لاہور: (ویب ڈیسک) لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان لکھتے ہیں کہ” جب سے عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد ختم ہوئی ہے،پاکستانی عوام کو گویا ایک نیا سیاسی بیانیہ ہاتھ آ گیا ہے جس کا دارو مدار یا روحِ رواں غلام پاکستان یا آزاد پاکستان کا سلوگن ہے۔کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک اور نیا سلوگن ملنے والا ہے جس میں تین الفاظ یعنی ”غلام پاکستان نامنظور“ ٹیپ کا مصرعہ ہوں گے۔……امیدیں باندھی جا رہی ہیں کہ یہ نعرہ بڑے پیمانے پر قبولِ عام پائے گا۔
1947ء میں جو آزاد پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا وہ حضرت قائداعظمؒ کی جدوجہد کا ثمر تھا اور ان سے بھی پہلے جس شخص نے ایک آزاد پاکستان کا تصور مسلمانانِ ہند کو دیا وہ حضرت علامہ اقبالؒ کی ذاتِ گرامی تھی۔انہوں نے غلامی اور آزادی کے فرق کو درجنوں مثالوں سے واضح کیا۔لیکن ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگایا کہ جب تک ”ذوقِ یقیں“ پیدا نہ ہو غلامی کی زنجیریں نہ کوئی شمشیر کاٹ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تدبیر کارگر ہوتی ہے۔ گویا شمشیر و تدبیر سے زیادہ طاقتور چیز وہ ذوقِ یقیں ہے جو نگاہِ مردِ مومن کا محتاج ہوتا ہے! کلامِ اقبال میں ایک اور جگہ غلامی اور آزادی میں فرق کی جو تفسیر کی گئی ہے وہ بھی حد درجہ لائق ِ توجہ ہے۔فرماتے ہیں: غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی۔ جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا۔ بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر ۔ کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ سے بینا! درج بالا دو اشعار کی تشریح کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ دورِ اقبال کے مسلمان ایک تو ذوقِ حسن سے محروم تھے اور دوسرے ان کی عقل و خرد پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا تھا! اقبال نے یہ الزام بہت سوچ سمجھ کر لگایا ہو گا۔ہندوستان کے مسلمانوں کو غلامی اور آزادی کا مفہوم سمجھانے سے پہلے ان کو ہر دو الفاظ کا ”فلسفہ“ سمجھانا پڑا ہو گا۔اسی لئے اقبال کو شاعرِ امید بھی کہا جاتا ہے۔وہ اللہ کی رحمت سے نومید ہونے کو علم و عرفاں کا زوال خیال کرتے تھے۔فرماتے ہیں:
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے۔ امیدِ مردِ مومن ہے خداکے راز دانوں میں ۔ وہ تو موسمِ خزاں میں بھی درخت کی شاخ کو درخت سے الگ رہنے کا نہیں اس سے پیوستہ رہ کر امیدِ بہار رکھنے کا درس دیتے تھے۔وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کے فلسفے کو ہزار انداز سے بیان کرتے ہیں۔مثلا عید کا چاند ہم بھی دیکھتے ہیں اور اقبال نے بھی کئی برس تک دیکھا۔کلیاتِ اقبال اردو اور پھر کلیاتِ اقبال فارسی میں ان کی دو مشہور نظمیں ”ہلالِ عید“ کے عنوان سے موجود ہیں۔اردو والی نظم تو سراپا فریاد ہے۔ہلالِ عید سے مخاطب ہو کر اُمت مسلمہ کے اس دور کو یاد کرتے ہیں جو اُس امت کا زریں دور کہلاتا تھا۔یہ نظم ایک قسم کا مرثیہ ہے۔اس کا ایک شعر ہے: دیکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر۔ اے تہی ساغر، ہماری آج ناداری بھی دیکھ ۔”تہی ساغر“ کی یہ ترکیب تھوڑی سی وضاحت چاہتی ہے۔ پہلی تاریخ کے چاند کو دیکھیں تو اس کا پیالہ خالی نظر آتا ہے۔ ایک باریک سی روشن لکیر کرہئ ماہتاب کے نصف حصے کو محیط ہوتی ہے اور اس کے علاوہ دوسرا سارا چاند اندر سے خالی ہوتا ہے جو گویا ایک خالی کشکول ہے۔ لیکن جب اقبال کی فکر مزید آگے بڑھتی ہے تو ہلالِ عید کے خالی کشکول کی تعبیر و تشریح بھی بدل جاتی ہے اور وہ فرماتے ہیں:”اے ہلالِ عید! کیا تو اس لئے بہت جلد افق سے غائب ہو جاتا ہے کہ تمہیں اپنے ”تہی ساغر“ ہونے کا غم ہے؟…… ایسا نہ سوچ اور اپنی تہی دامنی کا افسوس نہ کر۔تمہاری دید کے لئے تو کروڑوں مسلمانوں کی نگاہیں افق پر مرکوز ہوتی ہیں۔ اور ذرا اپنے اندر جھانک! تمہارے سینے میں تو پورا چاند رکھا ہوا ہے!“مسلم کونسل آف امر یکہ نے پاکستان اور امر یکہ کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے مہم شروع کر نے کا اعلان کر دیافارسی کے یہ دو اشعار بھی دیکھ لیجئے:نتواں ز چشمِ شوق رمید اے ہلالِ عید۔ دو صد نگاہ براہِ تو دامے نہادہ اند۔ برخود نظر کشا ز تہی دامنی مرنج۔ در سینہئ تو ماہِ تمامے نہادہ اند ۔۔ہلالِ عید کی یہ تلمیح کیا غضب کی تلمیح اور تشبیہ ہے! آپ نے دیکھا ہو گا کہ پہلی تاریخ کے چاند کے خالی دائرے میں بھی ایک ایسا گول چاند رکھا نظر آتا ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا…… مطلب یہ ہے کہ اقبال تہی دامنی میں بھی پُر دامنی کا پہلو دیکھ لیتے ہیں۔یہی وہ دامن ِ امید تھا جس کو اقبال نے اپنی شاعری کا مرکز و محور بنایا۔یہ معمولی اور مختصر سا کالم مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اقبال کے کلام میں غلامی سے حقارت اور آزادی سے محبت کا جو طوفانی فرق ملتا ہے اسے مزید واضح کروں۔جو قارئین اس ضمن میں مزید معلومات کے خواہاں ہوں وہ ان کی ایک طویل نظم ”بندگی نامہ“ دیکھ لیں۔یہ نظم ان کی فارسی شاعری کی ایک تصنیف ”زبورِ عجم“ کے آخر میں درج ہے۔اس نظم میں غلامی اور آزادی کی جو تشریحات کی گئی ہیں وہ لاجواب ہیں۔اس کے دو اشعار یہ ہیں: عمران خان کے حوالے سے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید پر شاہد آفریدی بھی میدان میں آگئے۔ دین و دانش را غلام ارزاں دہد۔۔ تا بدن را زندہ دارد، جاں دہد۔۔ گرچہ برلب ہائے او نامِ خدا است۔ قبلہئ او طاقتِ فرمانروا است۔۔ اس نظم کا ذیلی عنوان مذہب ِ غلاماں ہے۔ اس کے کل39 اشعار ہیں۔ درجِ بالا دو اشعار کا ترجمہ یہ ہے: ”غلام اپنی دین و دانش کو بہت سستا بیچ دیتا ہے اور بدن کو زندہ رکھنے کے لئے روح کو فروخت کر دیتا ہے۔اگرچہ اس کے ہونٹوں پر خدا کا نام ہوتا ہے لیکن اس کا قبلہ و کعبہ ایک زمینی فرمانروا کی طاقت ہوتی ہے“۔
