گاڑی کی ڈگی میں وزیر اعظم والا کیا معاملہ ہے ؟ اصل کہانی سامنے آگئی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حذیفہ رحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ غیر مناسب طرزِ سیاست ہے کہ جب اہم ترین معاملات پر قوم اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تو آپ ایک نان ایشو کو اہم ترین ایشو بنا کر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔کہاں حاکمِ وقت کی

جانب سے بددیانتی کرکے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی تحفے گھر لے جانے پر جواب دہی ہورہی ہے اور کہاںآپ نے غیرمرئی دنیا کی باتیں شروع کردی ہیں۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ خان صاحب وہی سرخ رنگ کی ڈائری ساتھ لے کر گئے ہیں مگر ڈائری سے پہلے بہت کچھ گھر جاچکا تھا ،جس کا حساب کتاب غالباً اس چھوٹی سی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔اعجاز الحق جیسے سیاستدان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار ہوں اور ایک منتخب وزیراعظم کے متعلق یہ کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے ایک ایم پی اے ملک احمد خان کے ساتھ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر آرمی ہاؤس جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہباز شریف کار کے بجائے ہمیشہ بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور لاہور سے اسلام آباد کے طویل سفر کے دوران کمر کی تکلیف کے باعث گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ جاتے ہیں،تاکہ طویل سفر میں زیادہ دیر گاڑی میں بیٹھنے سے کمرپر بوجھ نہ آئے۔شاید اعجاز الحق لاعلم ہیں کہ محفوظ قیمتی گاڑی کی کوئی ’’ڈگی‘‘نہیں ہوتی ۔پنجاب میں اعجاز الحق کے دوست عمران خان کی حکومت ہے۔سیف سٹی کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کرلیں کہ کبھی شہباز شریف نے قیمتی محفوظ گاڑی کے علاوہ بھی کسی دوسری گاڑی پر سفر کیا ہو۔شہباز شریف تو دن کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خوشگوار تعلقات کو تسلیم کرتے ہیں۔ہمیشہ اداروں کی سپورٹ کرتے ہیں ۔انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں بقول اعجاز الحق کے گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر آرمی ہاؤس جائیں ؟آج جب پوری قوم نے ایک فیصلہ کیا،ایک ایسا شخص جو کہ صبح شام اپنے مخالفین کو چور کہتا تھا اوربات بات پر ریاستِ مدینہ کی بات کرتا تھا ، ایسے میں اس کی چوری رنگے ہاتھوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پکڑ لی تو آپ نے انتہائی مضحکہ خیز شوشہ چھوڑ دیا ،جو کہ آپ ایسے سیاست دان کے لیے مناسب نہیں تھا ۔ویسے شہباز شریف کو بھی دائیں بائیں نظر دوڑانی چاہئے کیونکہ اعجاز الحق نے تو ایک منفی شوشہ ضرور چھیڑا ہے مگر آج سے کئی ماہ پہلے جب شہباز صاحب وزیراعظم نہیں بنے تھے تب بھی آپ کی جماعت کے ہر رکن اسمبلی کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ فلاں رکن صوبائی اسمبلی بنیادی طور پر شہباز شریف اور جنرل باجوہ(اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پل کا کردار اداکررہے ہیں۔کوئی دوست اگر آ پ کے لئے کوئی اہم کام سرانجام دے ہی رہا ہے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی چاہئےکہ پارٹی کی میٹنگز اور ساتھی اراکین سے ایسی معلومات شیئر نہ کرے،کیونکہ جب معلومات ہاتھ سے نکل جاتی ہیں توپھر اعجاز الحق ہوں یا کوئی اور… اس کا استعمال اپنی مرضی سے من گھڑت باتیں شامل کرکے کرتا ہے کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