اسلام آباد: (ویب ڈیسک) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ ابتدائی جائزے کے مطابق پاکستان کے وفاقی بجٹ کو مستحکم اور آئی ایم ایف پروگرام کے کلیدی مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کی ترجمان ایستھر پیریز نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے وفاقی
بجٹ کو بغور دیکھ رہے ہیں، بعض محصولات اور اخراجات کی مزید وضاحت کے لیے حکام کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ ترجمان آئی ایم ایف نے کہا کہ ابتدائی جائزے سے لگتا ہے بجٹ کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہوگی، بجٹ کو آئی ایم ایف پروگرام کے کلیدی مقاصد کے مطابق لانے کے لیے بھی اضافی اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف ترجمان کا کہنا تھاکہ فنڈ کا عملہ اس سلسلے میں حکام کی کوششوں اور عمومی طور پر میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینے کی پالیسیوں کے نفاذ میں تعاون کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے، بجلی کی قیمتیں گذشتہ برس بڑھائی گئیں، نوٹیفکیشن اب آیا ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے، رواں سال ترقیاتی بجٹ 550 ارب روپے ہے، اگلے سال کیلئے ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے رکھا گیا ہے، گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 1500 ارب روپے تک بڑھ چکا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا نیشنل بجٹ کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ اس بجٹ کو زیادہ تر سراہا گیا ہے، بجٹ میں بہت ساری چیزیں مجبوراً کرنی پڑتی ہیں، پاکستان کے تمام وزرائے اعظم نے جتنا قرض لیا اس کا 80 فیصد عمران خان نےلیا، جب میں نے یہ کہا تو شوکت ترین نے کہا 80 فیصد نہیں 76 فیصد لیا ہے، عمران خان نے 79 فیصد زیادہ قرض لیا اپنی بات کی بھی درستی کرتا ہوں۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ 1100 ارب روپے اس سال پاور سبسڈی کیلئے دیے گئے، نیپرا کا سسٹم کافی پیچیدہ ہے، ایک گھنٹہ لگا سمجھنے میں کہ کیسے بِلنگ کا سسٹم کام کرتا ہے، پاور سیکٹر کو اگر نہیں سدھاریں گے تو یہ ملکی معیشت کو لے ڈوبے گا۔