پی ٹی آئی کے کسی رکن کی نگاہوں سے اگر یہ سطور گزریں تو ان کو چاہئے کہ وہ اس ساری نظم کا اردو (یا انگریزی) ترجمہ کروا کے عمران خان کی خدمت میں پیش کریں۔یہ نظم اگرچہ اقبال نے ایک صدی پہلے کہی تھی لیکن یہ آج بھی عین مین ”غلام پاکستان نامنظور“ کے سلوگن کی تعبیر ہے۔…… میں کوشش کروں گا کہ ان39اشعار کا اُردو ترجمہ اپنے کسی آئندہ کالم میں قارئین کے سامنے رکھوں۔…… اقبال نے جس شد و مد سے غلامی کی تکذیب اور آزادی کی تعریف کی تھی اس کا اثر شاید دورِ اقبال میں اقبال کو کم کم نظر آیا تھا۔شائد اسی لئے کہا تھا: جو شخص حق کی حمایت میں لڑنا چاہتا ہے اور تھوڑے دن زندہ بھی رہنا چاہتا ہے تو اسے سیاسی زندگی سے الگ ہی رہنا چاہیے۔ یا رب مجھے اس دیس میں پیدا کیا تو نے۔ جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند ۔۔اس دیس کے بندے آج بھی غلامی پہ رضا مند ہیں اور ہم دیکھ رہے کہ پاکستان، طاقتِ فرمانروا کے سامنے خمیدہ کمر ہے۔اللہ ہم سب کو غیروں کے بندِ غلامی سے نجات دے۔اقبال کی وفات کے تقریباً نو سال بعد پاکستان کو برطانوی غلامی سے تو آزادی مل گئی تھی۔لیکن اس کے بعد حقیقی آزادی کی منزل جو ہم نے اپنی قوت سے حاصل کرنی تھی،وہ نہ کر سکے۔ ہمارے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے،22کروڑ کی آبادی ہے، ڈیڑھ دو سو جوہری وار ہیڈز ہیں، ہماری ٹوپو گرافی بوقلموں ہے۔ صحرا، سمندر، جھیلیں، سبزہ زار، برف زار اور گل و گلزار اللہ نے عطا کررکھے ہیں۔موسموں کا حال دیکھیں تو سرما،گرما، بہار، خزاں اور برسات ہمارے سامنے گویا بچھے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر،سپورٹس مین، سائنس دان،ادیب، شاعر،مصور، سنگ تراش اور انجینئر سب کے سب موجود ہیں۔یونیورسٹیاں، کالج، سکول اور مدرسے ہیں۔ آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے جو ماشاء اللہ ایک سے ایک بڑھ کر زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نام منوا رہی ہیں۔لیکن ہماری پارلیمان، عدلیہ اور فوجی ادارے معرضِ تنقید میں ہیں …… ایسا نہیں ہونا چاہئے۔عمران خان جس جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں اس کو بہت جلد تشکیل دے کر اس کے نتائج کی روشنی میں اپنا مستقبل کا کورس چارٹر کرنا چاہئے اور یہ گو مگو کی کیفیت ختم ہونی چاہئے۔آزاد اقوام کی صف میں شامل ہونے کے اگر سارے قرینے موجود ہوں تو اس بحرِ ذخّار میں ”چھال“ مار دینی چاہئے۔ ہمیں ساحل پر کھڑے ہو کرگرداب سے نہیں ڈرنا چاہئے: میارا بزم بر ساحل کہ آں جا۔ نوائے زندگانی نرم خیز است۔ بہ دریا غلت و با موجش در آویز۔ حیاتِ جاوداں اندر ستیز است (ترجمہ:ساحل پر کھڑے ہو کر محفل نہیں سجانی چاہئے کہ وہاں زندگی آہستہ رو ہوتی ہے۔دریا میں چھلانگ لگا اور موجوں سے ہاتھا پائی کر کیونکہ حیاتِ جاودانی کشمکش اور جدوجہد میں ہے۔)