کیا ن لیگ کے لئے وزارت عظمیٰ کا جال بچھایا گیا تھا؟جانیے اہم حقائق

لاہور(ویب ڈیسک) تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو گھر بھیجنے کے بعد فوری الیکشن میں جانے کی بجائے شدیدترین مالی بحران کا شکار ملک چلانے کا فیصلہ اگرچہ اپوزیشن اتحاد نے مل کر کیا تھا لیکن اس کی سب سے زیادہ سیاسی قیمت نون لیگ کو ادا کرنی پڑ رہی ہے جسے وزارت عظمیٰ کا بھاری پتھر چومنا پڑا اور آج وہ

معاشی بحران کی دلدل میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کی جانب سے اقتدار میں رہنے کے فیصلے کے پیچھے دراصل عمران خان کو الیکشن کے ذریعے واپس لانے اور دس سال تک اقتدار میں رکھنے کے منصوبے کا خوف بھی تھا جس کی بازگشت میڈیا میں ہوتی رہی ہے۔ اس منصوبے سے منسوب تھیوری یہ تھی کہ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے آرمی چیف جنرل فیض حمید ہوں گے اور یوں ان کی زیر نگرانی آئندہ انتخابات جیت کر تحریک انصاف مزید پانچ برس کے لئے اقتدار میں آجائے گی۔ اس مبینہ دس سالہ منصوبے میں کتنی حقیقت تھی اور کتنا فسانہ، اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ درست ہے کہ ن لیگ سمیت تب کی اپوزیشن کو یہ خوف مسلسل لاحق تھا اور اسکا آف دی ریکارڈ اظہار اپوزیشن رہنماؤں نے بھی کیا تھا۔ بعد میں یہی خوف فوری الیکشن کے بجائے حکومت سنبھالنے کے فیصلے کا سبب بنا۔ اس کے پیچھے دیگر عوامل اور مجبوریاں بھی تھیں۔ تاہم بڑی وجہ دس سالہ منصوبے کا خوف تھا۔ عمران خان کی ناکام معاشی پالیسیوں کے باعث اس وقت پاکستان شدید ترین معاشی بحران میں پھنس چکا ہے اور نون لیگ کی قیادت مسلسل یہی رونا رو رہی ہے کہ اس نے ملک کی خاطر اپنا سیاسی کیپٹل داؤ پر لگا دیا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ موجودہ حالات میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان، کانٹوں بھری سیج کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس کی قیادت کو مکمل ادراک تھا کہ محض سوا برس کے اقتدار میں عوامی امنگوں پر پورا اترنا آسان نہیں ہوگا خصوصاً جب عمران خان نے پاکستان کو تاریخی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا تھا۔ ابتدا میں ن لیگ کی کوشش تھی کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب نہ سنبھالے۔ لیکن جب پیپلزپارٹی نے حکومت سنبھالنے پر اصرار کیا تھا تو نون لیگ کی جانب سے یہ آفر دی گئی کہ پیپلز پارٹی اپنا وزیر اعظم لانا چاہے تو اسے اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر اس فراخ دلی کے پیچھے جذبہ خیرسگالی نہیں بلکہ سیاسی قیمت چکانے کا خوف تھا۔ لیکن آصف زرداری نے یہ موقف اختیار کیا کہ قومی اسمبلی میں نون لیگ سے بڑی پارٹی ہے لہذا وزارت عظمیٰ اس کا حق ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز شریف بھی وزیراعظم بننے کے متمنی تھے کیونکہ انہیں یہ موقع دوبارہ نہیں مل سکتا تھا ۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شہباز شریف پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ عمران خان انہی کو اپنا سب سے بڑا سیاسی مخالف سمجھتے تھے۔ لیکن نوازشریف وزارت عظمیٰ لینے کے حق میں نہیں تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ مرکزی دھارے کی بڑی پارٹیاں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے سے کترا رہی تھیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مختصر اقتدار میں کارکردگی دکھانے کے امکانات معدوم ہیں اور جو بھی پارٹی یہ بوجھ اٹھائے گی اسے اس کی سیاسی قیمت آئندہ عام انتخابات میں چکانی پڑے گی۔ تاہم اس بات پر سب جماعتوں کا اتفاق تھا کہ اگر عمران خان کو نومبر 2022 سے پہلے نکالا نہ گیا تو وہ جنرل فیض حمید کو نیا آرمی چیف بنا دیں گے

