لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار واصف ناگئی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ہوسٹل میں ہمارے زمانے میں ایک خلیفہ جی ہوتے تھے جن کے پاس قدیم زمانے کا بال تراشنے کا ٹین کا بکس، پرانا سا استرا، شیو کرنے کا پراناسا برش،اور پانی گرم رکھنے کے لیےایک کیتلی ہوتی تھی
ہر چیزخلیفہ کی پرانی تھی وہ خود بھی بڑے قدیم تھے، خلیفہ جی ہوسٹل کے تمام بچوں کے بال کاٹتے تھے وہ امرتسر سے آئے تھے اور یہ سامان بھی امرتسر سے اپنے ساتھ ہی لائے تھے۔ امرتسر میں ہمارے دادا مولوی ابراہیم ناگی مرحوم (پنجاب کے پہلے مسلمان جج) اور جی این بٹ (سینٹرل ماڈل اسکول کے نامور ہیڈ ماسٹر) کے بھی بال تراشا کرتے تھے، وہ اسکول کے پہلے تنخواہ دار حجام تھے۔خلیفہ جی اسکول ٹائم کے بعد بھی اکثر ہوسٹل میں پائے جاتے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ سینٹرل ماڈل اسکول کے قریب ریٹی گن روڈاور ٹیپ روڈ کے مکینوں کے بال بھی کاٹتے تھے۔ بڑے سادہ انسان تھے محدود خواہشات اور صرف چند آنے لے کر لوگوں کے بال کاٹتے اور شیو کیا کرتے تھےاور ناخن بھی تراشا کرتے تھے۔ لاہور کے کلچر میں گلیوں محلوں اور بازاروں میں گرم حمام کا بھی بہت چرچا رہا ہے، ہمیں یاد ہے کہ جس نائی کی دکان پر یہ لکھا ہوتا تھا کہ یہاں گرم حمام کی سہولت دستیاب ہے تو وہاں پر رش بہت ہوتا تھا۔ یہ گرم حمام ایک دیسی اسٹائل کا گیزر ہوتا تھاجس کے نیچے لکڑیاں جلا کر پانی گرم کیا جاتا تھا۔ لاہور میں سوئی گیس تو ساٹھ کی دہائی کے بعد آئی اور اندرون لاہور میں تو سوئی گیس کافی بعد میں آئی تھی۔گرم حمام آج بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔ہمیں یاد ہے کہ موہنی روڈ پر گرم حمام پر بھولوبرادران اکثر آیا کرتے تھے۔ اور ہم بھی اسی نائی کی دکان پر بال کٹوانے
جاتے تھے۔ ایک مرتبہ بھولو ہمارے سامنے نائی کی دکان سے باہر آتے ہوئے گر پڑے تو نائی کی دکان کا تھڑا بھی توڑ ڈالا۔ یعنی اتنا وزن تھا جب بھولو برادران میں سے کوئی بھی پہلوان گرم حمام پر آتا تو نائی دوسرے گاہکوں کو چھوڑ کر ان پہلوانوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر دیتا تھا۔ اور ایک ہی استرے قینچی بلیڈ اور کنگھی سے سب کے بال کاٹے جاتے تھے، کوئی تصور نہیں تھا کہ ان اوزادوں کو جراثیم سے پاک بھی کرنا ہے صحت مند لوگ تھے انفیکشن کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اتوار کو تو لاہور کے کسی گرم حمام میں آپ کو نہانے یا بال کٹوانے کی جگہ ملنا کسی بڑے انعام سے کم نہ تھا،ان نائیوں کی دکانوں پر بعض لوگ صرف نہانے اور مالش کرانے کے لیےآتے تھے۔ آج اس شہر کا یہ کلچر تبدیل ہوگیا ہے، اب ہیئر سیلون بن چکے ہیں۔ بعض لوگ تو قینچی، استرا بلیڈ اور کنگھی کا اپنا ڈبہ لے کر جاتے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے شہر کے حجام آج بھی آپ کو لاہور شہر کی بعض سڑکوں پر بال کاٹتے ہوئے نظر آئیں گے، اس شہر میں ایک اور بڑی خوبصورت روایت تھی کہ شہر کے بعض سڑکوں کے کنارے پانی کے کئی مٹکے رکھے ہوتے تھے جہاں سے لوگ پانی پیا کرتے تھے۔ ان مٹکوں میں ماشکی دن میں دو تین مرتبہ پانی بھرا کرتا تھا۔لاہور شہر کے کئی محلوں بازاروں اور گلیوں میں ماشکی شام کو پانیکا چھڑ کاؤ کیا کرتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ
لاہور کی ریٹی گن روڈ، ٹیپ روڈ، لاہور روڈ اور گورنمنٹ کالج کے قریبی علاقوں میں کارپوریشن کی لوہے کی بڑی بھاری پانی والی بیل گاڑیاں پانی کا چھڑکاؤ کرنے آتی تھیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سامنے بڑا اونچا پانی کا نل لگاہوا تھا جس میں ہر وقت پانی آتا رہتا تھا۔ کارپوریشن کی گاڑیاں بھی یہاں سے پانی بھر کر شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کا چھڑکاؤ کرنے جاتی تھیں۔ ہائے کیا شہر تھا ہم نے اس خوبصورت شہر کو لوہے اور سریےکا شہر بنا دیا کیونکہ اس شہر کے کئی ایسے حاکمانِ وقت آئے جن کا کاروبار ہی لوہے اور سریے کا تھا۔ باغوں کے شہر کو اورنج ٹرین اور میٹرو بس دی گئی۔ سینٹرل ماڈل اسکول کے علاوہ ایچیسن کالج کے اندر بھی باقاعدہ حجام کی دکان ہے۔ جو آج بھی موجود ہے۔ ایچیسن کالج میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر اسکول کے کسی بچے کے بال لمبے ہوں تو اسکول کے گراؤنڈ میں اسکول ٹائم میں اس کے بال کاٹ دیئے جاتے تھے۔ یہ روایت اب ہے یا نہیں اس کا ہمیں علم نہیں کیونکہ اب اس اسکول میں دوبارہ گورا راج قائم کر دیا گیا ہے۔ایک گورے کو پرنسپل بنا دیا گیا ہے جو انگریز دور کی روایات کو دوبارہ لا رہا ہے، اس گورے پرنسپل سے ملنا آسان نہیں۔دوسری طرف ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم پاکستانی ایچیسن کالج کو نہیں چلا سکتے۔ کئی حکومتوں نے آکر دعوے کئے کہ ایچیسن کالج کو ختم کرکے عوام کیلئے تعلیمی ادارہ بنایا جائے گا۔ ابھی تو اس کے ایک سابق پرنسپل اسٹیٹ گیٹ ہاؤس میں لڑکیوں کا ایچیسن کالج بنا رہے تھے۔یہ منصوبہ پتہ نہیں کیوں بند کر دیا گیا۔ شہباز شریف نے دعوے کیےتھے کہ دانش اسکولز ایچیسن کالج کامقابلہ کریں گے مگر یہ نہ ہو سکا۔گورنمنٹ سینٹرل ماڈل سکول کو اس کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلوانے کے لیے اگرچہ کچھ اولڈ سٹوڈنٹس نے کوششیں بھی کی تھیں مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے