مولانا فضل الرحمٰن وزیر اعظم شہباز شریف کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کہاں لے جانے کے خواہشمند ہیں ؟ سلیم صافی کا حیران کن انکشاف

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سلیم صافی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔سیلاب کی صورت میں یہ آفت ایسی حالت میں آئی ہے جب ہماری معیشت پہلے ہی سونامی کی آفت سے تباہ ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سابق حکومت کی وعدہ خلافی کی تلافی اور نئی قسط کی شرائط پوری کرنے کیلئے

شہباز شریف حکومت نے جس طرح بجلی اور تیل کی قیمتیں بڑھادیں اس کی وجہ سے غریب تو کیا مڈل کلاس کا جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے۔ سیلاب کی آفت ایسے عالم میں آئی ہے کہ سوائے یواے ای اور چین کے باقی تقریباً پوری دنیا کے ہر ملک کی معیشت اپنی اپنی جگہ دبائو کا شکار ہے۔ عالمی معیشت کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ یقیناً چین، یواے ای، سعودی عرب، ترکیہ، امریکہ اور اس طرح کے کئی دیگر ممالک نے بروقت کچھ نہ کچھ مدد کی ہے جب کہ یواے ای اور سعودی عرب نے اپنے اپنے ممالک میں پاکستانی سیلاب متاثرین کیلئے مالی امداد کی مہمات چلا کر بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ بھی کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو مدد آئی ہے، وہ ضرورت کے مقابلے میں کم ہی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ابھی تک تو صرف ریسکیو اور ہنگامی امداد کا کام جاری ہے اور اس کیلئے بھی وسائل اتنے کم ہیں کہ بلوچستان، پنجاب، پختونخوا اور سندھ کے بعض متاثرین تک ابھی تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ بحالی کے کام کیلئےیہ تیس چالیس ارب ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ پھر اگر حکومت چند ارب ڈالر خیرات جمع کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی تو صوبوں میں موجود کرپٹ ترین اور نااہل حکومتوں کے ہوتے ہوئے ان سے بحالی کا کام کماحقہ کیسے ہوسکے گا؟ وفاقی حکومت میں بھی صورت حال یہ ہے کہ بلاول بھٹو سب کچھ صوبہ سندھ اور پھر اپنے انتخابی حلقوں کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ مولانا صاحب کو صرف ڈی آئی خان اور ٹانک کی فکر ہے اور ہر روز وزیراعظم کو ہاتھ سے پکڑ کر اس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کا پوچھنے اور حق مانگنے والا کوئی نہیں اس لئے اس کے بعض متاثرہ اضلاع تک ابھی تک کچھ نہیں پہنچا ۔ پختونخوا میں سب سے زیادہ متاثرہ سوات میں وزیراعلیٰ اور ایم این ایز یا ،ایم پی ایز تالبان کے خوف سے خود اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے، کجا کہ وہ بحالی کے کام پر توجہ دے سکیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ سیلاب گزشتہ وبا سے بھی بڑی آفت ہے اور سیاسی حوالوں سے یہ نہ صرف سیاسی حرکیات کو تبدیل کرکے رکھ دے گا بلکہ کسی بھی وقت متاثرین مشتعل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے سیاستدانوں اور میڈیا سے التماس ہے کہ وہ کچھ وقت کیلئے سیاست اور ریٹنگ کو پس پشت ڈال کر سیلاب کو اپنی اولین ترجیح بنائیں تاکہ قوم کی اجتماعی ذہانت کو بروئے کار لاکر اس چیلنج سے نمٹنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