اسلام آباد(ویب ڈیسک)پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میںحالیہ بڑا اضافہ ہوا تو بہت سے لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ مہنگائی سے حکمران طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اسے تو ہمارے پیسوں سے خریدا گیا ایندھن مفت ہی ملے گا۔کیا یہ دعوی درست ہے؟دوسری جانب پچھلے چند عشروں سے حکمران طبقے نے یہ بیانیہ متعارف کرا رکھا ہے کہ
پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔کیا یہ بات بھی درست ہے؟حقائق دیکھے جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کا دعوی غلط ہے۔سچ یہ ہے کہ عام پاکستانی کھانا کھاتے، کپڑے پہنتے،سفر کرتے اور دن بھر سبھی معمول کی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے کوئی نہ کوئی ٹیکس حکومت کو ادا کرتا ہے۔حقیقتاً پاکستانی عوام کے ٹیکس دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت اپنے کام کر پاتی ہے۔اگر عام پاکستانی ٹیکس چور ہوتا تو حکومت کے لیے چلنا مشکل ہو جاتا۔گویا پاکستانی عوام کی وجہ ہی سے پاکستان قائم ودائم ہے۔گو قوم کو مہنگائی کا بوجھ برداشت کر کے اپنی قربانیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اشیا کی خریدوفروخت اور خدمات (سروسیسز)پر ٹیکس لگاتی ہیں۔مقصد یہ ہے کہ حکومت چلانے کے لیے رقم مل سکے۔ٹیکسوں کی دو بنیادی اقسام ہیں: ڈائرکٹ (Direct) اور ان ڈائرکٹ (Indirect)۔ انکم ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس ڈائرکٹ ٹیکسوں کی نمایاں مثالیں ہیں۔کسٹمز ڈیوٹیاں، سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس ان ڈائرکٹ ٹیکس ہیں۔ کسٹمز ڈیوٹیاں درآمدی سامان پہ لگتی ہیں۔سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں برآمدی مال پہ لگتی ہیں۔سیلز ٹیکس اندرون ملک اشیاکی خریدوفرخت پہ لگایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ اور ٖفلاحی ممالک میں حکومتیں ڈائرکٹ ٹیکسوں سے زیادہ رقم حاصل کرتی ہیں۔بلکہ ان کی 75 فیصد آمدن ڈائرکٹ ٹیکسوں پہ مشتمل ہے۔یہ منصفانہ اور انسان دوست ٹیکس نظام ہے۔وجہ یہ کہ ان ملکوں میں جس شہری کی آمدن جتنی زیادہ ہو، وہ اتنا ہی زیادہ انکم ٹیکس یا کارپوریٹ ٹیکس دیتا ہے۔یوں حکومت امرا سے بیشتر رقم اکھٹی کرتی ہے اور کم آمدن والے شہریوں پر مالی بوجھ نہیں پڑتا۔ان ڈائرکٹ ٹیکس مگر امیر اور غریب کے مابین تمیز نہیں کرتے۔ایک ارب پتی بھی اتنے ہی ڈائرکٹ ٹیکس دے گا جتنے چند ہزار ڈالر ماہانہ کمانے والا غریب
(مغربی معیار زندگی کے لحاظ سے)ادا کرتا ہے۔گویا ان ڈائرکٹ ٹیکس غیر منصفانہ ہیں مگر انھیں لگائے بغیر چارہ بھی نہیں۔تاہم فلاحی ممالک کی حکومتیں انھیں کم سے کم رکھنے کے جتن کرتی ہیں۔ اکستان میں الٹا حساب ہے…یہاں حکومت اپنی 75 فیصد آمدن شہریوں پہ ان ڈائرکٹ ٹیکسوں لگا کرحاصل کرتی ہے۔گویا ہمارا ٹیکس نظام غریب دشمن بلکہ خط ِغربت سے نیچے زندگی گذارتے ہم وطنوں کے لیے ظالمانہ ہے۔ایسے نظام نے اس لیے جنم لیا کہ حکمران طبقہ اور ٹیکس دینے والے امرا( تاجر، کاروباری،صنعت کار وغیرہ)ایک دوسرے پہ اعتماد نہیں کرتے۔حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ امرا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔اور امرا کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی ادا کردہ رقم کا بیشتر حصہ حکمران طبقہ(خصوصاً سیاست دان اور بیوروکریسی)کھا جاتا ہے۔اس ٹسل کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمران طبقے نے بتدریج ان ڈائرکٹ ٹیکس متعارف کرا دئیے تاکہ اپنی آمدن بڑھا سکے۔ قبل ازیں بتایا گیا کہ ان ڈائرکٹ ٹیکس امیر اور غریب میں فرق نہیں کرتے…اس باعث پاکستان میں زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا بوجھ امرا کے بجائے عوام الناس پہ پڑ گیا۔