لئے بھی وہ مسئلہ نمبرون نہیں بن رہا۔ ایوان صدر میں آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات، کیوں اور کیسے ہوئی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ان سب سوالوں کا جواب اور متعلقہ معلومات کافی دنوں سے میرے سینے میں دفن تھیں تاہم اس وجہ سے میں اس طرف نہیں جارہا تھا کہ کہیں سیلاب زدگان پر توجہ نہ دینے کے جرم میں کہیں میں بھی شریک نہ ہوجائوں لیکن بدقسمتی سے عمران خان باز آرہے ہیں نہ ان کے ترجمان اور نہ ان کاحامی میڈیا۔ پہلے ایوان صدر میں اس خفیہ میٹنگ کی خبر لیک کی، پھر عمران نیازی نے اپنے رویے سے ایسا تاثر دیا کہ جیسے انہیں پھر اسٹیبلشمنٹ نےگود لے لیا۔ پھر ساتھ ایک اور جھوٹی خبر پھیلا دی کہ آرمی چیف ایک کورکمانڈر کی گاڑی میں جاکر ایک سیف ہاؤس میں عمران نیازی سے ملے ہیں۔ کچھ ریٹائرڈ فوجیوں کے ذریعے یہ جھوٹ بھی پھیلایا گیا کہ میٹنگ کی کوشش پی ٹی آئی نہیں بلکہ فوج کی طرف سے ہوئی۔ اب یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جب نیازی صاحب کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو انہوں نے دوبارہ یوٹرن لیا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کا نام جلسوں میں لے کر فوج کو(عوام کے سامنے) آنکھیں دکھانے لگے۔ اس لئے آج میں بھی سیلاب سے صرف نظر کرکے اس حوالے سے حقائق سامنے لانے پر مجبور ہوا ہوں۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد شاید ہی کوئی روز ایسا گزرا ہو کہ جب نیازی صاحب یا ان کے کسی نمائندے نے کسی نہ کسی چینل سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کا منت ترلہ نہ کیا ہو۔ ان کا یہی مطالبہ رہا کہ وہ ماضی کی طرح انہیں گود لے کر موجودہ حکومت کو رخصت کرکے دوبارہ انتخابات کروادیں تو وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ان رابطوں کے دوران انہوں نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو گارنٹی کے ساتھ ایکسٹینشن کی آفر بھی کی لیکن وہ نیوٹرل رہنے پر اصرار کرتے ہوئے ملاقات سے انکار کرتے رہے۔ نہ چیف کے رشتہ داروں کو چھوڑا گیا ، نہ سابق فوجی افسران کو اور نہ ان کے ذاتی دوستوں کو ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق نمائندے زلمے خلیل زاد سے بھی آرمی چیف کو درخواستیں کروائی گئیں کہ وہ عمران نیازی سے ایک ملاقات کرلیں۔ واضح رہے کہ امریکی نیوکانز کے رکن زلمے حکومت کی تبدیلی کے ایک ماہ بعد پاکستان آئے تھے اور نیازی صاحب سے خفیہ اور طویل ملاقات کی تھی۔ علاوہ ازیں پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بھی دن رات منت ترلے میں لگے رہے جبکہ عارف علوی بھی ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہے لیکن آرمی چیف پھر بھی ملنے کو تیار نہیں تھے۔ نوبت یہاں تک آئی کہ ایک دن اچانک عارف علوی آرمی چیف کے گھر جاپہنچے اور کافی دیر تک منت ترلہ کرکے انہیں اپنے گھر یعنی ایوان صدر میں

اپنے لیڈر عمران نیازی سے ملاقات پر آمادہ کیا۔ چنانچہ نیازی صاحب سے شدید مایوس اور دکھی جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مطلع کرکے اس ملاقات کیلئے ایوان صدر گئے۔ حسبِ عادت عمران نیازی نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایم کیوایم اور باپ پارٹی کو الگ کروا کر موجودہ حکومت ختم کردیں اور فوری انتخابات کروا لیں۔ جواب میں انہیں بتایا گیا کہ پہلے ہی پی ٹی آئی کے لئے غیرآئینی کردار ادا کرنے کی وجہ سے فوج بہت بدنام ہوئی ہے اور وہ دوبارہ یہ غلطی نہیں کرسکتی۔ ان کے سامنے اعدادوشمار رکھ کر بتایا گیا کہ اگر وہ اقتدار میں رہتے تو جون تک ملک ڈیفالٹ کرجاتا جبکہ امریکی سازش کے جھوٹے بیانیے سے بھی انہوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ عمران نیازی اصرار اور عارف علوی وغیرہ بیچ بچاؤ یا منت ترلہ کرتے رہے تو جواب میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی تمام احسان فراموشیوں اور فوج میں تقسیم کی کوشش کے باوجود فوجی قیادت ان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی اور نہ یہ چاہتی ہے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ہو جو بھٹو یا نواز شریف وغیرہ کے ساتھ ہوا لیکن فوج انہیں فوری طور پر الیکشن نہیں دے سکتی۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ موجودہ سیٹ اپ نے آئی ایم ایف سے ڈیل کرکے وقتی طور پر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی استحکام آگیا ہے۔ اب بھی ڈالر اور مہنگائی کنٹرول میں نہیں آرہے ہیں۔ روزانہ فوج اور حکومت کوششیں کرکے چند ارب کا انتظام کرتی

اور ملکی انتظام چلاتی ہے جبکہ اوپر سے سیلاب نے کسر پوری کردی ۔ تاہم اگر اتحادی جماعتوں کا آپس میں کوئی مسئلہ آجاتا ہے اور حکومت خود ٹوٹ جاتی ہے یا پھر اگر معاشی استحکام کے بعد متفقہ طور پر سیاسی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات کراتی ہیں تو فوج نہ رکاوٹ بنے گی اور نہ مداخلت کرے گی۔انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اس وقت بھی دو صوبوں اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومت ہے اور مشورہ دیا گیا کہ بہتر ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ جائیں اور مفاہمت کے ذریعے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور نئے انتخابات کا راستہ نکالیں۔ وہ اگر پاپولر ہورہے ہیں تو فوج ان کا راستہ نہیں روکے گی اور اگر وہ اگلے انتخابات جیتتے ہیں تو آرام سے جیت لیں۔ فوج اسی طرح لاتعلق رہے گی جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں لاتعلق رہی۔ یوں یہ میٹنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی۔ شاید اس کے بعد بھی تناؤ میں کمی آتی لیکن عمران خان نے پہلے اس میٹنگ کی خبر کو لیک کرایا۔ پھر اس کے بارے میں یہ جھوٹا تاثر دیا کہ جیسے یہ میٹنگ فوج کی خواہش یا مجبوری تھی ۔ پھر کچھ عرصہ چالاکی کا مظاہرہ کرکے یہ جھوٹا تاثر دیا کہ فوج کے ساتھ ان کی پھر ڈیل ہوگئی ہے۔ اس سے انہوں نے حکومت اور فوج کو آپس میں بدگمان کرنے کی کوشش کی۔ پھر جنرل فیض حمید کے ذریعے ایک اور خفیہ میٹنگ کی جھوٹی خبر پھیلا دی اور ظاہر ہے ان خبروں سے تمام ادارے متاثر ہوتے رہے لیکن جب انہیں احساس ہوا کہ نومبر سے پہلے کسی صورت نئے انتخابات نہیں ہوسکتے اور کسی بھی صورت ان کے ہاتھوں ان کے پسند کے نئے آرمی چیف کی تقرری کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی تو وہ دوبارہ پریشرائز پر اتر آئے۔ پہلے کورکمیٹی میں اپنے ان لوگوں کو کھری کھری سنائیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان پر پابندی لگائی کہ وہ آئندہ کوئی بات نہیں کریں گے۔ حالانکہ ان میں پرویز خٹک جیسوں کو بھی سننا پڑیں جو خود عمران خان کے نمائندے کے طور پر جاتے تھے۔ پھر چکوال کے جلسے میں ایک بار پھر شیر نظر آنے کی کوشش کی اور فوج اور آئی ایس آئی کو خوب سنائیں۔ اگرچہ اب کی بار آئی ایس پی آر کی طرف سے ان کی وارننگ پر کوئی ردعمل نہیں آیا لیکن میری معلومات کے مطابق فوج کی صفوں میں غصے کی جو لہر اب دوڑ گئی ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے فوج کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے اور عمران خان مزید اس سلسلے کو کہاں تک لے جاتے ہیں

Categories
آرٹیکلز

شہباز شریف اور اتحادی کمپنی کے ذریعے نئے آرمی چیف کا تقرر روکنے کے لیے تحریک انصاف کن آپشنز پر غور کررہی ہے ؟ اہم خبر

اسلام آباد (ویب ڈیسک) نامور صحافی انصار عباسی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔نئے آرمی چیف کا تقرر وزیراعظم شہباز شریف کے ہاتھوں ہونے کو روکنے کیلئے پی ٹی آئی قانونی آپشنز بشمول سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ بات پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بتائی ہے۔

تاہم، رابطہ کرنے پر فواد چوہدری نے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ انہیں علم نہیں کہ ایسے کسی اقدام پر غور کیا جا رہا ہے۔ سینئر پی ٹی آئی لیڈر کے مطابق، پارٹی نہیں چاہتی کہ شہباز شریف کی زیر قیادت حکمران اتحاد نومبر کے آخر میں آرمی چیف کا تقرر کرے۔انہوں نے کہا کہ جیسا کہ عمران خان پہلے ہی ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ نئی حکومت کے آنے تک موخر کر دیا جائے۔ تاہم، جب فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی نومبر میں شہباز شریف کے ذریعے آرمی چیف کے تقرر کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر کو روکنے کیلئے معاملہ اپنی پارٹی کے ماہرین قانون کو بھیج دیا ہے، تو فواد نے نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ کے رہنما اور وفاقی وزیر خرم دستگیر نے بیان دیا تھا کہ آرمی چیف کے تقرر کیلئے نواز شریف سے مشورہ کیا جائے گا؛ اس پر پارٹی میں بحث ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دستگیر کے بیان کے تناظر میں پی ٹی آئی رہنماؤں نے اس معاملے پر بیانات دیے تھے۔ اپنے حالیہ جلسے میں عمران خان نے متعدد مرتبہ کہا کہ حکومت کو آرمی چیف کے تقرر کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ نجی ٹی وی

کو دیے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ماہرین قانون کا کام ہے کہ قانونی سطح پر اس معاملے سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے لیکن نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ آئندہ الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک موخر کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئی منتخب حکومت کو آرمی چیف کا تقرر کرنا چاہئے۔ چند ہفتے قبل، عمران خان کو موجودہ حکومت سے آرمی چیف کے تقرر پر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن کا ایسے تقرر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ کام وزیراعظم اور حکومت وقت کا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان نے اس تقرر کے معاملے پر اپنی رائے کیوں تبدیل کی اور اسے اپنے نئے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا۔ دوسری جانب حکومت پرعزم ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نومبر میں آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ اگرچہ عمران خان تقرر کے معاملے میں تاخیر چاہتے ہیں تاہم بظاہر لگتا ہے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نومبر 2022ء کے بعد کام نہیں کرنا چاہتے۔ قانوناً دیکھا جائے تو تقرری کا اختیار وزیراعظم کا ہے۔ تقرری میں غیر معینہ مدت تک تاخیر کے حوالے سے کوئی قانونی آپشن موجود نہیں۔