اور اگلے الیکشن میں دوبارہ 2018 کی طرح دھاندلی کے ذریعے دوبارہ برسر اقتدار آ جائیں گے۔ لہٰذا عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بے دخل کرنے کے بعد شہباز شریف کو کانٹوں کی سیج پر بٹھا دیا گیا کیونکہ راہیں تو مشکل تھیں لیکن انہیں مرنے کا شوق بھی تھا۔ اس مرحلے کے بعد اپوزیشن میں یہ بحث چلی کہ اسمبلیوں کی مدت پوری کی جائے یا نہیں۔ نواز شریف کا اصرار تھا کہ دو تین ماہ میں چند اہم اصلاحات کراکے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے۔ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مطلوبہ کارکردگی نہ دکھائے جانے پر سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہوگا۔ کیونکہ حکومت کی کمان ان کے پاس ہے۔ لہذا وہ اقتدار کو طول دینے کے بجائے نئے الیکشن کے اعلان پر زور دے رہے تھے۔ اس بار بھی مولانا فضل الرحمن ان کے ہمنوا تھے۔ جے یو آئی کے ایک رہنما کے بقول پی ڈی ایم کے قیام سے پہلے ان کی جماعت نے انفرادی طور پر ملک بھر میں عمران حکومت کے خلاف پے درپے جو جلسے اور پھر آزادی مارچ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔ اور وہ اپنی اس مقبولیت کو برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ تاکہ عام انتخابات میں اسے کیش کرایا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار اتحادی حکومت کی کامیابی پر تھا۔ ناکامی کے اثرات نون لیگ کے بعد سب سے زیادہ اسی پر آنے تھے۔ اس کے بر عکس پیپلز پارٹی کو بظاہر اتنا فرق نہیں پڑنا تھا کہ کم از کم صوبہ سندھ اب بھی اس کا محفوظ سیاسی قلعہ ہے۔ جے یو آئی رہنما کے بقول اس سوچ کو لے کر

مولانا فضل الرحمن بھی اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن میں جانے سے متعلق نواز شریف کی تجویز کی تائید کر رہے تھے۔ تاہم قبل از وقت انتخابات میں جانے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے لئے گھاٹے کا سودا تھا کیونکہ نون لیگ اور جے یو آئی کے برعکس وہ ایک صوبے کی حکمراں ہے۔ قصہ مختصر، عمران خان نے نئے الیکشن کے لئے حکومت مخالف تحریک چلائی تو آصف زرداری اور نواز شریف نے دباؤ میں آ کر الیکشن کروانے کی بجائے مخلوط حکومت کو طول دینے کا فیصلہ کیا جو کہ ایسے ماحول میں عمران خان کی کامیابی یقینی تھی۔ یہ سوچ بھی غالب تھی کہ اقتدار میں رہ کر اور مرضی کا آرمی چیف لگا کر مبینہ دس سالہ منصوبے کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یوں مخلوط حکومت کو برقرار رکھا گیا اور پھر وہی ہوا، جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا۔ آج لگ بھگ نو ماہ گزر جانے کے باوجود مخلوط حکومت سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہوچکی ہے اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام ہے۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان نون لیگ کو ہو رہا ہے۔ سب کی انگلیاں اس کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ ایسے میں نون لیگ کی لندن میں موجود قیادت حیران و پریشان ہے کہ ’’جائے تو جائے کہاں؟‘‘۔