جنرل باجوہ نے مارشل لا کے بعد کی تیاری بھی کر لی تھی،سینئر صحافی حامد میر کا انکشاف

اسلام آباد(ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے دعوی ٰکیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے دل میں مارشل لاء لگانے کی خواہش لے کر رخصت ہوئے کیونکہ میں نے موصوف کی زبان سے مارشل لاء کی بات کئی مرتبہ سنی۔ اس خواہش کا اظہار باجوہ نے

اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل بھی کیا اور بتایا کہ ہمارے پاس ہر وقت ایسے لوگوں کی لسٹیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مارشل لاء لگنے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے۔ حامد میر کے بقول مجھے مخاطب کرتے ہوئے جنرل نے کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے۔ اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ آج کل کچھ سیاستدان عجیب و غریب ہوائیاں چھوڑتے سنائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو مارشل لاءسے بچا لیا۔ موصوف نے یہ انکشاف کرتے ہوئے دلیل دی کہ اگر خان صاحب صدر عارف علوی کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے نوٹیفکیشن پر دستخط کرنے سے روک دیتے تو ملک میں مارشل لاءلگ جاتا۔ فواد نے جو بھی کہا وہ انتہائی غور طلب ہے کیونکہ آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک طرف جنرل قمر جاوید باجوہ دوسری مرتبہ ایکسٹینشن کیلئے سرگرم تھے، دوسری طرف فیض آباد دھرنے کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والا ایک جرنیل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ یقین دلا رہا تھا کہ اگر اسے آرمی چیف بنا دیا جائے تو وہ نہ صرف عمران خان کو نیست و نابود کر دے گا بلکہ اس کی آنے والی نسلیں بھی سیاست سے توبہ کر لیں گی۔ تاہم حکومتی اتحادی جماعتوں نے موصوف سے فیض یاب ہونے سے معذرت کر لی۔ حامد میر کہتے ہیں

کہ باجوہ اور فیض مل کر کھیل رہے تھے یا ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے لیکن یہ طے ہے کہ جی ایچ کیو سے وزارت دفاع کو آرمی چیف کیلئے نام بھجوانے کی سمری میں تاخیر بہت سوچ سمجھ کر کی گئی۔ بالآخر جب سمری بھیج دی گئی تو خیال تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا تو عمران خان صدر عارف علوی کو اس فیصلے کی تصدیق سے روک دیں گے۔ چورن یہ تھا کہ یوں ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا اور مار شل لاء کے حالات پیدا ہو جائیں گے۔ تاہم فواد چودھری برا نہ منائیں تو عرض ہے کہ جب وزیر اعظم آفس نے سمری صدر علوی کو بھجوائی تو ہماری اطلاع کے مطابق انہوں نے اس پر دستخط کر دیئے۔یعنی صدر علوی نے نئے آرمی چیف اور نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے تقرر نامے پر دستخط کرنے کے بعد اسلام آباد سے لاہور کا سفر کیا جہاں انہوں نے عمران سے ایک نمائشی مشاورتی ملاقات کی۔ یہ بھی یاد رہے کہ علوی وزیر اعظم شہباز شریف کے سرکاری جہاز پر لاہور گئے۔ چنانچہ خان صاحب علوی کو نئے آرمی چیف کے تقرر کی سمری سمری پر دستخط سے روکنے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ تاہم فواد کا یہ دعوی ٰتسلیم کیا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کو بھی مارشل لاء کے خطرے کا احساس تھا اور انہوں نے صدر کو سمری پر دستخط سے نہیں روکا ہو گا۔ یوں مارشل لاء کا خطرہ ٹل گیا۔ لیکن حامد میر سوال کرتے ہیں کہ یہ مارشل لاء کس نے لگانا تھا؟

ظاہر ہے جنرل قمر باجوہ نے ہی لگانا تھا جن کی زبان سے میں نے مارشل لاء کی بات ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار سنی۔ انکے دل کے کسی گوشے میں پانچ ہزار افراد کو لٹکانے کی خواہش اکثر اوقات انگڑائیاں لیتی رہتی تھی۔ یہ خواہش ان کی زبان پر تڑپنے کے بعد واپس دل میں جا کر سو جاتی تھی۔ جنرل باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک سیکورٹی ورکشاپ میں کئی گھنٹے تک خطاب فرمایا۔ ان کا آغاز میں تو یہی کہنا تھا کہ فروری 2021ء میں فوج نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے کہا کہ پاکستان میں مارشل لا لگانا بہت آسان کام ہے اور ہمارے پاس ہر وقت ان لوگوں کی فہرستیں تیار ہوتی ہیں جنہیں مارشل لاء لگانے کے بعد گرفتار کرنا ہوتا ہے۔ حامد میر کے بقول مجھے مخاطب کرتے ہوئے جنرل باجوہ کہا کہ کبھی آپ کا نام ہماری فہرست میں شامل ہو جاتا ہے اور کبھی ڈراپ ہو جاتا ہے۔ حامد میر کے بقول اس روز انہوں نے میڈیا پر بہت غصہ نکالا اور کہا کہ جب بھی ہم کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے قریب پہنچتے ہیں، آپ جیسے لوگ کشمیر فروشی کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ پھر جنرل نے یہ الزام بھی لگا دیا کہ آپ لوگ بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ جنرل باجوہ تقریباً ہر ملاقات میں ہماری تنخواہوں پر ضرور گفتگو کرتے تھے