Categories
آرٹیکلز

خان صاحب : ملک و قوم کے لیے خیر کا باعث بنو ، شر کی وجہ نہ بنو ۔۔۔۔ کالم نگار انصار عباسی کا عمران خان کو زبردست مشورہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اگر ہمیں اپنی قوم ، اپنے لوگوں اور خصوصاً اپنے نام نہاد پڑھے لکھے طبقے اور نوجوان نسل کے کردار اور اخلاقی پستی کو دیکھنا ہے تو اپنے سوشل میڈیا کو دیکھ لیں۔ بدتمیزی، بد تہذیبی، مغلطات

وہ بھی ایسی کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو سوشل میڈیا پر بڑی مقدار میں ملے گا۔ تمیز سے بات کرنے کا تو کوئی رجحان ہی نہیںرہا اور خاص طور پر سیاسی اختلاف کے معاملے میں عدم برداشت کا چلن اس حد تک بڑھ چکا کہ اپنی سیاسی سوچ کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ اس بدتمیزی، بدتہذیبی میں تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سب سے آگے ہے۔’’ افسوس ‘‘کا لفظ میں نے اس لئےاستعمال کیاکہ ایک تو تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اوراس کے سوشل میڈیا میں فالوورز بھی سب سے زیادہ ہیں، دوسرا یہ کہ اُس عمران خان کے ووٹرز، سپورٹرز اور چاہنے والوں کی بات کی جا رہی ہے جو معاشرےکی کردار سازی کی بہت بات کرتے ہیں، جو نوجوانوں کے اخلاق اور اُن کی تربیت پر زور دیتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کا بار بار حوالہ دیتے ہیں۔خان صاحب کو یہ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ جن اسلامی تعلیمات پر فخر کر کے اس قوم کو سدھارنے کی وہ بات کرتے ہیں ، اُن کے اپنے ماننے والے ، چاہنے والے ووٹرز اور سپورٹرز اُس کے بالکل برخلاف کیوں جا رہے ہیں؟ بدتمیزی، بدتہذیبی کے کلچر کا سب سے زیادہ تعلق تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سےکیوں جوڑا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اسلامی تعلیمات ، کردار سازی اور بہترین تربیت کی بات کریں لیکن جب عمل کا وقت آئے تو حالات اس کے بالکل برعکس دکھائی دیں۔ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر جس انداز میں تحریک انصاف

اور اس کا سوشل میڈیا دوسروں پر بہتان تراشی کرتا ہے اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اسلام کا نام لینے اور اسلامی تعلیمات کا حوالہ دینے والے خان صاحب کی تو کوشش ہونی چاہئے کہ اُن کے پارٹی رہنما اور فالوورز دوسروں کے لئے بہترین کردار اور اخلاق کی وجہ سے رول ماڈل ہوں لیکن معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔اکثر کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے معاشرے میں ایک ایسی پود تیار کر دی ہے جو نہایت بدتمیز اور بدتہذیب ہے اور سیاسی طور پر اس قسم کے عدم برداشت کا شکارہے کہ اپنے رہنما کی بات کے خلاف کوئی دوسری بات سننا ہی نہیں چاہتی،اپنے سیاسی مخالفین کو برداشت نہیں کرتی، جو اختلاف کرے اُس پر جھوٹے الزامات لگاتی ہے ۔ خان صاحب کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ ایسا کیا کر رہے ہیں کہ اُن کے ووٹرز ،سپورٹرز میں جیسے نفرت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔خان صاحب یہ بھی دیکھیں کہ یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بسنے والے پاکستانی جن کی ایک بڑی تعداد پڑھی لکھی تصور کی جاتی ہے وہ عمران خان کی محبت میں اختلاف کرنے والوں کے ساتھ سوشل میڈیا میں ایسے بدزبانی کیوں کرتے ہیں جیسے اُن کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو؟ خان صاحب کہتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام اُن کے ساتھ ہیں اور یہ کہ وہ معاشرےمیں انقلاب لا رہے ہیں۔ کوئی پوچھے جب عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر نفرت کو کیوں پھیلا رہے ہیں، بدتمیزی اور بدتہذیبی کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کرتے، اپنے سوشل میڈیا کو کیوں نہیں کہتے کہ اختلافِ رائے کا اظہار تمیز کے دائرے میں رہ کر کریںاور جھوٹ، بہتان تراشی اور لغوالزامات سے باز رہیں؟خان صاحب کو اپنے بعض پارٹی رہنماؤں اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے رویے کا بغور جائزہ لینا چاہئے اور ایسا کرتے وقت اُن اسلامی تعلیمات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے جن کا وہ بار بار حوالہ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہےکہ خان صاحب کے سمجھ میں آ جائے اور وہ کسی بڑی خرابی کی بجائے کسی بڑی بھلائی کا سبب بن جائیں۔

Categories
آرٹیکلز

وہ نامور خاتون کالم نگار جو باقاعدگی کے ساتھ داتا دربار پر حاضری دیتی ہے اور گھنٹوں وہاں بیٹھی خود سے باتیں کرتی ہے ۔۔۔۔۔ ایک خوبصورت تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون کالم نگار صغریٰ صدف اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔داتا دربار پر کئی طرح کے خزانے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ مادی ضرورت پوری کرنے کے لئے لنگر اور روحانی کے لئے محفل حمد، محفل نعت، محفلِ سماع اوردیگر محافل جو ہر وقت جاری رہتی ہیں، قرآن پڑھا جاتا ہے،

درود و سلام کا ورد کیا جاتا ہے۔ مادی و روحانی ضرورت اور رہنمائی کے علاوہ اخلاقی، ثقافتی اور انسانی قدروں کی ترویج میں اس دربار کا گہرا کردار ہے۔ رب کرے اس کے کشادہ صحن میں لنگر کی تقسیم جاری رہے۔ اس کے برآمدے بے گھر لوگوں کے لئے جائے امان بنے رہیں۔ اس کے ستون مہربان کندھے کا روپ دھارے رہیں جس پر سر رکھ کر لوگ اپنا دکھ بیان کر کے اپنا کتھارسز کر سکیں، جی بھر کر رو سکیں اور روحانی سرخوشی سے روح کا دامن بھر سکیں۔ جو لوگ اس دربار کی زیارت کرتے ہیں انہیں کسی ماہرِ نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ صوفی سب سے بڑا ماہرِ نفسیات ہے۔ اس کا طریقۂ علاج بہت مؤثر ہے۔ انسان ظاہری دیکھ بھال میں الجھا رہتا ہے اور باطن میں بچھے جالوں سے بے خبری اسے نڈھال کر دیتی ہے۔ صوفی اندر جمع کثافتوں کی طرف توجہ دلا کر انسان کی تطہیر کرتا ہے۔ میں جب بھی دُکھی ہوتی ہوں داتا دربار پر حاضری دیتی ہوں، وہاں گھنٹوں بیٹھ کر اپنے رب سے باتیں کرتی ہوں۔ اس دربار کے مہربان در و دیوار میری ڈھارس بندھاتے ہیں، میرے تمام آنسو اور دُکھ خود میں جذب کر کے مجھے روحانی دولت سے مالا مال کر کے زندگی کی رہگزر پر زیادہ توانائی کے ساتھ خدمتِ خلق کی ترغیب دیتے ہیں۔

Categories
آرٹیکلز

تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے بحال ۔۔۔۔ کپتان کی راہیں آسان ہونے کے امکانات پیدا ۔۔۔۔ انصار عباسی نے اندر کے حالات بتا دیے

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے بحال ہوگئے ہیں اور عمران خان اب نہ گرفتار ہوں گے اور نہ ہی اُن کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے

ایک ٹی وی انٹرویو میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لئے بغیر نئے الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک ان کے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ اُنہوں نے ایکسٹینشن کا لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن جو کہا، اُس کا مطلب موجودہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہی ہے اور یہی بات فواد چوہدری نے بھی کی۔ میری معلومات کے مطابق آرمی چیف نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے اور مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے لیکن عمران خان صاحب نے آرمی چیف سے متعلق اپنے حالیہ بیانات میں آنے والے آرمی چیف کو بلاوجہ متنازع بنا دیا جو نہ تو فوج کے ادارے کے لئے اچھی بات ہے نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے۔خان صاحب کی منطق کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف تعینات نہیں کر سکتی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بھگوڑا‘‘ نواز شریف اور ’’چور‘‘ آصف علی زرداری کیسے نیا آرمی چیف تعینات کرسکتے ہیں حالاں کہ یہ تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے اور موجودہ حکومت اگر قائم رہتی ہے تو شہباز شریف نیا آرمی چیف تعینات کریں گے اور یہی قانونی اور آئینی پوزیشن ہے۔یہ ممکن نہیں کہ عمران خان صاحب کو یہ اختیار دے دیا جائے یا اُن کے دوبارہ وزیراعظم بننے تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو مؤخر کردیا جائے۔ وہ آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کی بات کرتے ہیں اور شہباز شریف کی طرف سے آرمی چیف کو تعینات کرنے کے مخالف ہیں تو کوئی اُن سے پوچھے کہ پھر نواز شریف کے مقرر کئے گئے موجودہ آرمی چیف کو کیوں ایکسٹینشن

دی تھی اور اپنے دور حکومت میں اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے رہے۔اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی زمانے میں عمران خان آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف ہوتے تھے لیکن اپنی حکومت میں اُنہوں نے اپنے اُس اصولی موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کو تین سال کے لئے ایکسٹینشن دے دی۔ جنرل باجوہ کی وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد خان صاحب نے ایک اور یوٹرن لیا اور جنرل باجوہ کو نہ صرف اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ اُن کا نا ملئے بغیر اُنہیں امریکہ کی رجیم چینج کی مبینہ سازش میں ہینڈلر تک قرار دے ڈالا اور انتہائی خطرناک القابات سے بھی نوازا۔ اب خان صاحب نے ایک اور یو ٹرن لیا اور چاہتے ہیں کہ جب تک نئے انتخابات نہیں ہوجاتے، موجودہ آرمی چیف ہی اپنے عہدے پرموجود رہیں۔ یعنی کل تک جس شخص کو وہ میر جعفر، میر صادق ، ہینڈلر ، امریکی سازش کے شراکت دار اور نجانے کیا کیا کچھ کہتے رہے، اب اُسی آرمی چیف کی موجودگی میں وہ نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نئی حکومت کرے گی۔اب تو عمران خان سازش کرنے والے امریکہ سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اہم امریکیوں سے چپکے چپکے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، وہ آرمی چیف جس نے اُن کو اقتدار میں لانے کے لئے بہت کچھ کیا، اُن کی حکومت کا ہر طرح سے ساتھ

