پاکستانیوں نے بڑا فیصلہ کر لیا ، اس بار عام انتخابات میں شریفوں اور زر والوں کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔پاکستانی سیاست میں 1947ء سے لے کر 1958ء تک کے گیارہ سال کا منظر سید برادران والا منظر ہے۔ نہرو نے کہا تھا ’’میں نے اتنی شیروانیاں نہیں بدلیں جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں‘‘۔ لیکن 1970ء کے الیکشنوں

میں عوام کے ووٹ نے انگریز کے بنائے ہوئے اس محلّاتی سازشوں کے کاغذی محل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ بڑے بڑے نام جن کے خاندان ہمیشہ جیتا کرتے تھے ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ مگر اس کے بعد ایک منصوبے کے تحت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلے ان ’’الیکٹبلز‘‘ کو دوبارہ زندہ کیا گیا اور پھر بار بار انہی کے ذریعے حکومتیں بنائی اور بگاڑی گئیں۔ ان پچاس سالوں میں محلّاتی سازشیں اور ڈرائینگ روم سیاست اسی طرح اپنے عروج پر رہی جیسے سید برادران کی سیاست مغل دربار میں تھی۔ ممتاز دولتانہ سے جام صادق اور آصف زرداری تک کتنے نام ہیں جو اس میں مہارت رکھتے تھے، لیکن 17 جولائی کے ضمنی انتخابات نے ایک بار پھر 1970ء کے باون سال بعد وہ تمام برج اُلٹ دیئے ہیں جن پر ان تمام پسِ پردہ قوتوں کا انحصار کیا کرتی تھیں۔ یہی تو وہ چند خاص ’’نمائندے‘‘ تھے جن کو نون لیگ میں ڈالتے تو وہ حکمران بن جاتی اور پیپلز پارٹی میں ڈالتے تو وہ طاقتور ہو جاتی۔ لیکن 17 جولائی کو عوام نے انہیں یوں اُکھاڑ پھینکا جیسے طوفان میں درخت جڑ سے اُکھڑتے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد کو 1970ء کے بعد دوبارہ کھڑا کر لیا گیا تھا، لیکن اب کی بار شاید ناممکن ہو جائے۔ اس دفعہ عوام کے تیور ہی اور ہیں۔