لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔پُرانے دور کی ایک خوبصورتی یہ بھی تھی کہ تب چور ہوتے تھے، لٹیرے نہیں ہوتے تھے۔لوٹ کی وارداتیں نہیں ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی کہیں چوری ہوجاتی تھی۔چوری کرنا بھی آسان نہیں تھا۔ کئی چور مشکلات سے تنگ آکرچوری کرنے
سے توبہ کرلیتے تھے۔ بس تھوڑی بہت ہیرا پھیری کرتے رہتے تھے۔کبھی کبھی اُن کے اپنے ساتھ بھی ہیراپھیری ہوجاتی تھی۔ ایک چور کہیں چوری کے لئے گیا۔کافی دیر انتظار کرتارہا۔ جب رات گہری ہوگئی تودیوارپھلانگی۔ ایک گھر میں داخل ہو گیا۔ گھر کامالک اکیلاتھا۔ صحن میں گہری نیندسورہا تھا۔ چورنے سر سے پگڑی اُتاری اورزمین پر بچھا کر ایک کمرے کے اندر چلا گیا۔ ارادہ تھا، جو چیز آسانی سے ہاتھ لگے،وہ اُٹھالے اور پگڑی سے گٹھری کا کام لے۔ تھوڑا سامان اُٹھاکرجب آیا تو پگڑی غائب تھی۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ اپنی قمیض اُتاری۔ سامان قمیض کے اُوپر رکھا۔ خود دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ صاحبِ خانہ بدستور گہری نیند میں تھے۔دوسرے کمرے سے سامان اُٹھایا۔ واپس آیا۔ سامان موجودتھاقمیض مگر غائب تھی۔پریشان ہوادھوتی اُتار کر نیچے رکھی اورباقی گھر سے سامان اٹھانے چلا گیا۔ کچھ سامان اُٹھا کر آیا تو صاحبِ خانہ نے یکدم پوری قوت سے پکڑ لیا۔ مضبوطی سے جکڑ لیااورشورمچاناشروع کر دیا ”چور“، ”چور“، ”چور“۔ کپڑوں سے محروم بے بس آدمی نے حیرت سے گھر کے مالک کی طرف دیکھا۔ اپنے بے لباس بدن پرہاتھ پھیرا۔ نہایت معصومیت سے سوال کیا ”ابھی بھی میں چورہوں؟“۔کسی زمانے میں ایک آدمی کے ہاتھ بھاگتے چورکی لنگوٹی لگ گئی تھی۔ اُس آدمی کی خوشی دیدنی تھی۔ یہاں صورتِ حال کچھ ایسی تھی کہ ایک آدمی سو رہا تھا اور تقدیر نے اُس کے دامن میں ایک سالم چوراوراُس کے پورے کپڑے ڈال دیئے تھے۔ ہیرا پھیری کا تو پتہ نہیں۔ چور اپنے کپڑوں سے بہر حال گیاتھا۔صاحبِ خانہ شورمچارہاتھا۔
مسکرا رہاتھا۔چور بیچارہ بس روئے جارہا تھا۔موجودہ نسل کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ چوروں کی جگہ اب لٹیرے لے چکے ہیں۔وہ نہ شور مچاتے ہیں اورنہ ہی شور مچانے کی اجازت دیتے ہیں۔ لٹیروں کو ہیرا پھیری کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔سیدھاسیدھا کام کرتے ہیں۔وادات کی،سارا سامان پار۔ اگر بندہ بک جھک کرے تو بندہ بھی دنیا کے اُس پار۔جہاں گیاکوئی کبھی واپس نہیں آتا۔اگرچہ اُن کے خلاف رپورٹ تو کوئی زندہ بھی نہیں لکھواتا۔کون کھولے ایسا کھاتہ، جس میں ہو گھاٹا ہی گھاٹا۔لوگ تواب اُن چوروں کی یاد میں باقاعدہ روتے ہیں جوراتوں کوجاگتے تھے۔پہلے پہل راتوں کوجاگنے والے صرف چور اور سگ ہوتے تھے۔یہ مگر گئے دنوں کی بات ہے۔ماضی کی کہانی ہے۔اب تو ہرکسی نے یہی ٹھانی ہے کہ راتوں کوجاگنے والے اُلواورکتے کی، اگرمغرب میں عزت ہے توہم کیوں نہ جاگیں۔ سگ خودبھی یہ سمجھتے تھے کہ اُن کی عظمت کی وجہ اُس وقت جاگنا ہے، جب باقی مخلوق خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔سگوں کامقام ہمارے بلھے شاہ کی نظر میں بھی بہت اونچاتھا۔کتے کئی لوگوں کوبھی کاٹ کر بہت سے بھی زیادہ اوپرپہنچادیتے تھے۔اگرچہ اُس دور میں ہسپتالوں کی بہتات نہ تھی۔ اس لیئے بہت سارے لوگ اوپر جانے میں ناکام بھی ہو جاتے تھے۔چوروں کی قسمت ذرازیادہ بُری ہوتی تھی۔ اگرکبھی کتے کسی دیگرضروری کام میں مصروف ہوتے تھے تو چوروں کو مور پڑجاتے تھے۔تب ہمارے ہاں گھر گھر مور رکھنے کارواج تھا۔اب موررکھے نہیں جاتے، بس ”ڈومور“کیااورکروایاجاتا ہے۔پُرانے چوربہت وضع دار ہوتے تھے۔چوری کیلئے جاتے ہوئے بدن پرتیل ملناضروری سمجھتے