دیا، عمران نے اپنی حکومت جانے پر اُسی آرمی چیف کو ولن بنا لیا اور اب اُسی آرمی چیف کو آئندہ انتخابات اور نئی حکومت کے قیام تک عہدے پر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یعنی مبینہ سازش کرنے والے ملک سے دوستی چاہتے ہیں اور اس سازش کے مبینہ ہنڈلر کے ساتھ بھی کام کرنے کے خواہاں ہیں لیکن اس مبینہ سازش میں اُن کے مطابق استعمال ہونے والے مہروں، یعنی خان صاحب کے سیاسی مخالفین سے وہ کسی صورت نہ بات کریں گے، نہ اُن سے ہاتھ ملائیں گے۔ یہ کیسی سیاست ہے؟ خان صاحب پر فوری الیکشن کا جنون سوار ہے اور کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔ سینئر صحافی کامران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں خان صاحب کو بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی معیشت کی خاطر بات چیت کرلیں اور آئندہ چھ آٹھ ماہ تک ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالیں اور انتخابات کا انتظار کریں لیکن اُن پر فوری انتخابات کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ کچھ اور سننے کو تیار ہی نہیں۔ اُن سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت فوری انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن اُن کے لئے فوری الیکشن ہی ایک آپشن ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوری طور پر اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ جہاں تک آرمی چیف کی تعیناتی کا تعلق ہے تو میری تمام سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، ایکسٹینشن کے قانون کو ختم کریں اور آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کےلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف بنانے کے فارمولے پر عمل کریں اور ہر صورت میں فوج کو سیاست زدہ ہونے سے بچائیں۔

Categories
آرٹیکلز

اچھا تو یہ بات ہے : (ن) لیگ کا سوشل میڈیا پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے پیچھے کیوں ہے ؟ 6 ستمبر کو کیا ہوا تھا ؟ عمرچیمہ کی خصوصی رپورٹ

اسلام آباد (ویب ڈیسک)نامور صحافی عمر چیمہ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ 6 ستمبر کو مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کے سربراہ کو ایک مشورہ ملاجس نے بیانیہ کے محاذ پر ناکامی کے باوجود پارٹی قیادت کی توجہ حاصل نہیں کی۔ پارٹی کے سوشل میڈیا کے سربراہ عاطف رؤف نے ٹویٹ کیا

کہ جو بھی ہماری ٹرینڈنگ ٹیم کا حصہ ہے یا اس کا حصہ بننا چاہتا ہے وہ اس ٹرینڈ میں ٹویٹ کرے۔ ان کے جوابات میں سے ایک سبق آموز تھا۔ ’سب سے پہلے آپ کو ایک ٹیم بنانی چاہئے۔ آپ (ن) لیگ کے پنجاب اسمبلی میں 165 ارکان ہیں۔ اسی طرح ایم این ایز اور سینیٹرز بھی ہیں۔ اگر ان میں سے ہر ایک آپ کو 100 رضاکار فراہم کرتا ہے تو آپ ایک اچھی ٹیم بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر یونین کونسل کی سطح پر پارٹی کے عہدیداران بھی شامل ہوجائیں تو آپ کو مدد کے لئے ارد گرد دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی‘۔ مسلم لیگ ن سوشل میڈیا کے ذریعے حمایت کو متحرک کرنے اور بیانیے کو اندرونی بنانے میں پی ٹی آئی سے بہت پیچھے ہے۔ پارٹی کے ہمدردوں کو بیانیہ کے محاذ پر ہونے والے اس نقصان پر تشویش بڑھ رہی ہے لیکن قیادت پریشان نظر نہیں آتی۔سوشل میڈیا کی حرکیات کو سمجھنا تو دور کی بات ہے وہ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما میاں نواز شریف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں کر سکے ۔ یہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے برعکس ہے۔ نہ صرف عہدیداروں کے اکاؤنٹس کی تصدیق کی جاتی ہے، پی ٹی آئی کے سٹی چیپٹرز کے ٹوئٹر ہینڈلز نے بھی تصدیق حاصل کر لی ہے۔ مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کے ایک عہدیدار نے کہا کہ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ذریعے ایسا کر سکتی تھی۔ تاہم پی ٹی اے کے ایک عہدیدار نے وضاحت کی کہ

ریگولیٹر صرف حکومت میں عہدے پر فائز افراد کے اکاؤنٹس کی تصدیق کی سفارش کرتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک ذریعے نے بتایا کہ ٹوئٹر نے نواز شریف کے اکاؤنٹس کی تصدیق کی متعدد درخواستوں پر غور نہیں کیا جس کی وجہ سوشل میڈیا کمپنی کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پانچ سے زیادہ بار درخواستیں بھیجی ہیں۔ ایک اور امیدوار خرم دستگیر ہیں جن کی تصدیق کی درخواست بھی زیر التوا ہے۔ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہی اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کرانے میں کامیاب ہوسکے۔ اسی طرح عطا تارڑ پر قسمت کی دیوی ان کے حمزہ کی کابینہ میں شامل ہونے کے بعد مسکرائی اور تصدیق حاصل کرلی۔ پس منظر میں ہونے والی گفتگو سے سوشل میڈیا کے تئیں قیادت کی بے حسی پر مسلم لیگ (ن) کی صفوں اور فائلوں میں مایوسی کا پتہ چلتا ہے جو ایک ایسے وقت میں بیانیہ کے محاذ پر میدان لڑائی بن چکا ہے جب 14 سے 34 سال کی عمر کے تقریباً 70 فیصد نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کی خراب کارکردگی کے پیچھے دو بڑی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور شریف خاندان میں بہت زیادہ رہنما ہیں۔ لندن میں پارٹی کے ایک ذرائع نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ پارٹی کے پاس فنڈز کی کمی ہے، یہ وہ خواہش ہے جس کی ہم میں کمی ہے۔ ایک بار پھر ایسا نہیں ہے کہ قصور صرف پاکستان میں قیادت کا ہے، میاں نواز شریف بھی اس میں زیادہ دلچسپی

نہیں رکھتے۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ کئی ہمدردوں نے پارٹی کے سپریم لیڈر کو اطلاع دینے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ بڑے شریف صاحب بات چیت میں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، یہ عملی نتیجہ ظاہر نہیں کرتا جو کسی کی سنجیدگی کا صحیح پیمانہ ہے۔ اگر عمران خان کو سیاسی طور پر کسی بھی موقع سے نقصان پہنچتا ہے تو یہ ان کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہو گا جیساکہ مسلم لیگ ن اس کا کریڈٹ نہیں لے سکتی۔ ایک اور اہم عنصر جس کی نشاندہی کی گئی وہ شریف خاندان کے اندر قیادت کے حوالے سے کشمکش ہے۔ اگرچہ مریم نواز کافی آواز والی ہیں لیکن وہ نہ تو اپنے ارادے واضح کرنے میں آزاد ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اپنے بیانیے کی بازگشت کے لیے باوقار ٹیم ہے۔ شہباز شریف پارٹی سربراہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لیڈر بننے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو مسابقتی بیانیہ پیش کر سکے۔ اس وقت، مختلف سوشل میڈیا ٹیمیں ان لیڈروں کی کارکردگی کو پیش کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں جو انہیں فنڈ دیتے ہیں۔ اگر ٹوئٹر کو سوشل میڈیا پر کسی پارٹی کی موجودگی کا فیصلہ کرنے کے لیے گائیڈ کے طور پر لیا جائے تو پی ٹی آئی مختلف معاملات پر اپنا نقطہ نظر اجاگر کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ٹرینڈز کامیابی سے چلاتی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن اس محاذ پر اکثر ناکام رہتی ہے۔ اس بات کا اعتراف پارٹی کے سوشل میڈیا سربراہ عاطف رؤف نے بھی کیا ہے۔

دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ن لیگ فعالیت میں پی ٹی آئی سے آگے ہے لیکن رجحان سازی (ٹرینڈ میکنگ) میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں ناکامی اس وجہ سے ہے کہ ہمارے پاس نامیاتی موجودگی ہے جبکہ پی ٹی آئی پیڈ ماڈل کے ذریعے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آپ نے خبر پڑھی ہوگی کہ پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتوں نے اس مقصد کے لیے یونین کونسل کی سطح تک انٹرنز کی خدمات حاصل کی ہیں۔ دی نیوز نے نوٹ کیا کہ مسلم لیگ ن کے کارکنان اور ہمدرد اکثر ٹوئٹر پر پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ان کی اکثریت ن لیگ کے سوشل میڈیا کی وجہ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف کی تقسیم کی سیاست کی مخالفت کی وجہ سے سرگرم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں عاطف نے کہا کہ جو ان کے بارے میں تشویش ظاہر کرتے ہیں درحقیقت بعض اوقات ʼغیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور قیادت کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایک اور سوشل میڈیا عہدیدار نے پارٹی لیڈروں کی جانب سے بیانیہ کی کمی کو رجحان سازی میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹرینڈز کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکتے جب تک کہ کچھ معاملات پر قیادت کا کوئی واضح پالیسی/بیان نہ ہو۔ اگرچہ مسلم لیگ ن ٹوئٹر پر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ہے، دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر اس کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے جہاں ایک بار پھر پی ٹی آئی کا راج ہے۔ ہفتوں پہلے دی نیوز نے ایک وزیر سے پوچھا تھا کہ سوشل میڈیا پر پارٹی کی جانب سے مناسب توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ تو ان کا جواب مزاحیہ تھا ’لوگ جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کون کیا کر رہا ہے‘۔ پارٹی کے ایک اور رہنما نے اس نقطہ نظر کو نظر انداز کردیا۔

Categories
آرٹیکلز

یو پی ایس کی بیٹری کی زندگی بڑھانے کا ایک زبردست فارمولا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں دوستو،اخبارات میں اکثر ٹیشن دینے والی خبریں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔۔ لیکن ہم آپ کے لئے کچھ ایسی خبریں بھی کھوج نکالتے ہیں جنہیں پڑھ کر نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ ہوسکے بلکہ آپ دوسروں کو بھی بتاسکیں۔۔

ایسی خبریں اخبارات میں عام طور پر نظر نہیں آتیں۔۔ اس کے لئے تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ہم آپ کو پکی پکائی دینے کیلئے بیٹھے ہیں۔۔چنانچہ آپ بے فکر رہیں، آئندہ بھی آپ کو اسی طرح کی دلچسپ خبریں اور تحقیقات شیئر ضرور کیا کریں گے۔۔اکثر گھروں میں موجود یو پی ایس کی بیٹری سال میں کم از کم ایک بار ضرور تبدیل کرنا پڑتی ہے، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایئر کنڈیشنر سے نکلنے والا پانی بیٹری کی عمر بڑھا سکتا ہے۔اے سی سے نکلنے والا پانی اتنا صاف ستھرا ہوتا ہے کہ اسے یو پی ایس بیٹری کے لیے بہترین دوا تک قرار دیا جاتا ہے۔ کراچی میں بیٹریوں کی فروخت اور مرمت سے وابستہ کئی دکاندار ایئرکنڈیشنر کے پانی کو باقاعدگی سے خرید کر استعمال بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایئر کنڈیشنر کا پانی استعمال کرنے پر بیٹری اپنی اوسط عمر سے تقریباً دو یا تین ماہ تک زیادہ کام کرتی ہے، چاہے وہ یو پی ایس میں نصب ہو یا پھر کسی گاڑی میں لگی ہو۔یہ پانی دراصل ہوا میں موجود آبی بخارات کے ٹھنڈا ہو کر مائع حالت میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بنتا ہے اور اسی بنا پر بہت خالص بھی ہوتا ہے۔ اگر اسے احتیاط سے جمع کرلیا جائے تو یہ بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔سائنسدانوں نے موٹاپے اور روشنی کے درمیان ایک دلچسپ تعلق دریافت کر لیا۔ سائنسدانوں نے اس نئی تحقیق کے بعد لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ موٹاپے سے بچنا اور سلم سمارٹ رہنا

