لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ذوالفقار چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بے نظیر 1986ء میں جب پہلی بار لاہور ایئر پورٹ اتریں تو ان کا تاریخی استقبال ہوا۔ جنرل الیکشن میں بے نظیر کامیاب تو ہوئیں مگر ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو بھی
اقتدار کے حصول کے لئے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ پر سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔ بینظیر بھی سیاسی سودے بازی کے باوجود اپنی مدت پوری نہ کر سکیں تو افسردگی کا مرحلہ آیا پھر قبولیت کا۔ اس مرحلہ وار ارتقا میں نواز شریف اور بے نظیر ایک دوسرے کو گھر بجھوانے کے لئے دست تعاون پیش کرتے رہے اور صورتحال مومن خان مومن کے اس شعر سے مختلف نہ تھی: اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا سودے بازی کے اس کھیل میں سر کے بل جانا بھی کام نہ آیا اور جنرل مشرف نے ایک بار پھر اقتدار کے انتظار میں کھڑے دوسری اور تیسری قطار کے سیاستدانوں کے ذریعے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا پتہ ہی صاف کر دیا ۔اس بار بینظیر نے میاں نواز شریف کے راستے کے کانٹے چننے اور 2008ء کے بعد باریوں کے لئے میثاق پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اس ملی بھگت کے توڑ کے لئے عمران خان کی صورت میں اقتدار کا تیسرا دعویدار پیدا کیا گیا اور 2018 ء میں اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر جا بیٹھا۔ تحریک انصاف تین سال تک ایک پیج کی سیاست کرتی رہی یہ ایک پیج بھی شاید چوروں لٹیروں کا کڑا احتساب ہی تھا۔ عمران خان کے ا عصاب پر چور لٹیرے اس قدر چھائے رہے کہ پیج وا لے روس اور چین کے بجائے کتاب کے امریکہ والے صفحہ پر پہنچ گئے تو عمران خان کے ساتھ بھی انہونی ہوگئی ۔
ان ہونی اس لئے کہ اس بارعمران خان کے خلاف کندھا مہیا کرنے والی سیاسی قیادت دوسری اور تیسری سیاسی صف سے نہیں بلکہ پہلی قطار میں سیاسی مصالحت کی امامت کرنے والے آصف زرداری تھے۔ عمران خان کے خلاف ایسی مصلحت ہوئی کہ شاعر بھی چیخ اٹھا: مصلحت کی بنا پر لوگ سلیم چاٹ لیتے ہیں تھوک جیسی چیز مسلم لیگ ن نے عمران خان کو کرسی سے اتار پھینکنے کے لئے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ چاٹ لیا ۔عمران خان چوروں لٹیروں کو این آر او دینے سے انکار اور اقتدار سے محرومی کے بعد اسلام آباد دھرنے کی کوشش میں کوبلر کے مطابق غصے کے دوسرے مرحلے سے گزرے ۔ آج کل سودے بازی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ سودے بازی کا تو اصول ہی ایک ہے جو زیادہ دام لگائے مال اس کا ہوتا ہے۔ اس سودے بازی میں کرسی کی قیمت جو بھی ادا کرے ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان بھی بہت جلد کوبلر راس کی قبولیت کی آخری منزل پر پڑائوکرنے والے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اقتدار کی کتاب میں سیاست دان بھلے ہی ایک پیج پر نہ ہوں لیکن تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تونواز ،زرداری اور خاں ایک ہی پیج آچکے اور اگر عالمی حالات کا تقاضا ہوا تو ممکن ہے نواز شریف، آصف علی زرداری اور فضل الرحمن کے ہاتھوں میں عمران خان کا بھی ہاتھ ہو اور سب مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک میں ایک ہی ٹرک پر کھڑے دکھائی دیں۔( ش س م)