لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار امر جلیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ہم تو یہ بھی زیر بحث نہیں لا سکتے کہ ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے جڑواں بچے ایک یا ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سیاسی بیان بازی سے لوگ ایک نہیں ہوتے۔ مساوی سلوک سے لوگ ایک ہوتے ہیں اور ایک دوسرےکے
قریب آتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے انیک اسباب ہیں۔ مگر سب سے بڑا سبب ہے بنگالیوں کے ساتھ طاقتور مغربی پاکستان والوں کی افسوسناک عدم مساوات۔ مگر اس موضوع پر بات چیت کرنا، لکھنا، پڑھنا ممنوع ہے۔ اگر آپ نے خلاف ورزی کی تو پھر آپ پر غداری کی تہمت لگ سکتی ہے۔مگر، میں کیوں کڑوی کسیلی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں؟ مجھے ایک عام مرض کے بارے میں بات کرنی تھی ۔ کم یا زیادہ یہ مرض ہم سب کو لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض کو کہتے ہیں، ’’میں کا مرض‘‘۔ اگر بڑھ جائے تو پھر ’’میں کا مرض‘‘ لا علاج ہو جاتا ہےاور جان لیوا ثابت ہوتاہے۔ اس مرض کے جراثیم کا نام ہے Ego ۔اردو میں ایگو کو کہتے ہیں، انا، خودی، عام طور پر انا اور خود ی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ میں بہت ہی کم علم ہوں۔ میں سمجھ نہیں سکتا کہ علامہ اقبال نے کس حوالے سے Ego یعنی انا،خودی کو اسقدر اعلیٰ پذیرائی دی ہے۔ کہتے ہیں:خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے۔۔۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔۔۔دیگر حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی ہمیں گارنٹی دی ہے، یقین دہانی کروائی ہے کہ ملک میں اظہار کی مکمل آزادی ہے۔ کیا کریں کہ حکومتوں کی گارنٹی اور دعوئوں سے یقین اٹھ چکا ہے ۔ ’’خود ی کو کر بلند اتنا‘‘ کی تشریح گلے پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا اس موضوع پر بات نہیں ہو گی۔ بات ہو گی عمران خان کی انا کی ، خود ی کی۔ میں نہیں جانتا کہ علامہ اقبال نے خودی کو کہاں تک بلند کرنے کی بات کی ہے کہ خدا خود فاسٹ بالر سے پوچھے کہ بتا تیری منشا، تیری رضا کیا ہے؟