چاہتے ہیں تو سونے سے قبل اپنا فون، ٹی وی اور تمام بتیاں بند کر دیں اور ماسک پہن کر سویا کریں کیونکہ زیادہ روشنی سے سامنا آپ کو موٹاپے کا شکار کر سکتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بالخصوص نیند سے قبل اور نیند کے دوران جو لوگ روشنی کی زد میں رہتے ہیں ان کے موٹاپے کا شکار ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحقیقاتی سروے میں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ سونے سے قبل روشنی کی زد میں رہتے ہیں ان میں سے 40.7فیصد موٹاپے کا شکار تھے۔ اس کے برعکس جس گروپ کے لوگ سونے سے قبل روشنی کی زد میں نہیں رہتے تھے ان میں موٹاپے کی شرح صرف 26.7فیصد پائی گئی۔یہ تحقیق امریکی ریاست الینوائس کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہرین کی طرف سے کی گئی ہے۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھاکہ موٹاپے اور روشنی کے اس تعلق میں نیند سے پہلے کے پانچ گھنٹے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں ہمیں بالخصوص کسی بھی طرح کی سکرین کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور حتیٰ الامکان دیگر مصنوعی روشنی سے بھی بچنا چاہیے۔غیر منافع بخش عالمی ٹوائلٹ آرگنائزیشن کے مطابق، لوگ روزانہ اوسطاً چھ سے آٹھ بار ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تقریباً تین سال باتھ روم میں گزار تے ہیں۔ چین میں مقیم ایک دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر نے اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اکثر خواتین کو جاپان میں خواتین کے بیت الخلاء کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں۔میں نے سنا ہے کہ اگر عورتوں کے بیت الخلاء کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گنا ہو تو یہ برابر ہو گا۔ ایک چینی برانڈ سٹور کے انٹیریئر ڈیزائنر کا کہنا ہے کہ وہ جو سٹورز ڈیزائن کرتے ہیں ان میں مردوں کے بیت الخلاء کے مقابلے میں خواتین کے کیوبیکلز تقریباً دو زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا، میں ہمیشہ شاپنگ مالز میں گھومتے ہوئے خواتین کے بیت الخلا کے قریب لمبی لائنیں دیکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ، خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین اوسطاً 249 سیکنڈ کے لیے بیت الخلا استعمال کرتی ہیں، جو مردوں کے 170 سیکنڈز سے کہیں زیادہ ہے۔۔ سینٹرل چائنا نارمل یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ منصوبہ بندی کرتے وقت خواتین کی حیاتیاتی ضروریات کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ خواتین کیوبیکلز کو شامل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ کچھ بڑے پیمانے پر اجتماعی جگہوں جیسے کہ پارکس اور تھیٹر میں، بیت الخلا جانے والے مردوں اور عورتوں کا تناسب تقریباً 1 سے 4 ہے۔

Categories
آرٹیکلز

واٹس ایپ پر موصول ہونے والے عمران خان کے ایک پیڈسٹل فین کی انوکھی اور دلچسپ تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔سونے کے انڈے دینے والی مرغی روزانہ سونے کا ایک انڈا دیا کرتی تھی تو اس کے مالک نے سوچا کیوں نہ پوری مرغی ہی ایک ساتھ حلال کرڈالوں تو بہت سارے سونے کے انڈے ایک ساتھ ہی مل جائیں گے

مگر جب اس نے مرغی حلال کی تو وہ مرغی اسے اندر سے خالی ملی۔۔کچھ ایسا ہی عمران خان کے اقتدار کے ساتھ کیا گیا۔۔جب عمران خان کو اقتدار سونپا گیا تھا تو قومی خزانہ اس قدر خالی تھا کہ تین مہینے بھی مشکل سے چل پاتا۔۔سارے چور لٹیرے خوش تھے کہ ہم نے تو پورا خزانہ ہی چاٹ لیا ہے، اب عمران خان کیسے اقتدار چلائے گا، اگر اس نے کوشش بھی کی تو مشکل سے چند ماہ ہی نکال پائے گا۔۔مگر حیرت انگیز طور پر تین مہینے تو کیا عمران خان اسی خالی خزانے کے ساتھ تین سال نکال گیا۔۔ جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد پر لے گیا جو پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ جی ڈی پی چھ فی صد تک جائے۔بلکہ عمران خان نے ستر ارب قرضے میں سے پانچ ارب قرضہ بھی چکادیا تھا مزید وقت ملتا تو قرضہ پچاس فی صد تک ادا کرجانا تھا ۔۔معیشت کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے لومڑی اور گیدڑوں کو شک گزرا کہ کہیں خزانہ وہ آدھا بھرا تو نہیں چھوڑ گئے تھے جو عمران خان نے خالی خزانے کے ساتھ اتنی معیشت بہتر بھی کرلی۔۔ان کو شک گزرا کہ قومی خزانہ مکمل سونے کے انڈوں سے بھرا ہوا ہے توکیوں نہ اسے ذبح کریں اور ایک ساتھ سارے سونے کے انڈے ایک ساتھ حاصل کر لیں۔۔ اور پھر یہی کیا گیا سونے کے انڈے دینے والی مرغی ملی بھگت کرکے ذبح کردی گئی۔۔خزانہ دیکھا تو بائیس ارب ڈالر موجود تھے، جسے ایک ماہ میں ہی اڑا دیاگیا

اور ملک کو ڈیفالٹ کی جانب آہستہ آہستہ دھکیلا جانے لگا۔۔سوال یہ ہے کہ عمران خان نے خالی خزانے کے ساتھ تین سال اس ملک کو کیسے چلایا؟؟؟تو جناب عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے مدد مانگی تھی پاکستان کے لئے اس بندے نے ہاتھ پھیلایا تھا اور بیرون ملک پاکستانیوں نے لبیک کہتے ہوئے خان کو مایوس نہیں کیا اور وطن کی محبت میں پیسے بھیج کر ملک کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔۔پھر خان نے بڑے ممالک کے دورے کئے جس سے بڑے دوست ممالک نے بھی خان کی مدد کی کہ وہ پاکستان کو مستحکم کرپائے ۔اس بندے نے ایمانداری سے پاکستان کا قرضہ چکانے میں وہ پیسہ لگایا اور درپردہ بہت سارے پروجیکٹس شروع کئے جس میں ۔۔مصنوعی جنگلات کیلئے درخت لگائے گئے۔۔زیتون کی کاشت کاری کی گئی اور اسے انٹر نیشنل مارکیٹ میں سیل کیا گیا جو باہر بہت پسند کیا گیا۔۔خان نے کسانوں کو ڈائریکٹ مارکیٹ ریٹ والی رقم ان کی فصلوں پر دلوائی۔۔صحت کارڈ شروع کئے۔۔راشن دینے والاکام شروع کیا۔۔لنگر خانہ شروع کیا۔۔جدید شہر بنانے والے پروجیکٹس پر سائن کئے جس میں بیرون ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ۔۔سیاحت کے شعبے کو ابھارا ۔۔ لاک ڈائون کے دوران بھارت و بنگلہ دیش بیرون ممالک کپڑوں کے کئی پراڈکٹس سیل کرتے تھے جن میں تولیے چادریں ڈریس وغیرہ کے کئی آئٹمز تھے مگر لاک ڈائون کی وجہ سے ان کے کارخانے وقت پر مال تیار نا کرپائے تو خان نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ان ممالک سے بات کرکے کہ کم وقت میں یہی مال پاکستان اپنے

کارخانوں میں تیار کرکے دے گا۔۔چنانچہ انڈیا بنگلہ دیش کے بڑے آرڈرز چھین کر پاکستان میں رات دن فیکٹری کارخانوں میں ارجنٹ بنیادوں پر جلد سارا مال تیار کرا کر انٹرنیشنل مارکیٹ میں سیل کرادیا۔۔وہ مال باہر بہت پسند آیا اور پاکستان کی کپڑوں کی صنعت کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی جگہ مل گئی۔۔اسی کرونا لاک ڈائون میں خان نے قومی خزانہ میں بائیس ارب ڈالر اکٹھے کئے۔۔پانچ ارب ڈالر کا قرضہ اتارا۔۔معیشت کی حالت بہتر کردی۔۔ عالمی مہنگائی میں بھی عام پاکستانیوں پر اتنا بوجھ نہیں ڈالا کہ گھر چلانا ممکن نہ رہے۔۔اس کے علاوہ اس وقت سب نے نوٹ بھی کیا ہوگا کہ عالمی لحاظ سے پاکستان کی عزت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا تھا مودی کو خان نے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں کسی کی لاج نہ رکھی سارے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے مسلم ممالک اور دوست ممالک خان سے بہت خوش تھے۔۔بھارت اور اسرائیل کی نیندیں اڑادیں۔۔ خان کا رہنا ان کی موت تھی کیونکہ چین و روس اور اردوان بھی خان سے بہت خوش تھے اور ملکر وسط ایشیا تک سی پیک کو لے جانا چاہتے تھے مگر سب کچھ ہوتے دیکھ کر۔۔کچھ لٹیروں کو یہ ترقی ہضم نہ ہوپائی اور انہوں نے سونے کاانڈا دینے والی مرغی کو حلال کرڈالا۔۔واٹس ایپ پر ملنے والی یہ تحریر کپتان کے کسی پیڈیسٹل فین کی لگتی ہے۔۔ جس نے اندھادھند جو دل میں آیا لکھ ڈالا۔۔ خان صاحب کی حکومت ، طریقہ کار یا ان کی ٹیم سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ محب وطن ہے اور ساتھ ہی دیگر سیاست دانوں

کی طرح بددیانت اور لالچی نہیں۔۔ ن لیگی کیمپ کے ایک اینکر آبدیدہ ہوکر بتارہے تھے۔۔وزیراعظم نواز شریف جب بھی مری گئے تو واپسی پر نیوٹرل گیئر لگا کر گاڑی پر آتے تھے تاکہ قومی خزانے کا پیٹرول بچ سکے۔ ۔جب عدالت نے حمزہ شریف کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ کہا تو تجزیہ کاروں اور آئینی ماہرین کا کہنا تھا کہ آئین میں ٹرسٹی وزیراعلیٰ ہوتا نہیں وہ عبوری وزیراعلیٰ ہیں۔۔ایک یوتھیئے نے سوشل میڈیا پر لکھا۔۔ جب ککڑیاں تندوری ہوسکتی ہیں تو عبوری کیوں نہیں؟؟۔۔عوام پاکستانی سیاست دانوں سے کتنا متاثر ہوتے ہیں اس کی مثال اس واقعہ سے پتہ لگ جائے گی۔۔ایک پاکستانی اور امریکن دونوں دوست تھے ایک دن دونوں ایک چاکلیٹ سٹور میں چاکلیٹ خریدنے کی نیت سے گئے۔۔وہاں سب لوگوں کو مصروف دیکھ کرامریکن نے تین چاکلیٹ چرالیں۔ جب دونوں باہر آئے تو امریکن کہنے لگا ۔۔میں سب سے اچھا چور ہوں میں نے تین چاکلیٹ چرالی ہیں اور کسی نے دیکھا بھی نہیں، تم ایسا نہیں کرسکتے۔۔پاکستانی نے یہ سن کر امریکی دوست کو گھورا اور کہا میں تمہیں اس سے بھی اچھی چیز دکھاتا ہوں۔۔دونوں چاکلیٹ سٹور کے کاؤنٹر پر گئے اور وہاں سیلز گرل سے پاکستانی نے کہا۔۔تم جادو دیکھنا چاہتی ہو؟؟ سیلز گرل نے کہا ۔۔ہاں۔۔پاکستانی نے کہا۔۔مجھے ایک چاکلیٹ دو۔۔سیلزگرل نے اسے چاکلیٹ دی وہ اسے کھاگیا۔۔پھر اس نے دوسری چاکلیٹ مانگی وہ بھی کھاگیا۔۔پھر تیسری چاکلیٹ مانگنے کے بعد اس کا حشر بھی وہی کیا۔۔سیلزگرل حیران کھڑی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔۔ تیسری چاکلیٹ کھانے کے بعد اس نے پاکستانی سے کہا۔۔ اس میں جادو کہاں ہے؟؟ پاکستانی نے کہا۔۔ میرے دوست کی جیب دیکھو، اس کی جیب سے تین چاکلیٹ نکلیں گی۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Categories
آرٹیکلز

دونوں صرف سالا بہنوئی نہیں اور بھی بہت کچھ… چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کے آپس میں 3 رشتے اور کچھ دلچسپ معلومات

اسلام آباد(ویب ڈیسک) چوہدری شجاعت حسین سیاسی و سماجی رہنما غلام حسین کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پرپاکستان میں جاری سیاسی کشمکش میں (ق) لیگ نے پرویز الہی کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی مخالفت کرنے پر اپنے کی پارٹی سربراہ کو قیادت سے فارغ کرکے نئے الیکشن کا اعلان کردیا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کو ہمیشہ سے اہمیت حاصل رہی ہے اور ان دونوں شخصیات کے درمیان مثالی ہم آہنگی اور بھائی چارہ دیکھنے میں آیا، پرویز الٰہی ہمیشہ چوہدری شجاعت کو “پاجی” یعنی بڑے بھائی کا درجہ دیتے رہے ہیں حقیقت کیا ہے آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔چوہدری شجاعت اور پرویز الہی گجرات کے بااثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کے والد پنجاب کی سیاست میں کافی نام رکھتے تھے اور چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی 80 ء کی دہائی میں سیاست میں شامل ہوئے اور مسلم لیگ کا حصہ بنے تاہم پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد انہوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر اپنی الگ جماعت (ق) لیگ بنائی۔ چوہدری شجاعت وفاقی وزیر اور وزیراعظم بھی رہے جبکہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان کے اب تک کے اکلوتے نائب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔نواز اور شہباز شریف کی طرح شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کو بھی ہمیشہ ایک پیج پر دیکھا گیا، جیسے شہباز شریف کسی صورت نواز شریف کو چھوڑنے یا الگ حکمت عملی اپنانے سے ہمیشہ گریز کرتے اور بڑے بھائی کو عزت دیتے ہیں- ویسے ہی اکثر دیکھا گیا کہ پرویز الٰہی چوہدری شجاعت کیلئے پاجی یعنی بڑے بھائی کا لفظ استعمال کرتے رہے-تاہم حقیقت یہ ہے کہ پرویز الٰہی چوہدری شجاعت سے بڑے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین 27 جنوری 1946 میں پیدا ہوئے جبکہ پرویز الٰہی یکم نومبر 1945میں پیدا ہوئے اور یوں پرویز الٰہی چوہدری شجاعت سے 3 ماہ بڑے ہیں- لیکن ہمیشہ احترام کی وجہ سے لوگ انہیں چھوٹا اور چوہدری شجاعت کو بڑا بھائی سمجھتے ہیں۔چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کے درمیان ہمیشہ ہم آہنگی رہی ہے، جہاں چوہدری شجاعت نے وعدہ کیا پرویز الٰہی نے اس پر ہمیشہ عمل کیا اور دونوں کو دیکھ کر لوگوں کو سگے بھائی ہونے کا گمان ہوتا ہے- لیکن دونوں سگے بھائی نہیں بلکہ کزن ہیں۔ چوہدری شجاست حسین چوہدری ظہور الٰہی اور پرویز الٰہی چوہدری منظور الٰہی کے صاحبزادے ہیں۔چوہدری شجاعت حسین اورپرویز الہی صرف کزن ہی نہیں بلکہ آپس میں سالہ بہنوئی اور سمدھی بھی ہیں۔ پرویز الہی چوہدری شجاعت کے بہنوئی ہیں جبکہ چوہدری شجاعت مونس الٰہی کے سسر بھی ہیں ۔ یوں دونوں کزن آپ میں صرف ایک نہیں بلکہ 3 رشتے رکھتے ہیں لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے دونوں کے درمیان خلیج پیدا ہوچکی ہے۔

Categories
آرٹیکلز

بی بی سی کی خصوصی رپورٹ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی شہزاد ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گذشتہ آٹھ سال سے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کی درخواست کی پیروی کرنے والے اکبر ایس بابر کے بارے میں عوامی حلقوں میں دستیاب معلومات زیادہ تر صرف اس حد تک محدود ہیں

کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اراکین میں شامل تھے جو اپنی پارٹی اور اُس کی پالیسوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔اس رپورٹ میں ہم اکبر ایس بابر کے سیاسی کیریئر اور تحریک انصاف میں بطور بانی رکن اُن کے کردار کے حوالے سے بات کریں گے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اکبر ایس بابر پیشے کے اعتبار سے سول انجینیئر ہیں جبکہ اُن کے والد عبدالمجید بابر فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔اکبر ایس بابر کے بقول اُن کے والد نے سنہ 1965 کی لڑائی میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر ’انڈیا کے خلاف اہم کامیابیاں سمیٹیں‘ اور بعد از ریٹائرمنٹ وہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ سنہ 1996 میں جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا تو اس وقت سابق وزیر اعظم کے فرسٹ کزن عبدالسلام غازی اُن کے پاس آئے اور اس جماعت کے منشور کے حوالے سے انھیں آگاہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ عبدالسلام غازی سے ملاقات کے چند دن بعد عمران خان بھی اُن کے گھر آئے تھے۔عمران خان سے ہونے والی اس ملاقات کے بعد اکبر ایس بابر کو بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کا فاؤنڈنگ (بانی) صدر بنا دیا گیا اور سنہ 1996 میں جب پاکستان تحریک انصاف نے کوئٹہ میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اکبر ایس بابر کے بقول اُن کی جماعت کے پاس اتنے پارٹی فنڈز دستیاب نہیں تھے کہ وہ تشہیری مہم کی غرض سے پینا فلیکس بینرز بنا سکتے۔

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث عمران خان کے اُس جلسے سے متعلق تشہری مواد صرف چند فوٹو کاپیوں کی صورت میں تھا جسے کوئٹہ شہر میں چلنے والے رکشوں کے پیچھے چسپاں کر دیا گیا۔اسی جلسے سے متعلق ایک دلچسپ قصہ سُناتے ہوئے اکبر ایس بابر نے بتایا کہ ’اُس وقت کی تحریک انصاف کی صوبائی قیادت عمران خان کا استقبال کرنے کے لیے ایئرپورٹ پہنچی تو تمام مسافر ایئرپورٹ کے اندرونی حصے سے نکل چکے تھے مگر عمران خان کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا تھا‘’اس دوران ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنا تعارف عمران خان کے سیکریٹری کے طور پر کروایا۔‘اکبر ایس بابر کے مطابق عمران خان ہوائی جہاز کے بجائے بذریعہ ٹرین کوئٹہ پہنچ چکے تھے اور وہ ریل سٹیشن سے رکشہ لے کر ایئرپورٹ پہنچے تھے۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کو وہاں سے لے کر جلسہ گاہ پہنچے۔انھوں نے بتایا کہ سنہ 1997 میں ہونے والے عام انتحابات میں انھوں نے بلوچستان کے ضلع چاغی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا جس میں انھیں 1500 کے لگ بھگ ووٹ پڑے جبکہ عمران خان نے ان انتخابات میں اسلام آباد سمیت قومی اسمبلی کے 18 حلقوں سے الیکشن لڑا تھا لیکن کسی ایک حلقے سے بھی انھیں کامیابی نہیں ملی۔اکبر ایس بابر پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات بھی رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2002 کے عام انتخابات ہو چکے تھے اور اُن میں پاکستان تحریک انصاف نے صرف ایک نشست جیتی تھی اور وہ

عمران خان کی تھی جو پنجاب کے شہر میانوالی سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست بھی جیتی تھی۔‘انھوں نے بتایا کہ ’جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس کے بعد عبدالستار جو اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات تھے، مشرف کے دور میں وزیر خارجہ بن گئے جس کے بعد تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی اور یہ ذمہ داری میرے پاس سنہ 2011 تک رہی۔‘اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ جب عمران خان نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی تو اُن سمیت حامد خان اور مرحوم معراج محمد خان نے عمران خان کے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔اکبر ایس بابر نے دعویٰ کیا کہ وہ اُس اجلاس میں شریک تھے جس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے عمران خان کو وفاقی وزیر بنانے کی آفر کی تھی۔واضح رہے کہ عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ سابق فوجی صدر نے انھیں وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی تھی جس کی پرویز مشرف نے بعدازاں تردید کی تھی۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ شروع میں پاکستان تحریک انصاف کا مرکزی دفتر اسلام آباد کے سیکٹر G-6 میں ایک گھر میں ہوتا تھا اور اسی گھر کی بالائی منزل پر عمران خان کا دفتر تھا۔’میں دفتر آتے ہوئے عمران خان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لاتا تھا اور شام کو واپسی پر ان کے گھر پر ڈراپ کرتا تھا۔‘اکبر ایس بابر کا

