لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نواز رضا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔2018کے انتخابات میں جہاں جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ کے شہری علاقوں میں پی ٹی آئی کو اچھی خاصی نشستوں کا ’’تحفہ‘‘دیا گیا تھا، اب وہاں صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی
میں جانے والے مسلم لیگی اپنی جماعت میں واپس آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے ان 23الیکٹ ایبلز کو بھی پارٹی ٹکٹ دینے کا اصولی فیصلہ کر رکھا ہے جنہوں نے عمران خان کی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اسی طرح اگر کے پی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گئی تو پی ٹی آئی کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔آصف علی زرداری نے زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر جہاں پنجاب کی گورنری مانگ رکھی ہے وہاں انہوں نے پنجاب کی قومی اسمبلی کی 10نشستوں پر مسلم لیگ (ن) سے اپنے امیدوار نہ کھڑا کرنے کی استدعا کی ہے، ملکی سیاست میں آئندہ مل کر چلنے کے لیے نواز شریف کو ’’میثاقِ جمہوریت2‘‘ پر دستخط کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے۔ شنید ہے کہ اس معاہدہ کی تیاری شروع کر دی گئی ہے۔ آصف علی زرداری کی خواہش ہے کہ مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما ئےاسلام کے درمیان انتخابی اتحاد ہو جائے تو باآسانی انتخابی معرکہ مار لیں گی۔ دوسری طرف عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ’’امریکہ مخالف‘‘ بیانیے کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے لہٰذا اس وقت عام انتخابات کرانے کا سب سے بہترین وقت ہے جبکہ دوسری طرف کل تک کی اپوزیشن جماعتیں جو اب حکومت میں بیٹھی ہیں، مناسب وقت پر انتخابات کرانے کی بات کر رہی ہیں۔ اگلے سال انتخابات کرانے کا سب سے بڑا جواز مردم شماری کا ہے جو دسمبر 2022سے قبل مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنے اور نومبر 2022میں اپنی مرضی کی عسکری قیادت کی تقرری کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ سابق وفاقی داخلہ شیخ رشید احمد یہ بات برملا کہہ رہے ہیں کہ مئی کے آخر میں پی ٹی آئی عام انتخابات کرانے کا مطالبہ تسلیم نہ کرا سکی تو اس کی سیاست تبا ہ و برباد ہو جائے گی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اداروں کے ساتھ لڑائی نہیں چاہتے، اگر لڑائی ہو گئی تو وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کی سیاست لپیٹ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ ملکی سیاست میں عمران خان کا کردار ان کے طرز عمل سے وابستہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی مستقبل قریب میں ملکی سیاست میں اپنے مقام کے حصول کے لیے تصادم کی پالیسی اختیار کرتی ہے یا قدم قدم پر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی اور ماضی قریب کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہے، یہی دو باتیں سابقہ حکمران جماعت کے ملکی سیاست میں مقام کا تعین کریں گی۔