لیکن ان کی انفارمیشن ہمیشہ غلط ہوتی تھی، اس روز بھی نسیم زہرا نے انہیں چیلنج کیا اور کہا کہ آپ نے ٹیکس چوری کا الزام لگایا ہے تو ثبوت پیش کریں ورنہ اپنے الفاظ واپس لیں۔باجوہ صاحب نے نسیم زہرا کو دبانے کی کوشش کی لیکن جب اس جرات مند خاتون نے بھی بلند آواز میں آرمی چیف سے بار بار کہا کہ ثبوت کے ساتھ بات کریں تو پاکستان کے طاقتور ترین شخص نے بات بدل دی۔ حامد میر کہتے ہیں کہ سچ تو یہی ہے کہ سیاستدانوں کی کمزوریاں سازشی جرنیلوں کی طاقت بنتی ہیں۔ جنرل باجوہ کے پاس نسیم زہرا کی کوئی کمزوری نہیں تھی لہٰذا انہوں نے ایک منٹ میں موصوف کو چپ کروا دیا۔ اس روز باجوہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ فوج بحیثیت ادارہ نیوٹرل ہو چکی ہے لیکن انہوں نے ذاتی حیثیت میں عمران کو سمجھانے کی کافی کوشش کی۔ باجوہ ایک زمانے میں شہباز شریف کو بھی بہت سمجھایا بجھایا کرتے تھے۔ 2018ء کے انتخابات سے قبل ایک دن جنرل باجوہ نے تب کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار اور ان کے نائب فیض حمید کی موجودگی میں شہباز شریف سے کہا کہ اگر آپ وزیر اعظم بن جائیں تو آپکی کابینہ میں کون کون شامل ہوگا؟ شہباز شریف کو سمجھ آ گئی کہ میرے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت سے صلاح مشورے کے بعد ہی کابینہ بنے گی۔

لیکن جنرل باجوہ نے کہا کہ آپکو اپنے بھائی نواز شریف کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہوگی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب شہباز شریف ایک چھوٹی سی ہاں کہہ دیتے تو وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن انہوں نےتینوں جرنیلوں کو صاف بتا دیا کہ وہ ہمیشہ سے فوج کےساتھ مفاہمت کے حامی رہے ہیں لیکن وہ نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ جنرل باجوہ ذاتی طور پر عمران کو وزیر اعظم نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کے انکار کے بعد عمران ان کی مجبوری بن گئے۔ عمران خان نے باجوہ کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ باجوہ نے کہا کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر حفیظ شیخ کو لے آئو، خان صاحب مان گئے۔ جب باجوہ صاحب نے کہا کہ عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہٹا دو تو خان صاحب نہیں مانے۔ حامد میر کے بقول ساری بات یہیں سے بگڑی، خان صاحب کا خیال تھا کہ پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے باجوہ صاحب ہیں۔ یہ ان کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔تحریک عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ آصف علی زرداری تھے جنہوں نے شہباز شریف کو اپنا امیدوار بنا کر خود باجوہ کو حیران کر دیا۔ باجوہ نے آخری وقت تک عمران کو بچانے کی کوشش کی یہاں تک کہ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ آپ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ لیکن باپ والے باجوہ صاحب کے بھی باپ نکلے، خالد مگسی نے براہ راست باجوہ کے سامنے بیٹھ کر کہہ دیا کہ آپ نے مارشل لاء لگانا ہے تو لگا دو ہم بلوچ روز روز اپنا فیصلہ نہیں بدلتے۔ جب شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے تو اس کے بعد باجوہ صاحب نے پرویز الٰہی کو ان کے خلاف استعمال کیا اور پھر چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ پر دبائو ڈالا کہ آپ یا تو نئے انتخابات کا اعلان کریں یا پھر استعفے دیں۔ راجہ صاحب نے جس جگہ اور جس انداز میں انکار کیا اس پر تو پورا کالم لکھا جاسکتا ہے۔ انہیں بہاولپور سے بھی پیغامات آتے رہے کہ آپ نئے الیکشن کا راستہ ہموار کریں لیکن راجہ صاحب نے سب کو ’’بے فیض‘‘ کر دیا۔لیکن اب بھی بہت سے راز آشکار ہونے ہیں اور بہت سے چہروں کا نقاب سرکنے والا ہے۔