دعویٰ ہے کہ ’ملڑی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کے بعد عمران خان نے مجھے بتایا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوٹی جماعتوں کو جمع کر کے نیشنل الائنس بنایا جائے گا اور پی ٹی آئی کو دو درجن سیٹیں دلوانے کی یقین دہانی کروائی گئی۔‘بعدازاں سنہ 2002 کے الیکشن کے بعد جب ’کنگ پارٹی‘ (مسلم لیگ ق) بن گئی تو پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے متعدد سیاستدان اس نئی بننے والی پارٹی میں شامل ہو گئے۔انھوں نے کہا کہ اس پیشرفت کے بعد ایک روز جب وہ عمران خان کو اپنی گاڑی میں اُن کے گھر ڈراپ کرنے جا رہے تھے تو انھوں نے اکبر ایس بابر کو مخاطب کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہا کہ جو اس وقت ان کی جماعت کی پوزیشن ہے اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’تحریک انصاف اس گاڑی میں ہی پوری آ جائے گی۔‘اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ ابتدا میں جب عمران خان کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں جاتے تھے تو جانے سے پہلے وہ، حامد خان اور مذہی سکالر جاوید غامدی ان کے ٹاکنگ پوائنٹس بناتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ اُن کی عمران خان سے آخری ملاقات سنہ 2011 میں لاہور یادگار پاکستان کے پارک میں ہونے والے جلسے میں ہوئی تھی اس کے بعد اُن کی پارٹی کے سربراہ سے ملاقات نہیں ہوئی۔اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ وہ تین سال تک اس جماعت کی اصلاح کیے جانے کا انتظار کرتے رہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس دوران عمران خان کے برادر نسبتی بھی ان کے پاس آئے تھے اور انھوں نے بھی اس ضمن میں احتساب کمیٹی بنانے کا کہا لیکن عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔اکبر ایس بابر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے سنہ 1992 میں انھوں نے یو ایس اے آئی ڈی میں بطور پراجیکٹ ڈائریکٹر اپنے پروفیشنل کریئر کا اغاز کیا تھا اور اس عرصے کے دوران پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان میں یو ایس اے آئی ڈی کے تحت چلنے والے منصوبے جب بند ہوئے جس کی وجہ سے 900 ملازمین کو نوکری سے نکال دیا گیا تو اُن ملازمین نے اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے انھیں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔اکبر ایس بابر کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ان ملازمین کے حقوق کی لڑائی لڑی جس کے بعد اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر اوکلے نے ان سے ملاقات کی اور اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ نوکری سے نکالے گئے پاکستانیوں کو اچھا پیکیج دیا جائے گا۔انھوں نے بتایا کہ نوکری سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ کے بلوچستان میں شروع کیے گئے منصوبوں میں کام کیا اور پھر اس کے بعد انھوں نے سوشل سیکٹر میں کنسلٹینسی شروع کر دی۔

Categories
آرٹیکلز

دلچسپ مگر معلوماتی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار وسعت اللہ خان بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہی ہوا جو ضرور ہوتا ہے۔مسلم لیگ ق کے پرویز الہی گروپ نے مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت گروپ کو جماعت سے باہر کر دیا۔اب اس فیصلے کی جو بھی قانونی و اخلاقی حیثیت ہو

وہ تو خیر پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے مگر ہمیں تو اب اس خبر کا انتظار ہے کہ کب گجرات کے ظہور پیلس سے یہ اعلان جاری ہوتا ہے کہ پرویزیوں کا ق سے کوئی لینا دینا نہیں۔چوہدری شجاعت ہی پارٹی کے سربراہ رہیں گے۔یوں جب الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کا مرحلہ آئے گا تو ممکن ہے ایک دھڑا مسلم لیگ ق پ اور دوسرا مسلم لیگ ق ش کے نام سے رجسٹر ہو۔جو بھی فیصلہ ہو نمبردار چوہدری ہی رہیں گے بھلے سارا پنڈ مر جائے۔مسلم لیگ میں پچھلے ایک سو سولہ برس میں اس قدر ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے کہ اب خود اس جماعت کا ڈی این اے اس سے ماورا ہوگیا ہے۔ مسلم لیگیوں کی موجودہ پیڑھی سر خواجہ سلیم اللہ ، نواب وقار الملک ، نواب محسن الملک ، سید امیر علی ، محمد علی جوہر اور سر محمد شفیع سمیت پہلے مسلم لیگی کنونشن منعقدہ احسن منزل پیلس بمقام شاہ باغ ڈھاکا بروز تیس دسمبر انیس سو چھ کے لگ بھگ تین ہزار مندوبین سے اس قدر ہی واقف ہے جتنی میری سواحلی زبان کے ادب پر دسترس ہے۔خود متحدہ مسلم لیگ ق بھی تو نون سے الگ ہونے والا دھڑا تھی۔جسے پی ٹی آئی پنجاب کے موجودہ صدر حماد اظہر کے والد اور سابق مئیر لاہور اور شریف خاندان کے سابق اعتمادی میاں محمد اظہر نے تشکیل دیا۔ پھر اس دھڑے کی فارمنگ ایک کنٹرولڈ ماحول میں شروع ہوئی اور میاں اظہر کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کے پوری ٹکیہ چوہدریز آف گجرات کے حوالے کر دی گئی۔

اس دھڑے کے ایک سرکردہ رکن شیخ رشید احمد نے بھی آگے پیچھے وزارتوں کے مزے لوٹے۔ جب بعد از مشرف تانگے کی سواریاں پوری ہو گئیں تو مسلم لیگ عوامی وجود میں آئی۔شیخ صاحب نے پہلے نواز شریف ، پھر پرویز مشرف اور پھر عمران خان سے اپنی سیٹ بھر بوٹی کے بدلے ہمیشہ پورا پورا بکرا وصول کیا۔ آپ کا شمار ان سرکردہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھیں فخر ہے کہ انھیں گیٹ نمبر چار کے اندر آنے جانے کا غیر معینہ ویزہ ملا ہوا ہے۔جس توڑم تاڑی کے نتیجے میں مسلم لیگ ق پیدا کی گئی اسی عرصے میں بابائے مسلم لیگ ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے اپنی علیحدہ اینٹ پر مسلم لیگ ضیا کا نام لکھا اور اب تک سنبھالے سنبھالے پھر رہے ہیں۔خود جس مسلم لیگ ن سے ق، ض اور ع پیدا ہوئیں وہ بھی کوئی نیچرل جماعت نہیں تھی بلکہ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی ایوان میں جنم لینے والی مسلم لیگ کا ہی ایک حصہ تھی۔اس کا سربراہ محمد خان جونیجو کو قرار دیا گیا اور شریف خاندان کو پنجاب کی قلمرو تھمائی گئی اور گجرات کے چوہدریوں کو بھی غیر اعلانیہ حصہ داری الاٹ ہوئی۔جیسے ہی مئی انیس سو اٹھاسی میں جونیجو حکومت برطرف ہوئی اور پھر جونیجو کو برطرف کرنے والے کو اوپر والے نے زندگی سے برطرف کر دیا تو مسلم لیگ کے اندر چھپی ہوئی خواہشیں خنجروں کی طرح باہر نکل آئیں۔حامیانِ جونیجو پیچھے دھکیلے جاتے رہے اور کاروانِ شریف آگے بڑھایا گیا۔پہلے فدا محمد خان کے نام

پر ایک دھڑا متعارف ہوا۔ان کے نائب نواز شریف مقرر ہوئے۔پھر اس دھڑے کو آئی جے آئی کا حصہ بنایا گیا۔پھر انیس سو ترانوے میں مسلم لیگ کو ایک ہنگامی جنرل کونسل کے نام پر شریف خاندان کے مکمل طور پر حوالے کر دیا گیا۔فدا محمد خان کا کیا بنا ؟ خدا جانتا ہے۔جب کہ شریف آدمی محمد خان جونیجو کی جماعت مسلم لیگ جونیجو کہلانے لگی۔جسے سابق اسپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ نے سنبھالا دیا۔اسی دھڑے نے پیپلز پارٹی سے سودے بازی کر کے پنجاب میں منظور وٹو کو وزیرِ اعلیٰ بنوایا اور پھر اسی منظور وٹو نے جناح مسلم لیگ کے نام سے آگے چل کے ایک دھڑا بنا لیا۔اور پھر یہ دھڑا بھی پیپلز پارٹی میں غائب ہو گیا۔مگر خود انیس سو پچاسی کی اسمبلی کے کنٹرولڈ ماحول میں پیدا ہونے والی مسلم لیگ بھی اسمبلڈ تھی۔اس کے لیے محمد خان جونیجو سمیت بنیادی کل پرزے مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا نے سیاسی حلالے کے متلاشی جنرل ضیا الحق کو پٹے پر دان کیے تھے۔پیر صاحب روحانی طور پر خود مختار مگر سیاسی طور پر خود کو ’’ جی ایچ کیو کا آدمی ‘‘ کہتے تھے۔لہٰذا بھٹو حکومت کے خلاف انیس سو ستتر کی تحریک میں شامل پی این اے کے نو ستاروں میں سے جس ستارے کی اقتداری قسمت سب سے زیادہ چمکی وہ تھا مسلم لیگ فنکشنل کا ستارہ۔لیکن مسلم لیگ فنکشنل کے جنرل سیکریٹری ملک قاسم کو پیر صاحب کی جی ایچ کیو پرستی پسند نہ آئی تو انھوں نے مسلم لیگ قاسم بنا لی اور

ضیا مخالف ایم آر ڈی تحریک میں بھی حصہ لیا۔فنکشنل بھی کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ کو اسمبل کر کے تشکیل دی گئی تھی۔کنونشن مسلم لیگ کو آپ اپنی آسانی کے لیے ساٹھ کی دہائی کی مسلم لیگ ق سمجھ لیں۔جسے اسمبل کر کے اس کا سیکریٹری جنرل جواں سال ذوالفقار علی بھٹو کو بنایا گیا۔اور جس طرح دو ہزار دو میں ق سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن کے ابھری اسی طرح کنونشن لیگ نے بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے ایوب خانی انتخابات میں پالا مار کے فیلڈ مارشل کو سویلینیا دیا۔جو لیگی سرکاری لیگ کا حصہ نہیں بنے انھوں نے خان عبدالقیوم خان اور میاں ممتاز دولتانہ کی پیشوائی میں کونسل مسلم لیگ بنا لی اور محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب مخالف صدارتی مہم کا حصہ بن گئے۔ایوب خان کے معزول ہوتے ہی کنونشن لیگیوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔چنانچہ یحیی خانی مارشل لا میں کونسل مسلم لیگ اور بچھی کچھی کنونشن لیگ کو متحد کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ مغربی پاکستان میں سابق کنونشن لیگی ذوالفقار علی بھٹو کی نوزائیدہ پیپلز پارٹی کی راہ کھوٹی کی جا سکے۔مگر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ دو اور دھڑے بن گئے۔ایک کے سربراہ خان عبدالقیوم خان اور دوسرے کے ممتاز دولتانہ۔بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد خان قیوم کو وفاقی وزارتِ داخلہ اور دولتانہ کو لندن میں پاکستان کی ہائی کمشنری دے کر نیوٹرلائز کر دیا۔جو لیگی اس توڑ بٹے سے خوش نہ ہوئے انھوں نے پیر صاحب پگارا کی چھتر چھایا میں پناہ لی۔پچاس کی دہائی میں حسین سہرودردی نے مسلم لیگ

