پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو انکا مستقبل کیا ہوگا؟پنجاب کی نئی صورتحال سے متعلق جانئے چشم کشا حقائق

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے گورنر پنجاب کی جانب سے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اجلاس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار تو کر دیا ہے لیکن وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے

کہ اگر پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو ان کی وزارت اعلیٰ ختم ہو جائے گی اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو تالے لگا دیے جائیں گے۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سبطین خان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پہلے سے ہی جاری ہے اور گورنر کی ایڈوائس پر نیا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ ان کے اس بیان پر وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا مؤقف درست نہیں اور ضوابط اور آئین کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 21 دسمبر چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس نہ ہوا اور اس میں وزیرِ اعلیٰ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ اس عہدے پر برقرار نہیں رہیں گے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر پرویزالٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے تو نہ تو وہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گھس سکیں گے اور نہ ہی ان کو وزیر اعلیٰ کا پروٹوکول ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ہم وزیراعلیٰ ہاؤس کو تالے لگا دیں گے۔ یاد رہے کہ گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد انھیں ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریری ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور گورنر اس خیال سے متفق ہیں کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے آئین کے آرٹیکل 130 (7) کے تحت وہ 21 دسمبر کو شام چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر رہے ہیں جس میں وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیں۔دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ پرویز الٰہی کا پی ڈی ایم کے ساتھ معاملہ طے ہو چکا ہے اور دونوں کا بنیادی مقصد پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانا ہے۔

دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ نواز کے ڈیڑھ درجن صوبائی ارکانِ اسمبلی کی پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر پابندی کو معطل کرتے ہوئے انھیں 21 دسمبر کو ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ جسٹس شاہد بلال اور جسٹس رسال حسن سید پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سپیکر کی جانب سے عائد کردہ پابندی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ تمام ارکان بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور اگر اجلاس میں ووٹنگ ہوئی تو یہ ارکان ووٹ بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے ن لیگ کے 18 ارکانِ پنجاب اسمبلی پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی لگائی تھی۔ اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپیکر کے لیے ضروری ہے کہ پابندی سے پہلے دو وارننگز دے اور وہ رکنِ اسمبلی کو 15 دن کے لیے معطل کر سکتا ہے۔ رکن پر 15 اجلاسوں میں شرکت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بظاہر تو 15 دن کا وقت پورا ہو چکا ہے تو کیا پابندی کے خلاف درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے جس پر رانا مشہود کے وکیل کا کہنا تھا کہ پابندی کی مدت تو بظاہر پوری ہو چکی ہے لیکن قانونی سوال برقرار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ارکان پر اجلاس میں شرکت پر پابندی نہیں ہے تو ہماری درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ عدالت کی جانب سے

جب سپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل سے پوچھا گیا کہ 15 دن اور 15 نشستوں پر سپیکر کا کیا مؤقف ہے تو امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ اس کا ایک حقیقی اور ایک قانونی پہلو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سپیکر کی مرضی ہے کہ وہ ان ارکان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں اور یہ ان ارکان کے رویے پر منحصر ہے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے ارکان کے وکیل نے کہا کہ اس طرح تو یہ درخواست ابھی غیر مؤثر نہیں ہے۔ منصور اعوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’کل وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہے جس میں درخواست گزاروں کو اپنے ووٹ کا حق کا استعمال کرنا ہے۔ اس سماعت کے بعد عدالت نے 18 ارکان کے اجلاس پر پابندی کے نکتے پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور کچھ دیر بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مسلم لیگ ن کے 18 ارکان کو بدھ کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دے دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بدھ کو پنجاب کی سیاست کیا صورت اختیار کرتی ہے؟