تھے۔تیل اورتیل کی دھار دیکھتے رہتے تھے۔ کسی آدمی کا ہاتھ اُن کے بدن پر پڑتاتھاتواُسے اچھا بھی لگتاتھااوربعض اوقات اندھیرے میں یہ گیان بھی حاصل ہو جاتاتھاکہ اس کے اردگرد کوئی چور ہے۔آج کل تو جس کے پاس تیل ہواُس کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔جوکہتاہے وہی کہتاہے۔باقی زمانہ بس سہتاہے۔پہلے نومن تیل کامالک رادھاکونچانے پرمجبور کردیتاتھا۔ آج کل جس کے پاس تیل ہو،اُس کے سامنے ساری دنیا خود بخودناچ رہی ہوتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ بہت سارے لوگوں کے تلوں میں اب تیل نہیں اوراُن کی اتنی عزت بھی نہیں جتنی کسی زمانے میں تیلیوں کی ہوتی تھی۔ پہلے لوگوں کے من میں چورہوتاتھا۔اب یہ بیماری ختم ہوگئی ہے۔ کوئی بھلے چو ر ہو لٹیرا ، اُس کے من میں چور نہیں ہوتا”گٹ مور“ہی ہوتاہے۔ہمارے چوربلند اخلاقی معیار پر فائزہوتے تھے۔اخلاقیات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔جہاں ضرورت محسوس کرتے تھے کوتوال کو ڈانٹ دیتے تھے۔ بھلے کوتوال اُن کو اُلٹا لٹکادیتاتھا،پھر بھی ڈانٹتے رہتے تھے۔اب نہ وہ چور رہے ہیں اور نہ ہی وہ کوتوال۔ گئے زمانے میں چور داڑھی رکھ کر اُس میں تنکاپھنسالیتے تھے تاکہ لوگوں کواُن کی شناخت میں کوئی مشکل درپیش نہ آئے۔آج کل صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ اندازہ ہی نہیں ہوتاکون چور ہے اورکون تھکن سے چُورہے۔غالبؔ تصوف پر عبوررکھتے تھے۔مسائلِ تصو ف بیان کرنے میں کوئی اُن کا ثانی نہیں تھا۔لوگ راہِ سلوک میں اُن کے مقام سے واقف تھے۔ وہ انتہائی عاجزانسان تھے۔نمودونمائش سے پرہیز کرتے تھے۔انہیں ڈر تھا لوگ کہیں انہیں ”ولی“ نہ سمجھنے لگ جائیں۔ اس لیئے
و ہ ”بادہ خوار“بن گئے اورآخری دم تک یہ عادت نہ چھوڑی۔”ولی“ کہلوانامناسب نہ سمجھا۔شاید وہ جانتے تھے کہ کچھ عرصہ بعد یوسفیؔ صاحب فرمائیں گے کہ حالات کے بارے میں اچھی بات کہنے والا انسان ”ولی“ ہے یاحالات کاذمہ دار۔پُرانے دور کے چور بھی اب خود کو ”ولی“سمجھتے ہیں۔لٹیروں کاطرزِ عمل دیکھ چکے لوگ بھی اب چوروں کو”ولی“ سمجھتے ہیں۔پہلے دور اورموجودہ دور میں بہت فرق ہے۔پہلے سو دن چور کے ہوتے تھے اور ایک دن شاہ کا۔ اب ہردن شاہ جی کاہوتا ہے۔ پہلے کام چورکیلئے بھی نوالہ حاضرہوتا تھااب تو بعض اوقات سارے دن کے کام کاج کے بعد نوالہ نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے شاعر بھائی تو بہت عرصہ پہلے ہی محو حیرت تھے کہ دنیاکیاسے کیاہوجائے گی۔ تب بھی اکثر اوقات آنکھ جو کچھ دیکھتی تھی، لب پرلایا نہیں جاسکتاتھاکیونکہ فسادِ خلق کا اندیشہ ہوتاتھا۔کئی لوگ جن کو ”ولی“سمجھاجاتاتھا، وہ خلوت میں لڑکھڑاتے پھرتے تھے۔وجہ سب کو معلوم تھی۔کوئی دیکھ لیتاتھاتواُسے خود کو سنبھالنے کاحکم دیتے تھے۔ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے تھے کہ وہ چوری اور واردات سے گریزکرتے ہیں۔آج کل کے اکثر شرفا خود تو سنبھلے رہتے ہیں، دوسروں کوسنبھلنے کاموقع کبھی نہیں دیتے۔ چوری اور سینہ زوری آج کے دور کا طرۂ امتیاز ہے۔شرفا کااعجازہے۔کھلاراز ہے۔پیسے والا لوگوں کی رائے سے بے نیازہے۔ ہرفعل کامجازہے۔ غریب کے لیئے زندگی فقط تگ وتازہے۔ سکون کالمحہ شاذہے۔ وہ چوری بھی نہیں کرسکتااوراب چُوری بھی نہیں کھاسکتا۔ اتنا مگر گنگناسکتاہے -:تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ۔۔۔ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات۔ (ش س م)