ڈیفالٹ کا خطرہ!! پاکستانی معیشت کی زوال کی بڑی وجہ کیا ؟ اصل کہانی سامنے آگئی

لاہور: (ویب ڈیسک) لیاقت بلوچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ’’ آج ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سْود اور قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی، سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کی کشتی بھی دْنیا بھر میں ہچکولے کھارہی ہے اور ڈوبنے کے قریب ہے۔

عالمی کساد بازاری نے دْنیا بھر کی معیشتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاکستان اور دْنیا بھر میں معاشی، سیاسی سمیت تمام بحرانوں کا حل اسلامی نظامِ معیشت، معاشرت و حکومت میں ہے۔ جتنی جلد ہمارا حکمران طبقہ اس بات کا ادراک کرلے، اتنی ہی جلد ہم بحیثیت قوم سنبھلنے اور ترقی و استحکام کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پاکستان کی گزشتہ 75 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور پاکستان کو معاشی بحران کے ایسے گرداب میں دھکیل دیا جس سے نکلنا آسان بات نہیں۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا سہارا ڈوبتی ہوئی معیشت کو چند سانسیں تو فراہم کرسکتا ہے لیکن اس سے دیرپا معاشی استحکام ممکن نہیں۔ ملک و قوم کو موجودہ معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے صحیح معنوں میں ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر پائیدار معیشت کی تعمیرکرنا ہوگی، جو صرف اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی اس حوالے سے اپنے تاریخی فیصلے میں حکومت کو سال 2027ء تک بنکاری نظام کو سْود سے مکمل پاک کرنے کی ڈیڈ لائن دے چکی ہے، جس پر سنجیدہ عملدرآمد وقت کا تقاضا ہے۔تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، برآمدات میں کمی، افراط زر کی شرح میں اضافہ، بڑھتے ہوئے مالیاتی اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث اب یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ اپوزیشن کیساتھ ساتھ اب تو خود حکومت بھی یہ حقیقت تسلیم کررہی ہے کہ ملکی اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے امداد اور ڈیپازٹس خوش آئند اور اْن کی پاکستان دوستی کا عملی ثبوت ہے، جس کے لیے پوری پاکستانی قوم ان کی شکر گزار ہے، لیکن دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں سے توبہ کرنے اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کرکے غیرترقیاتی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی بجائے جب سونے کا کشکول لے کر بیرون ملک امداد کے نام پر بھیک مانگنے جاتے ہیں تو خود بقول وزیر اعظم انہیں دْکھ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ میں ایٹم بم رکھنے والا ملک دوسرے ہاتھ میں کشکول لیے امداد کے لیے دربدر پھرنے پر مجبور ہے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ملک و قوم کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود یہی حکمران ہیں جو مگر مچھ کے آنسو بہاکر قوم سے جھوٹی ہمدردی کا ناٹک کررہے ہیں۔
معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے تئیں اقدامات کے بجائے حکومت کا سارا انحصار بیرونی امداد اور سْودی قرضوں پر ہے، قرضے مزید بڑھنے سے معیشت دبتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آزاد ذرائع کے علاوہ خود وفاقی حکومت بھی معاشی بدحالی کا رونا رورہی ہے تو پھر اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز اپنے گھر سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو خود حکومتوں کو بھی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کو یقین آجائے کہ عوام سے اکٹھا کیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔ حکومتی وزرا کی ٹیکس تفصیلات دیکھیں تو ان سے کچھ لینے کے بجائے دینے کو جی چاہتا ہے لیکن ان کا لائف سٹائل دیکھیں تو ماضی کے عیاش حکمرانوں /بادشاہوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ بڑے صنعت کار و تاجر بھی یہی کہتے ہیں کہ تجارتی پابندیاں عائد کرنے اور ٹیکس در ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اپنے شاہانہ اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی کا ٹرائی اینگل اگر نیک نیت ہو جائے تو قوم موجودہ بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے نکل سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے سیاستدانوں اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے دردِ دل رکھنے والے سرمایہ داروں کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔ پہلے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت ترین شرائط پر قرضوں کے معاہدے کیے گئے، پھر آئی ایم ایف کی ایماء پر پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ کیساتھ ساتھ سبسڈیز ختم کردی گئیں۔ اب آئی ایم ایف نے اپنی اقساط کو مزید 400 ارب روپے کے ٹیکسز سے مشروط کرکے غریب پاکستانی عوام کو زندہ درگور کرنے کے لیے نیا جال بچھایا دیا ہے۔ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرض در قرض کی پالیسیوں نے نہ صرف عوام بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی شدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنے والے مہینے ملک و قوم کیلئے سخت تر ہوں گے، روپے کی قدر میں مزید گراوٹ سے افراط زر میں اضافہ کا امکان ہے۔

ایک طرف حکومت اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم، وزیر خارجہ بھاری بھرکم وفود لے کر سرکاری خرچ پر پوری دنیا کے سیر سپاٹے میں مسلسل مصروف عمل ہیں، جس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔ لہٰذا جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف سٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی اخراجات کا 30 اعشاریہ 7 فیصد قرضوں اور سْود کی ادائیگیوں میں چلاجاتا ہے، جسے گرتی ہوئی وصولیوں کے ساتھ سہارا دینا ممکن نہیں۔ درآمدات کے دباؤ اور برآمدات کی کمی، نیز ہنڈی/حوالہ کے ذریعے ڈالرز کی سمگلنگ کے باعث ملک میں ڈالرز کی قلت پیدا ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے حکومت ایل سیز کھولنے سے خوفزدہ ہے۔ پورٹ پر 5700 کنٹینرز بحری راستے بیرون ممالک سے سامان/ خام مال لاکر کھڑے ہیں لیکن ڈالرز کے آؤٹ فلو کے خوف سے حکومت انہیں ریلیز نہیں کررہی۔بندرگاہوں پرملکی صنعتوں / کاروباروں کے لیے لائے گئے سامان سے لدے کنٹینرز ریلیز نہ ہونے سے اب تک 12 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ ملک میں 60 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی ٹیکسٹائل، فارما، آٹو، اسٹیل انڈسٹریز میں سے 25 فیصد بند ہوچکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں تقریباً ایک کروڑ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ خام مال کی عدم فراہمی کے باعث دواساز کمپنیوں کی بندش سے ملک میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت کا خطرہ ہے۔ آٹا، چینی، چاول، گوشت، گھی، دالوں سمیت ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اور مسلسل اضافہ نے عام آدمی کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے۔ اب تو دوتین وقت کیا، ایک وقت کی روٹی کھانا بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