رفتہ رفتہ حکمران طبقہ نوع بہ نوع ان ڈائرکٹ ٹیکس لاگو کرنے لگا مثلاً ودہولڈنگ ٹیکس،ایڈوانسڈ انکم ٹیکس، ایف سی سرچارج، نیلم جہلم سرچارج وغیرہ تاکہ اس کی آمدن بڑھ جائے۔وفاقی سطح کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی ان ڈائرکٹ ٹیکس متعارف کرائے گئے۔یوں پاکستان میں عوام مخالف ٹیکس نظام وجود میں آ گیا۔معنی یہ کہ ایک کلو سبزی یا دال خریدنے پہ بیس پچیس ہزار روپے کمانے والا پاکستانی اتنے ہی ٹیکس ادا کر رہا ہے جتنے ایک ارب پتی شہری ادا کرتا ہے۔ذرا سوچیے، اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر ہمارے حکمران طبقے نے عوام پہ کس قسم کا ظالمانہ ٹیکس نظام تھوپ ڈالا۔ یہ غیر انسانی ٹیکس نظام پاکستان میں مہنگائی بڑھانے کا ایک اہم محرک بھی ہے۔اس امر کو ایک مثال سے سمجھیے۔فرض کیجیے کہ ایک پاکستانی کمپنی نے بیرون ملک سے دس من دال درآمد کی۔
سب سے پہلے ٹرانسپورٹ کا خرچ بل میںلگا۔دال پھر پاکستان داخل ہوئی تو اس پہ کسٹمز ڈیوٹیاں لگ گئیں۔پھر متعلقہ اہل کاروں نے اگر رشوت لی تو وہ بھی دال کی قیمت میں شامل ہو گئی۔پھر ٹرانسپورٹ اور ذخیرہ کرنے کے اخراجات شامل ہوئے۔پھراپنے انکم ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس کا بیشتر حصّہ بھی کمپنی مالک نے دال کی قیمت میں شامل کیا۔دیگر وفاقی اور صوبائی ٹیکس بھی بل کا حصہ بنے۔ان تمام اخراجات کی وجہ سے ایک سو روپے کلو دال کی قیمت دو سو روپے جا پہنچتی ہے۔اس کے بعد ہول سیلر اور دکان دار بھی اپنا منافع ڈالتے ہیں۔یوں خدا خدا کر کے دال عام آدمی تک پہنچے تو وہ اُسے سوا تاڈھائی سو روپے فی کلو ملتی ہے۔یہ ہے ان ڈائرکٹ ٹیکس نظام اختیار کرنے کا عوام دشمن نتیجہ! یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ پاکستان درآمد کی گئی ہر شے ٹیکسوں کے جابرانہ نظام سے گذر کر پاکستانی عوام تک پہنچے تو کئی گنا مہنگی ہو جاتی ہے۔ہر قسم کی مقامی اشیا بھی ٹیکسوں کے کٹر نظام سے گذرنے کے باعث مہنگی ہوتی ہیں۔اکثر ذخیرہ اندوز اس چکر کو مذید گھمبیر بنا ڈالتے ہیں۔وہ ایک شے کا ذخیرہ کر مارکیٹ میں اس کی مقدار کم کر دیتے ہیں۔مقصد یہ کہ وہ زیادہ مہنگی فروخت ہو سکے اور کثیر منافع ان کے حصے میں آئے۔غرض پاکستانی حکمران طبقے کا وضع کردہ ٹیکس نظام وطن عزیز میں مہنگائی بڑھانے کا اہم مجرم ہے۔ہمارے ہاں مہنگائی تین وجوہ کی بنا پہ بڑھتی ہے: اول بہت زیادہ ٹیکس لگنا، دوم بجلی،گیس، پٹرول وڈیزل کی قیمت میں اضافہ اور سوم روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھ جانا۔ سچ یہ ہے کہ ایک عام شہری روٹی کھاتے، کپڑا خریدتے، موبائل پہ کال کرتے، بس یا موٹر سائیکل پر سفر کرتے
،پانی پیتے حتی کہ دوران نیند بھی (پنکھے کی ہوا لیتے)ٹیکس ادا کرتا ہے۔عام آدمی جو بھی خدمات یا شے حاصل کرے، وہ اسے ٹیکس دے کر ہی ملتی ہے۔پھر ہمارے حکمران کس منہ سے دعوی کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم ٹیکس نہیں دیتی ؟جناب والا، حکمران طبقے کو جو مراعات و سہولیات میّسر ہیں اور وہ جس قسم کی پُرآسائش زندگی گذار رہا ہے…یہ سارا تام جھام عوام کے دئیے گئے ٹیکسوں کی رقم ہی سے ممکن ہوتا ہے۔وہ کیسے؟اس کی داستان درج ذیل ہے۔ ہوا یہ کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگاتاکہ حکومتی اخراجات پورے ہو سکیں۔اس نے امیر ممالک خصوصاً امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس وغیرہ سے امداد بھی لی۔یہ امداد یہ کہہ کر لی گئی کہ عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں پہ خرچ ہو گی۔شروع میں قرضوں اور امداد کی رقم سے عوام دوست منصوبے بنے بھی مگر رفتہ رفتہ اس ’’اوپر کی آمدن‘‘ سے حکمران طبقہ پھلنے پھولنے لگا۔اس نے خود کو مراعات یافتہ بنا لیا اور اپنے آپ کو ان گنت سہولیات دے ڈالیں