Categories
منتخب کالم

آصف زرداری کے بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک میں فروخت کرنے کی کیا کہانی ہے ؟ چند اصل اور پرانے حقائق

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار آصف عنایت اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آصف علی زرداری سیاست میں ایک گمنام شخص تھے لیکن بے نظیر سے شادی اور پھر ان کی موت کے بعد انہوں نے از خود سیاست کا تاج اپنے سر پر ایک ایسی وصیت کے ذریعے سجا لیا

جس کے مندرجات کا کسی کو علم ہے اور نہ کسی نے تصدیق گوارا کی۔ آصف زرداری کو شاطر، خود غرض اور بے رحم سیاستدان سمجھا جاتا ہے اور نجی محفلوں میں وہ اس کا اظہار بھی فخر سے کرتے ہیں۔ خود غرض اس لیے کہ ایک ایک کر کے اپنی پارٹی میں سوال اٹھانے والے تمام لیڈران کو باؤنڈری کے پار بٹھا دیا اور چند ایک کے منہ میں رضا ربانی کی طرح چوسنی ڈال کر خاموش کر دیا۔ بے رحم اس لیے کہ جس بی بی کے صدقے اسے اقتدار کے ایوانوں میں کھل کھیلنے کا موقع ملا ان ہی کے مبینہ مجرمان سے اتحاد کر کے حکومت بنا لی۔ اور شاطر اس لیے کہ جہاندیدہ سیاستدانوں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی مرضی کے بر عکس عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ اور اتحادیوں کو اقتدار کی دلدل میں پھنسا کر ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ان محفلوں میں شریک یار لوگ اور خاص طور پر ان کے ایک دوست اور ایک پرائیویٹ ٹی وی نیٹ ورک کے مالک ان کے فقرے یا کہاوتیں ہمیشہ دہراتے ہیں ان کے مطابق ’’اگر کسی دباؤ پر دشمن کو معاف کرنا پڑے تو کر دو لیکن اس کی انصافی کبھی نہ بھولو اور ’’کوہاڑو‘‘ (کلہاڑی) کو مناسب وقت کے لیے ہمیشہ تیار رکھو‘‘۔ آصف علی زرداری سے منسوب دوسرا فقرہ وہ اکثر بتاتے ہیں کہ ’’بلوچ دشمنی اور احسان کبھی نہیں بھول سکتا‘‘۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ بمبینو سینما کی ٹکٹ بلیک کرانے کا کیا معاملہ ہے

تو دروغ بہ گردن راوی ان کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب کبھی کبھی پہلے دوسرے شو کی 25، 25 ٹکٹوں کی تھدیاں اپنے دوستوں کو دے دیتے تھے جسے غالباً وہ بلیک میں بیچ دیتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ حاکم علی زرداری صاحب کی بھی اس طرف توجہ دلائی گئی لیکن انہوں نے درگزر کیا۔جو سلوک نواز شریف نے آصف زرداری اور بے نظیر کے ساتھ کیا اس کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔ ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا چلوں بے نظیر جب بھی آصف زرداری سے ملنے کوٹ لکھپت قید خانے آتیں تو انہیں گاڑی سے اتر کر قید خانے کے اندر جانے کے لیے پندرہ بیس منٹ انتظار کرنا پڑتا اور وہ وہاں موجود ایک درخت کے نیچے پڑے بنچ پر اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ جاتیں۔ سابقہ وزیر اعظم ہونے کے باوجود ان کے لیے مرکزی دروازہ بھی نہ کھولا جاتا اور انہیں چھوٹے گیٹ سے جھک کر جانا پڑتا۔ اگلی ملاقات کے وقت جب ہم وہاں گئے تو جس درخت کے نیچے بی بی بیٹھتی تھیں وہی کٹوا دیا گیا اور بنچ بھی اٹھوا دیا گیا۔ جب نواز شریف حکومت ختم ہوئی تو میں نے اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ سے اس بارے پوچھا تو ان کا دعویٰ تھا کہ یہ درخت جب سے 1965 میں پرزن بنی تب سے تھا اور مجھے بھی اس کو کاٹنے کا حکم اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوانوں سے تھا اس لیے میں اور میرے افسران بے بس تھے۔ پھر ہیلی کاپٹر سے جعلی تصویریں پھنکوانے سے جن جن القابات سے نوازا گیااور مزید جو جو کچھ بے نظیر کے ساتھ مسلم لیگ ن کے ادوار میں ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ پھر آصف زرداری کی گیارہ سالہ قید یاترا بھی مسلم لیگ ن کی مرہون منت تھی۔ مسلم لیگ ن کی پیپلز پارٹی، آصف علی زرداری سے دشمنی کی فہرست بہت طویل ہے ان کو قلم بند کرنے کے لیے پرنٹنگ پریس درکار ہیں۔ لیکن زرداری صاحب نے اسی مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ بھی ملا لیا۔