نواب اسلم رئیسانی کی پارٹی میں شمولیت! کیا مولانا دوبارہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے قریب ہو رہے ہیں؟بڑا سوال کھڑا ہو گیا

کوئٹہ(ویب ڈیسک) سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت جمعیت علماء اسلام میں شمولیت سے یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ انکے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور بلوچستان کی سیاسی بساط پر مولانا کی پوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔ صوبے کی سیاسی و قبائلی اثر و رسوخ رکھنے والی متعدد شخصیات نے
حالیہ دنوں میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان رہنماؤں میں سب سے قابل ذکر نواب اسلم رئیسانی ہیں۔ جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت ہونے والے ورکرز کنونشن میں نواب اسلم رئیسانی کے علاوہ میر ظفر اللہ زہری، میر غلام دستگیر بادینی اور میر امان اللہ خان نوتیزئی بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے ورکرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان شخصیات کی شمولیت سے ان کی جماعت صوبے میں مضبوط ہو گی اور بلوچستان کا مستقبل اب جے یو آئی سے وابستہ ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عام انتخابات سے قبل صوبے کی متعدد سیاسی اور قبائلی شخصیات عموماً اُن سیاسی جماعتوں کا رُخ کرتی رہی ہیں جن کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہو اور اب ان ’الیکٹیبلز‘ اور اثر و رسوخ رکھنے والے رہنماؤں کی جے یو آئی میں شمولیت ایک ’معنی خیز‘ تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت نہیں بلکہ عوام میں جڑیں رکھنے والی مضبوط جماعت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سیاسی اور قبائلی شخصیات کی شمولیت سے جے یو آئی مزید مضبوط ہو گی اور اکثریت ملنے کی صورت میں ہم آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں اپنی حکومت بنائیں گے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جے یو آئی میں بااثر شخصیات کی شمولیت سے نہ صرف صوبے میں اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے بلکہ مستقبل میں جے یو آئی
کے بلوچستان میں حکومت بنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے سیاسی و قبائلی شخصیات میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سرفہرست ہیں۔ وہ نہ صرف رئیسانی قبائل کے سربراہ ہیں بلکہ ’چیف آف ساراوان‘ بھی ہیں۔بلوچستان کے قبائلی نظام میں خان آف قلات کے بعد چیف آف ساراوان کا نمبرآتا ہے جس کی بنیاد پر ان کو ’خان ثانی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نواب اسلم رئیسانی پہلی مرتبہ پاکستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی کے بعد وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے دوسرے اہم رہنما میر ظفراللہ زہری ہیں جو زہری قبائل کے سربراہ نواب ثنا اللہ زہری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ میر ظفراللہ زہری 2008 میں قلات کی نشست سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔ 2018 کے انتخابات سے قبل بننے والے ضلع سوراب سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر ظفراللہ زہری اپنے بھائی نوابزادہ نعمت اللہ زہری کے مقابل انتخاب لڑے تھے مگر انھیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی جس تیسری شخصیت نے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی وہ میر امان اللہ خان نوتیزئی ہیں جن کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے۔ وہ 2018 کے عام انتخابات میں اگرچہ دوسرے نمبر پر رہے لیکن 2002 سے 2013 کے انتخابات میں ضلع چاغی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ جے یو آئی میں شامل ہونے والے چوتھے فرد میر غلام دستگیر بادینی ہیں، جن کا تعلق ضلع نوشکی سے ہے۔
وہ 2013 کے عام انتخابات میں رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق بااثر افراد کی جے یو آئی میں شمولیت کا فائدہ نہ صرف جے یو آئی بلکہ ان افراد کو خود بھی ہو گا۔کوئٹہ سے سینئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کی نشست سے اگرچہ نواب اسلم رئیسانی زیادہ تر منتخب ہوتے رہے لیکن اس بار ان کے لیے انتخابی معرکہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت موقف کے باعث مشکل ہو گیا ہے۔ذوالفقار نے بتایا کہ مستونگ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر جے یو آئی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے جو نواب اسلم رئیسانی کی شمولیت کے باعث انھیں ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشست سوراب میں بھی جے یو آئی کا ووٹ بینک ہے جبکہ ضلع چاغی اور نوشکی میں بھی جمعیت علمائے اسلام کا ووٹ بینک ہے جس کی وجہ سے یہاں سے ان امیدواروں کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ ان شخصیات کی پارٹی میں شمولیت سے انھیں اور جے یو آئی دونوں کو فائدہ ملے گا۔ شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ’ان شخصیات کا یہ فائدہ ہو گا کہ جے یو آئی کے ووٹ ملنے سے ان کے کامیابی کے امکانات بڑھیں گے جبکہ ان کی کامیابی کی صورت میں جے یوآئی کو بلوچستان اسمبلی میں فائدہ ملنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی فائدہ پہنچے گا۔ شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ 2018 میں جے یو آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے
جس کے باعث خود مولانا فضل الرحمان بھی اپنی نشست جیت نہیں سکے تاہم اب صورتحال بہتر نظر آتی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بیشتر عوامی حلقوں میں یہ لہر چل پڑی ہے کہ جے یو آئی بلوچستان میں ایک مقبول جماعت بننے والی ہے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی و قبائلی رہنماؤں کو عندیہ دے رہے ہیں کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت انہی کی ہو گی۔ انھوں نے بتایا کہ عام انتخابات میں عموماً جے یو آئی کے حصے میں بلوچستان اسمبلی کی دس سے گیارہ نشستیں آتی ہیں، تاہم اس مرتبہ یہ جماعت 16 سے 20 نشستیں حاصل کرنے کے تخمینے لگا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواب اسلم رئیسانی کی صورت میں جے یو آئی کو بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے لیے ایک امیدوار بھی مل گیا ہے کیونکہ نواب اسلم رئیسانی ایک آزمائے ہوئے وزیر اعلیٰ ہیں۔ بلوچستان میں ماضی میں حکومتیں بنانے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بظاہر جہاں پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی ایک تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ اب فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں گے چنانچہ اب ایسا لگ رہا کہ بلوچستان میں اس مرتبہ عوامی مینڈیٹ پر انحصار کیا جائے گا۔