کراچی: (ویب ڈیسک) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کا 17 کھرب اور 13 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا، تنخواہوں میں 15 فیصد اور پنشن میں پانچ فیصد اضافہ سمیت پولیس کانسٹیبل کا گریڈ 5 سے بڑھا کر 7 کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سندھ اسمبلی کا اجلاس 50 منٹ تاخیر
سے قائم مقام اسپیکر ریحانہ لغاری کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سندھ حکومت کا بجٹ پیش کررہے ہیں۔ وفاقی کابینہ بجٹ کی پہلے ہی منظوری دے چکی ہے۔وزیراعلیٰ نے بجٹ تقریر میں کہاکہ نئے مالی سال کا بجٹ (اخراجات) 1713 ارب جب کہ آمدنی 1679 ارب ہے، بجٹ میں 33 ارب کا خسارہ ہے، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج دسویں بار سندھ کا بجٹ پیش کررہا ہوں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے یکم جولائی سے تںخواہوں میں 15 فیصد اور پنشن میں 5 فیصد اضافے کا اعلان کیا اور کہا کہ یکم جولائی سے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈہاک الاؤنس بھی الگ سے لگایا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس وقت سندھ میں تمام صوبوں کی بہ نسبت پنشن کا تناسب سب سے زیادہ ہے، اگر کسی اور صوبے میں پنشن میں اضافہ ہوا تو ہم بھی کریں گے۔اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس کانسٹیبل کو گریڈ پانچ سے اپ گریڈ کرتے ہوئے ان کا گریڈ سات کرنے کا بھی اعلان کیا۔وزیراعلیٰ سندھ کی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے شور شرابہ اور نعرے بازی شروع کردی جس پر وزیراعلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسی شور شرابے کے دوران بجٹ تقریر جاری رکھی۔ اپوزیشن کے تقریرکے دوران وزیراعلیٰ کا گھیراؤ کرلیا۔ اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے ساتھ ہی انہوں نے بجٹ نامنظور کے نعرے لگائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ شعبہ صحت کے لیے نئے مالی سال 23-2022ء میں مجموعی بجٹ کا حجم 206.98 ارب روپے رکھا گیا ہے، جو کہ گزشتہ سال مختص کیے گئے 22، 181 ارب روپے کے مقابلے میں 14 فیصد زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی کراچی کو 10 ارب روپے کی گرانٹ فراہم کی جاچکی ہے، پیر عبدالقادر جیلانی انسٹی ٹیوٹ گمبٹ کو 6 ارب روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی ہے، جناح اسپتال کراچی کو کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے روبوٹک سرجیکل سسٹم قائم کرنے کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں 594 ملین روپے فراہم کیے گئے، 125 ملین روپے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز گاما نائف سینٹر ریڈیو سرجری کے ذریعے 500مریضوں کے علاج کے لیے رکھے گئے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ کڈنی سینٹر کراچی کو آئندہ مالی سال میں 200 ملین روپے کی امداد فراہم کی جائے گی، شہید محترمہ بینظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما سینٹر کراچی کو 2.4 بلین روپے مالی امداد دی جائے گی جب کہ اسے مشینری اور آلات کی خریداری کے لیے 500 ملین روپے کی ( ون ٹائم ) اضافی گرانٹ بھی رکھی گئی ہے، سندھ میں تھیلے سیمیا کے مریضوں کے علاج کے لیے 10 تھیلے سیمیا مراکز کی مالی امداد کی مد میں 290 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ریکروٹنگ ایجنٹس کے لیے سیلز ٹیکس میں 5 فیصد کی رعایت آئندہ دو مالی برسوں یعنی جون 2024ء تک برقرار رہے گی تاکہ اس سے بیرون ملک ملازمت کے خواہش مند افراد فائدہ اٹھاسکیں۔کیبل ٹی وی آپریٹرز کی خدمات انجام دینے والوں کے لیے 10 فیصد ٹیکس ہے۔سندھ حکومت کے بجٹ کا حجم 1713 ارب 58 کروڑ روپے ہے جس میں سالانہ مجموعی ترقیاتی پروگرام کے لیے 459 ارب، تعلیم کے لیے 326 ارب روپے اور صحت کے لیے 219 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے لیے 174 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ زراعت کی بہتری پر 24 ارب روپے خرچ ہوں گے اور لوکل گورنمنٹ کے لیے 78.59 ارب روپے مختص ہیں۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کے 459 ارب کے حجم میں سے صوبے کی 4158 اسکیموں کے لیے مقامی وسائل سے 332 ارب روپے خرچ ہوں گے جب کہ 91.14 ارب روپے غیر ملکی فنڈز سے حاصل کیے جائیں گے۔ اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں 30 ارب روپے خرچ ہوں گے اور وفاق سے پی ایس ڈی پی کی میں میں 6.02 ارب روپے ملیں گے۔ آب پاشی کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پانچ ارب روپے مینٹی ننس، 7 کروڑ 70 لاکھ کنال کی صفائی کے لیے، 15 کروڑ کی گرانٹ سے سندھ ایری گیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی قائم ہوگی۔ توانائی کے لیے 33 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کو 26 ارب روپے واجبات کی ادائیگی کی جائے گی۔ بجلی کی ترسیل اور نظام کی بہتری کے لیے ایک ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ 10 کروڑ روپے سندھ کول اتھارٹی کے لیے، 22 کروڑ روپے سولر، پن بجلی منصوبوں، 25 کروڑ روپے اسکولوں کو بجلی پہنچانے کے لیے مختص ہیں۔ امن و امان کیلئے 152 ارب روپے رکھے گئے ہیں، پولیس محکمہ کے لیے 109 ارب، جیل کے لیے 5.5 ارب، فارنزک لیبارٹری کے لیے ایک ارب روپے، سیف سٹی پراجیکٹ کے لیے 5 ارب روپے مختص ہیں اور مختلف اضلاع میں 18 کروڑ کی لاگت سے ویمن پولیس اسٹیشن بنائے جائیں گے۔
بجٹ میں 256 ارب روپے مختلف مد میں سبسڈی کے لیے جب کہ 147 ارب حکومتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے لیے 13 ارب روپے، سماجی بہبود کے لیے 3.83 ارب، ورک اینڈ سروسز کے لیے 99.82 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں 5 کروڑ روپے کی لاگت سے 12 نئی عدالتیں تعمیر ہوں گی۔ صوبے میں پانی پر عائد ٹیکس آمدنی سے 374.50 ارب روپے حاصل ہوں گے جب کہ وفاق سے ٹرانسفر کی مد میں 1055.50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ کے بجٹ میں کراچی کے لیے 24 میگا اسکیمز کی مد میں مجموعی طور پر 10 ارب 82 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، نئے بجٹ میں کراچی کے لیے مزید نئی 6 اسکیمز کا اضافہ کیا گیا ہے جن کے لیے تین ارب مختص ہیں جب کہ کراچی میں پہلے سے ہی 18 میگا اسکیمز پر کام جاری ہے ان میں 11 منصوبے سندھ اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے جاری ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ملیر ایکسپروے منصوبے کے لیے 27 ارب روپے، ماڑی پور ایکسپروے کے لیے 11 ارب روپے، دھابیجی اسپیشل اکنامک زون کے لیے 17 ارب، ایم نائن اور این فائیو لنک روڈ کے لیے 1اعشاریہ 9 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان منصوبوں کو سندھ حکومت پبلک پارٹنر شپ کے تحت پورا کرے گی۔ زراعت کے شعبے میں پیشہ ور خواتین کے لیے بے نظیر ویمن ایگری کلچر ورکر پروگرام سے 50 کروڑ روپے کی معاونت کی جائے گی۔ غریب گھرانوں کو مویشی پالنے پر 50 کروڑ روپے، ماہی گیری کے فروغ پر 50 کروڑ روپے، کسانوں کو کھاد، بیجوں اور زرعی ادویات کی خریداری پر 3 ارب روپے کی سبسڈی دے جائے گی۔
بجٹ میں تخفیف غربت اور سماجی بہبود کے لیے مالی معاونت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ خصوصی افراد کو بااختیار بنانے پر 25 کروڑ روپے، سندھ پیپلز سپورٹ پروگرام کے لیے 15ارب روپے، اولڈ ایج ہومز کی تعمیر نو پر 10 کروڑ روپے، یتیم خانوں کی بہتری پر 10 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ بے نظیر ہاؤسنگ سیل کے تحت مستحق گھرانوں کی رہائشی سہولت کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔آئندہ مالی سال سندھ حکومت باصلاحیت طلبہ کو 1.2 ارب روپے کے وظائف دے گی۔ سندھ حکومت نویں سے بارہویں جماعت تک رجسٹریشن، انرولمنٹ اور سالانہ فیس کی مد میں 2 ارب روپے کی معاونت فراہم کرے گی۔ صحت، زراعت اور تعلیم کے شعبوں کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم مہیا کرنے پر 50 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ایک ارب 20 کروڑ روپے کی پوزیشن ہولڈرز کو اسکالر شپس ملیں گی۔ایک ارب 20 کروڑ روپے کی پوزیشن ہولڈرز کو اسکالر شپس ملیں گی۔ نویں سے بارہویں جماعت کے بچوں کی رجسٹریشن کے لیے دو ارب مختص کیے گئے ہیں۔ سندھ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سندھ کا بجٹ عوامی آراء کی روشنی میں ترتیب دیا گیا، سندھ کے بجٹ کو عوامی امنگوں اور ترجیحات کے مطابق مرتب کرنے پر سٹیزن بجٹ کا عنوان دیا گیا۔ سندھ حکومت کے مطابق سروے میں 18 سال سے لے کر 60 سال سے زائد عمر کے شہریوں کی رائے لی گئی۔ عوامی رائے اور ترجیحات جاننے کے لیے سروے، اشتہارات، ورکشاپس کے ذریعے فیڈ بیک حاصل کیا گیا۔