سے الگ ہو کر پہلے آل پاکستان عوامی مسلم لیگ اور پھر جناح عوامی مسلم لیگ بنائی۔جو بعد میں صرف عوامی لیگ رہ گئی اور پھر اسی عوامی لیگ نے بنگلہ دیش بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔مسلم لیگ کے ساتھ یہ چمتکار بھی ہوا کہ ون یونٹ کی تشکیل کے بعد پارلیمانی پارٹی اگلی صبح ریپبلیکن پارٹی کے نام سے طلوع ہوئی۔کہتے ہیں کہ لیگ کو ریپبلیکن بنانے کا منتر اسکندر مرزا نے اس وقت کی عسکری بیوروکریٹک اسٹیبشلمنٹ کی مدد سے پڑھا۔ جب ضرورت ختم ہو گئی تو ریپبلیکن پارٹی بھی غروب ہو گئی۔تاریخ میں ہمیں ایوب کھوڑو کی سندھ مسلم لیگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔میاں افتخار ممدوٹ کی جناح مسلم لیگ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔انیس سو چھ کی آل انڈیا مسلم لیگ میں پہلی دھڑے بندی انیس سو ستائیس میں ہوئی جب لیگ کا ایک حصہ سائمن کمیشن کی تجاویز کی حمائیت میں مسلم لیگ پنجاب کے صدر سر میاں محمد شفیع کی قیادت میں الگ ہو گیا۔اور اخبارات نے اسے شفیع لیگ کا نام دیا۔جب کہ جناح صاحب سائمن کمیشن کی تجاویز من و عن تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور انھوں نے جواب میں چودہ نکات پیش کیے۔مگر وہ شرافت کے دور کی دھڑے بندی تھی لہٰذا انیس سو تیس میں پارٹی پھر متحد ہو گئی۔وہ مسلم لیگ ہندوستان گیر جماعت تھی جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد غروب ہو گئی۔اور پھر پاکستان سیاسی ریلوے اسٹیشن بن گیا۔جہاں یہی پتہ نہیں چلتا کہ یہ جو بیس ڈبے اسٹال پر نظر آ رہے ہیں ان میں سے حافظ کا اوریجنل ملتانی سوہن حلوہ کون سا ہے ؟

Categories
آرٹیکلز

پنجاب کے مشہور صوفی اور ولی اللہ خواجہ نور محمد مہاروی ؒ کی چند کرامات

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ظہور دھریجہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ انسان دوستی کے حوالے سے بزرگان دین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، برصغیر پاک و ہند میں صوفیاء کرام نے انسانوں کو راہ راست لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان بزرگان دین میں ایک نام

حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کا ہے، آپ کو قبلہ عالم کا لقب حاصل ہوا، آپ کا وصال 1205ہجری میں ہوا، ہر سال یکم ذوالحجہ سے پانچ ذوالحجہ تک آپ کا عرس مہار شریف چشتیاں میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے، لاکھوں عقیدت مند عرس کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے ایک کافی منقبت کی صورت میں لکھی جس میں انہوں نے حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کو سندھ پنجاب کا راجہ لکھا ہے، کافی کے اشعار آخر میں پیش کروں گا۔ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کی پیدائش 14 رمضان 1146 ہجری کو بستی چوٹالہ مہار شریف چشتیاں میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام ہندال خان کھرل اور والدہ کا نام عاقل خاتون تھا، ابتدائی تعلیم اپنے گائوں مہار شریف سے حاصل کی اور روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے آپ نے ڈیرہ غازی خان ، لاہور، دہلی و دیگر علاقوں کا سفر اختیار کیا اور حضرت خواجہ فخر الدین دہلویؒ کے مرید ہوئے۔ خواجہ فخر الدین دہلویؒ کا سلسلہ عقیدت حضرت نظام الدین اولیاء اور بابا فریدؒ شکر گنج سے ملتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ پاکپتن شریف سے بہت محبت رکھتے تھے، آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ نواب بہاول خان کو آپ سے والہانہ عقیدت اور محبت تھی، حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ ، حضرت خواجہ غلام فریدؒ، خواجہ غلام رسول توگیری ، خواجہ نور محمد نکی مانیکا ، حضرت خواجہ عبدالکریم نوری اور خواجہ خدا بخش خیر پور ٹامیوالی اور اس طرح ہزاروں بزرگان دین

آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کی بہت سی کرامات اور روایات ہیں، ایک روایت کے مطابق ایک شخص آپ سے بیعت ہونے کے لئے حاضر ہوا کہ آپ نے فرمایا کہ تم بڑی دیر سے آئے ہو کہ دودھ کی بالائی تو ’’پیر پٹھان‘‘ کھا گیا، یعنی میری فقیری ، کشف اور روحانیت کا زیادہ حصہ شاہ سلیمان تونسویؒ لے گئے ہیں، باقی لسی رہ گئی ہے۔ قبلہ عالم حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کے ہاتھوں بہت سارے غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، آپ سلسلہ چشتیہ کے اہم ترین بزرگان میں شامل ہیں، حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ سلسلہ چشتیہ کے صوفیاء بالخصوص اجودھن (پاکپتن) سے آنے والے بابا فریدؒ کے ساتھ گہری نسبت رکھتے تھے، انہی صوفیاء کے سبب اس علاقے میں اسلام کی روشنی پھیلی، پاکپتن کے بعد سلسلہ چشتیہ کا اہم مرکز چشتیاں شریف بنا اسلام کی روشنی پھیلی تو جیسلمیر، بیکانیر کے اطراف میں مقیم راجپوت اور جاٹ قبائل مزاحمت پر آ گئے، جواب میں بابا تاج سرور بھی عسکری قوت بن کر میدان میں آئے۔مورخین کی رائے میں جہاں بابا تاج فرید سکونت پذیر تھے وہاں برلب دریا اونچے ٹیلوں پر ایک قدیم قلعہ تھا، یہ قلعہ بابل و نینوا کی تہذیب سے بھی بہت قدیم تھا، اس کے درمیان میں بابا فریدؒ کی معروف چلہ گاہ بھی ہے، اس قلعہ کو عرف عام میں حضرت بابا صاحب کی بیٹھک بھی کہا جاتا ہے، اس علاقے کے باشندے خانہ بدوشوں کی طرح نقل مکانی کرتے رہتے ، خشک موسم میں دریا کے کنارے پر ،برسات کے موسم میں صحرائے راجپوتاان کے مویشیوں کی چراگاہ ہوتا۔

دامن دریا اجناس خوردنی اور نیل کی پیدوار میں مشہور تھا، چشتیاں کا قدیم نام بستی تاج سرور تھا، اس نو آبادی قریہ کا نام ساتویں صدی ہجری میں ایران کے ایک مشہور شہر کے نام سے چشت شریف رکھا گیا، چشتیاں تحصیل خیر پور ٹامیوالی ضلع بہاولپور کا حصہ رہا ہے، 10ویں صدی ہجری میں بابا جی گرونانک صاحب اس علاقے میں تشریف لائے، انہوں نے اس بستی میں پچاس پیروں کے جنڈ والی جگہ پر قیام کیا ۔ سید شرف جہانگیر سمنائی متوفی 808ھ کے ملفوظات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چشتیاں تشریف لائے اور اس علاقے کا محل وقوع بیان کیا، بمطابق ریکارڈ محکمہ مال قصبہ چشتیاں 1935ء تک تحصیل خیر پور کی عملداری میں رہا، 1936ء میں اس کو تحصیل کی حیثیت حاصل ہوئی۔ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب دریائے ستلج بہتا تھا تو یہ پورا خطہ بہت زرخیز تھا، سمہ سٹہ سے ریلوے لائن بہاولنگر اور امروکا بٹھنڈہ کے راستے دہلی تک جاتی تھی اور اس ریلوے لائن کو تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت حاصل تھی کہ کراچی بندر گاہ سے دہلی تک اسی ریلوے روٹ سے سامان پہنچتا تھا مگر یہ ریلوے لائن بند کر دی گئی ہے حالانکہ ریل کی پٹڑی موجود ہے اور ملازمین کو سالہا سال سے تنخواہیں بھی دی جا رہی ہیں،اس ریلوے لائن کو فنکشنل کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح واہگہ بارڈر کھولا گیا ہے اسی طرح ملتان ، دہلی روڈ جو کہ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ اور حضرت نظام الدین اولیاء کا راستہ کہلاتا ہے اور دوسری طرف امروکہ بٹھنڈہ جو کہ خواجہ نور محمد مہارویؒ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے زائرین کا روٹ ہے کو بحال کرنا چاہئے کہ اس سے دونوں ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ پاکستان کا بہت فائدہ ہے۔ کرتار پور راہداری کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں سکھوں کو ہے، ہمارے حکمران لاہور تا امرتسر موٹرے کی بات کرتے ہیں اور بابا گرونانک یونیورسٹی بھی بنا دی ہے جبکہ بابا گرونانک کے مرشد بابا فریدؒ یونیورسٹی اور ملتان تا پاکپتن موٹر وے کی ضرورت ہے، چشتیاں میں بھی خواجہ نور محمد مہارویؒ یونیورسٹی ہونی چاہئے۔ کیا ہمارے حکمران اس پر توجہ کریں گے ؟۔ آخر میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے دیوان میں شامل کافی جو کہ منقبت کی صورت میں ہے قارئین کی خدمت میں حاضر ہے: ساڈٖا دوست دلیں دا نور محمد خواجہ ڈھولا یار چہیندا نور محمد خواجہ ساڈٖی ساری شرم بھرم دا تیڈٖے گٖل وچ لاجا عرب وی تیڈٖی ‘ عجم وی تیڈٖی سندھ‘ پنجاب دا راجا زمین زَمن وچ وجٖدا گجدا فیض تیڈٖے دا واجا قدم تیڈٖے وچ نوں من بھاگے انگن میڈٖے پَون پَاجا دلبر جانی یوسفؑ ثانی ہوہن مُکھ ڈٖکھلا جا

Categories
آرٹیکلز

انصار عباسی کا خصوصی تبصرہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک)نامور کالم نگار انصار عباسی اپنے ایک تبصرے میں رقمطراز ہیں ۔۔ مسلم لیگ نون کو دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے اسلئے وہ اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کر رہی ہے اور اس میں یہ امکانات بھی شامل ہیں کہ شاید اسے اپنے پرانے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اختیار کرنا پڑے۔

متعلقہ حلقوں سے کچھ ’’پریشان کُن‘‘ اشارے ملنے کے بعد نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور کچھ اداروں کے حوالے سے پارٹی کے سخت موقف کی پالیسی اختیار کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف عوام اور میڈیا کے ساتھ اپنی رابطہ کاری دوبارہ شروع کریں۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومت نہیں چاہئے تھی اور ہم رواں سال مئی میں نئے انتخابات کے خواہشمند تھے لیکن ہمیں کہا گیا کہ آپ ملک کے بھلے کیلئے کام جاری رکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعد میں نون لیگ کی زیر قیادت اتحاد نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے غیر مقبول اور سخت فیصلے کیے۔ لیکن اب معاملات کو نئے انتخابات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو حکمران جماعتوں بالخصوص نون لیگ کیلئے فائدہ مند نہیں۔ نون لیگ کے ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی قیادت جلد انتخابات کے امکانات کی اطلاعات سے خوش نہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ ہم یہ بات نواز شریف کی واپسی، موزوں حالات کی غیر موجودگی اور تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں اصول طے کیے جانے تک قبول نہیں کریں گے۔ نون لیگ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پارٹی قیادت بشمول میاں نواز شریف کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے۔ آئندہ انتخابات تک نون لیگ چاہتی ہے کہ عدالتیں میاں نواز شریف کی اپیلوں پر فیصلہ کر لیں تاکہ پارٹی کو انتخابات میں جانے کیلئے منصفانہ موقع مل سکے۔ نون لیگ کے سابق رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری

