چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے ساتھ زندگی کے آخری دنوں میں ایسا کیا ہوا کہ انکی بیوی بھی انہیں چھوڑ کر امریکہ چلی گئی ؟ حیران کن واقعات

لاہور (ویب ڈیسک) دلوں میں اتر جانے والوں کو موت نہیں آیا کرتی، موت اُن کی روح کو لے اڑے یا جسموں کو فنا کر ڈالے وہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ دلوں کے رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں۔اس کی زندہ مثال وہ اداکار ہیں جنھوں نے اپنے جداگانہ انداز، دل موہ لینے والی اداؤں، بڑی بڑی مخمور آنکھوں، منفرد ہیئر سٹائل،

جاذب نظر متوازن سراپے اور شوخ اداکاری کے بل پر لاتعداد دلوں میں کچھ یوں گھر کر لیا کہ آج اُن کی موت کو چار عشرے ہونے کے قریب ہیں لیکن ہر آنے والا دن وحید مراد کی شہرتوں کو دوام بخش رہا ہے۔وحید مراد معروف فلم ڈسٹری بیوٹر نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے۔ نثار مراد کے ہاں کسی شے کی کمی نہ تھی اور اُن کا شمار متمول لوگوں میں ہوتا تھا۔ نثار مراد اور ان کی اہلیہ شیریں مراد نے اپنی اکلوتی اولاد کے لیے اپنی محبتوں کے در وا کر دیے۔ دنیا کی ہر نعمت اس بچے کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی۔انھی محبتوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والا ویدو ( وحید مراد ) بھی والدین کی ہر خواہش پر پورا اترتا رہا۔ گریجویشن کے بعد وحید مراد نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لٹریچر بھی کر لیا۔اوائل جوانی اور دوران تعلیم وحید مراد کی گہری نگاہ اپنے والد کے کاروبار پر رہی اور انھوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ حصول تعلیم کے بعد والد کے شعبے میں اپنے ٹیلنٹ کو آزمائیں گے۔والدین نے بھی بیٹے کی خواہشات کو مقدم سمجھا اور انھیں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق دیا۔وحید مراد نے حصول تعلیم کے بعد اپنا فلمی سفر اپنے والد نثار مراد کے فلمساز و تقسیم کار ادارے ’مراد فلم کارپوریشن‘ کے بینر تلے ذاتی فلم ’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘ سے کیا اور اس کے بعد ’انسان بدلتا ہے‘ بھی پروڈیوس کر ڈالی۔ان فلموں کی تکمیل کے دوران فلمسٹار درپن نے

انھیں خاصا تنگ کیا کیونکہ وحید مراد کا تعلق کراچی سے تھا اور دونوں فلمیں بھی وہیں بنی تھیں اور دونوں میں ہیرو کا کردار درپن ادا کر رہے تھے جو لاہور سے مقررہ وقت پر کراچی نہ پہنچتے اور وحید مراد کو خاصا نقصان اٹھانا پڑتا۔درپن کی طرف سے دی جانے والی پریشانی میں بھی کچھ راز پنہاں تھی۔ درپن کے انتظار نے فلمساز وحید مراد کو پریشان کر دیا تو ایسے میں ان کی فلم کی اداکارہ زیبا بیگم نے اُن کو ایک ایسا مشورہ دیا جس نے وحید مراد کی زندگی کی کایا ہی پلٹ ڈالی۔زیبا بیگم نے وحید مراد سے کہا کہ ’ویدو تم خود کیوں ہیرو نہیں بن جاتے ،تم میں کس بات کی کمی ہے۔‘ وحید مراد نے برجستہ جواب دیا کہ ’نہیں میری رنگت گہری سانولی ہے، میں یہ رسک نہیں لے سکتا۔‘لیکن درحقیقت زیبا بیگم کی کہی ہوئی بات وحید مراد کے دل کو بھا گئی اور انھوں نے مشورے پر عمل کرنے سے پہلے خود کو فلم کے پردے پر آزمانا چاہا اور ایس ایم یوسف کی فلم ’اولاد‘ میں کام کرنا قبول کر لیا۔یوں کیمرے کے پیچھے کھڑا وحید مراد جب کیمرے کے سامنے آیا تو کیمرے نے کمال گرمجوشی سے اسے خوش آمدید کہا۔کیمرے کی قبولیت کے بعد وہ دیکھنے والوں کی نگاہوں کو کچھ یوں بھائے کہ دیکھتے ہیں دیکھتے ہر نگاہ کا مرکز اور دل کی دھڑکن بن بیٹھے اور زیبا بیگم کا ویدو کو دیا ہوا مشورہ کارگر ثابت ہوا اور وہ فلمساز سے فلم ہیرو بن گئے۔وحید مراد اپنے

والدین کے ہی اکلوتے نہیں بلکہ فلمی دنیا میں بھی یکتا اور منفرد اداکار تھے۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر عروج کی انتہا بالآخر زوال ہے لیکن نازونعم میں پلنے والے جہاندیدہ وحید مراد اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور آخر کار جب انھوں نے زوال کو سامنے پایا تو وہ اندر سے ٹوٹ گئے۔یکے بعد دیگرے ہونے والے دو حادثات میں وحید مراد اپنے چہرے کی دلکشی کھو بیٹھے۔ ایسے میں جب انھیں ڈھارس کی سخت ضرورت تھی تو فلم انڈسٹری نے انھیں نظرانداز کر دیا بلکہ وہ اپنے مختصر سے خاندان کو بھی ناراض کر بیٹھے۔وحید مراد کی اہلیہ بھی انھیں اس حال میں چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں اور جب کوئی ڈھارس بندھانے اور امید دلانے والا نہ رہا تو وہ ٹوٹ کر بکھر گئے۔وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ لوگ انھیں بھول جائیں گےوحید مراد نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل اپنے دیرینہ دوست انور مقصود کے پروگرام ’سلور جوبلی‘ میں اس بات کا برملا ااظہار کیا تھا کہ ’اگر میں نہ رہوں، مجھے کچھ ہو جائے یا میں دنیا سے اٹھ جاؤں تو مجھ پر فلمبند یہ گانا میری موت کے بعد کی زندگی کا عکاس ہو گا:بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں۔۔۔جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں۔۔۔لیکن وحید مراد کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں جس قدر شہرتیں سمیٹیں، وہ اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ وہ موت کے 38 برس بعد بھی زندہ و جاوید ہیں۔وحید مراد کو جہان فانی سے رخصت ہوئے 38 برس بیت چکے ہیں لیکن موجودہ نسلیں اُن کو فلم یا ٹی وی سکرین پر دیکھ کر آج بھی دل ہار بیٹھتی ہیں۔