نے ہفتہ کو خبردار کیا کہ نون لیگ کو جلد انتخابات کی طرف نہ دھکیلا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مساوی مواقع دیے جانا چاہئیں۔ پارٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ نون لیگ کے بارے میں غلط اندازے نہ لگائے جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس نئی حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے؛ اگر اسے حتمی شکل دے کر عمل شروع کردیا گیا تو اس کے بعد نون لیگ کسی طرح کا تعاون نہیں کرے گی۔ پیر کے دن، حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا اور خصوصاً چیف جسٹس کی زیر قیادت تین رکنی بینچ پر تنقید کی۔ تنقید کی قیادت نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کی اور وہ تین رکنی بینچ سے شدید ناراض نظر آئیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے ’’فکسڈ میچز‘‘ کی طرز پر اس تین رکنی بینچ کیلئے ’’فکسڈ بینچ‘‘ جیسے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ یہ بینچ حکمران اتحاد کو نشانہ بنا رہا ہے اور پی ٹی آئی کی حمایت کررہا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یاد دہانی کرائی کہ کس طرح نواز شریف کو عدلیہ نے نشانہ بنایا اور حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ یہ عدلیہ کے دہرے معیارات ہیں۔ مریم نواز نے ہلکا سا اشارہ دیا کہ ’’امپائرز‘‘ کی طرف سے عمران خان کو کچھ حمایت مل رہی ہے لیکن انہوں نے فوراً ہی کہا کہ فی الحال وہ اس معاملے پر خصوصاً بات نہیں کرنا چاہتیں۔ مریم نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت، جس کی قیادت ان کے چچا کر رہے ہیں، غیر فعال ہے اور اگر وہ حکومت میں ہوتیں تو فوراً حکومت چھوڑ دیتیں۔

Categories
آرٹیکلز

جاوید چوہدری کے انکشافات

لاہور (ویب ڈیسک) سینئر صحافی جاوید چوہدری نے اپنے ایک کالم میں لندن میں نواز شریف اور حسین نواز سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے ، جاوید چوہدری کے مطابق جب انہوں نے حسین نواز سے کاروباری حالات کے بارے میں پوچھا تو حسین نواز کا جواب تھا ’’اﷲ کا کرم ہے لیکن ہمارے

خلاف کمپیئن نے ہمارے بزنس کو بہت نقصان پہنچایا‘ سعودی عرب میں میری کمپنی کا آڈٹ بھی ہوا‘ سعودی اتھارٹیز کئی دن ہمارے دفتر اور فیکٹری میں رہیں لیکن الحمد للہ انھیں ایک ریال کی بھی گڑ بڑ نہیں ملی‘ میرا خیال ہے یہ کنٹرول عمران خان کی درخواست پر کیا گیا تھا جب کہ حسن نواز کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا‘ یوکے اور یورپ میں پراپرٹی کے بزنس بینکوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور بینک معمولی سے منفی پروپیگنڈے سے بھی بھاگ جاتے ہیں جب کہ ہم مسلسل آٹھ برسوں سے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہیں لہٰذا آپ خود اندازہ کر لیجیے ہمارے بزنس کی صورت حال کیا ہو گی؟ بہرحال اس کے باوجود اﷲ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ کرم ہے‘‘۔مجھے دو مرتبہ میاں نواز شریف کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا‘ مجھے محسوس ہوا پارٹی ضمنی الیکشنز کے بارے میں پرامید تھی‘ یہ مریم نواز کی کوششوں اور بھرپور جلسوں پر بھی خوش تھی لیکن 17 جولائی کے نتائج نے پارٹی کو حیران کر دیا‘ نتائج پارٹی کے لیے غیرمتوقع تھے‘ میری ضمنی الیکشن سے پہلے میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے پوچھا ’’آپ کا اب تک کیا تخمینہ ہے؟میں نے بتایا ’’میرا خیال ہے اسٹیبلشمنٹ سیاسی امور میں سو فیصد نیوٹرل ہو چکی ہے‘ یہ اب کسی کا بھی ساتھ نہیں دے گی‘ سیاسی فیصلے میدان اورگھوڑے کریں گے‘ آپ اگر اچھا الیکشن لڑیں گے تو آپ جیت جائیں گے اور اگر غلطیاں کریں گے تو آپ ہار جائیں گے‘ میری ذاتی معلومات کے مطابق فوج نے یہ فیصلہ متفقہ طور پر کیا ہے اور اگلے بیس سال تک کی قیادت اس فیصلے سے آگاہ ہے‘

یہ لوگ خود کو اب صرف جغرافیائی سرحدوں اور بدامنی کے خلاف کارروائی تک محدود کر رہے ہیں‘‘ میاں صاحب اطمینان سے میری بات سنتے رہے‘ وہاں موجود ایک صاحب بولے ’’کیا اب 20سال بعد سیاسی مداخلت ہو گی؟میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں صرف اپنی معلومات شیئر کر رہا ہوں‘‘ میں نے عرض کیا ’’میری اوپر نیچے عمران خان‘ اسٹیبلشمنٹ اور آپ تینوں اہم ترین کھلاڑیوں سے ملاقات ہوئی‘ میرا خیال ہے تینوں لیول پر احساس موجود ہے‘ عمران خان نے بھی کہا تھا یہ فیصلہ ضروری ہے ملک کس نے چلانا ہے‘ وزیراعظم اگر بے اختیار ہو گا تو پھر ملک نہیں چل سکے گا‘ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے لیول پر بھی یہی سوچا اور کہا جا رہا ہے‘ یہ بھی مانتے ہیں سیاست ہمارے بس کی بات نہیں‘ ہم اگر فوج کی عزت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیاست سے پرہیز کرنا ہوگا‘ سیاست دان جانیں اور سیاست جانے‘ ہمیں ہر حکومت کو چپ چاپ مان لینا چاہیے اور ان کی جائز اور قانونی مدد کرنی چاہیے‘ ہمیں اب حکومتیں بنانے اور توڑنے کا کام نہیں کرنا چاہیے لہٰذا میرا خیال ہے ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کا اب بہترین وقت آ چکا ہے‘ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر اب فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ ہم فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے‘‘۔میاں صاحب نے خاموشی سے میری بات سن لی‘ ہمیں جس طرح عمران خان کی دو خوبیوں کا اعتراف کرنا چاہیے بالکل ہمیں اسی طرح میاں نواز شریف کی خوبیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے‘ عمران خان گیواپ نہیں کرتے‘ یہ ہارنے کے بعد بھی ہار نہیں مانتے اور ان کی دوسری خوبی ان میں بے انتہا انرجی ہے‘ یہ توانائی سے بھرے ہوئے ضدی انسان ہیں بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے میاں نواز شریف کو توکل اور صبر کی نعمت سے نواز رکھا ہے‘ ان کا صبر لاجواب ہے‘ یہ بڑے سے بڑا دکھ بھی برداشت کر جاتے ہیں اور حالات جیسے بھی ہوں یہ توکل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے‘ شاید اسی لیے اﷲ ان پر کرم کرتا ہے اور یہ بار بار پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں‘ یہ اب چوتھی مرتبہ واپس آ رہے ہیں‘ گویہ واپسی سے انکار کر رہے تھے‘ یہ ’’آپ واپس کب آ رہے ہیں؟‘‘ کے سوال پر بار بار پوچھ رہے تھے ’’ کیا میرے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا؟‘‘ لیکن اس کے باوجود مجھے محسوس ہو رہا تھا یہ اب زیادہ دنوں تک ملک سے باہر نہیں رہ سکیں گے‘ یہ جانتے ہیں یہ جتنا عرصہ ملک سے دور رہیں گے ان کی پارٹی اتنی ہی کم زور ہوتی چلی جائے گی اور اگر اگلے الیکشن ان کے بغیر ہو گئے تو پھر ن لیگ سمٹ کر چھوٹی جماعت ہو جائے گی اور میاں نواز شریف یہ نہیں چاہیں گے۔

Categories
آرٹیکلز

حیران کن طریقہ واردات ملاحظہ کریں

لاہور (ویب ڈیسک) ایک یہودی نے روس چھوڑ کر اسرائیل میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت لی اور روس سے روانہ ہوا۔ ائرپورٹ پر اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو لینن کا ایک مجسمہ بر آمد ہوا۔ انسپکٹر نے پوچھا، یہ کیا ہے؟یہودی نے کہا۔۔ جناب، آپ نے غلط سوال کیا ہے! آپ کو کہنا چاہیے تھا یہ کون ہے؟

یہ لینن ہے، جس نے اشتراکیت کے ذریعے روسی قوم کی خدمت کی میں ان کا بڑا فین ہوں اس لیے یادگار کے طور پر ان کا مجسمہ اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔روسی انسپکٹر بڑا متاثر ہوا اور کہا، جاو ٹھیک ہے۔۔یہودی ماسکو سے تل ابیب ائرپورٹ پر اترا تو ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور وہ مجسمہ بر آمد ہوا تو انسپکٹر نے پوچھا، یہ کیا ہے؟یہودی نے کہا۔ آپ کا سوال غلط ہے آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ کون ہے؟یہ مجرم لینن ہے یہی وہ پاگل ہے جس کی وجہ سے میں روس چھوڑنے پر مجبور ہوا!اس کا مجسمہ میں یادگار کے طور پر اپنے ساتھ لایا ہے تاکہ صبح و شام اس کو دیکھ کر اس پر لعنت بھیج سکوں!اسرائیلی انسپکٹر متاثر ہوا اور کہا۔۔ جاؤ ٹھیک ہے۔۔۔یہودی اپنے گھر پہنچا اور مجسمہ نکال کر گھر کے ایک کونے میں سنبھال کر رکھ دیا۔خیریت سے اسرئیل پہنچنے پر اس کے رشتہ دار ملنے آئے جن میں اس کا ایک بھتیجا بھی تھا،پوچھ بیٹھا۔۔ انکل یہ کون ہے؟۔۔یہودی بولا تمہارا سوال غلط ہے تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ کیا ہے؟یہ دس کلو سونا ہے اس کو بغیر کسٹم کے لانا تھا میں نے اس کا مجسمہ بنوایا اور بغیر کسی ٹیکس اور کسٹم کے لانے میں کامیاب ہوا۔۔کہانی کی دُم:ہمارے سیاستدان اسی یہودی کے شاگرد ہیں۔جو بتاتے کچھ ہیں اور معاملہ اندر سے کچھ اور ہوتا ہے۔