کم انگ یونگ ‘ایک ساؤتھ کورین بچہ تھا۔وہ 1963میں سیول میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی عمر صرف تین سال تھی تو وہ با آسانی انگریزی، کورین ، جرمن اور جاپانی زبان میں لکھی کہانیاں پڑھ سکتا تھا۔ اس کی ہر حرکت حکمت اور دانائی سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔ اس کے ماں باپ نے اس کا آئی کیو ٹیسٹ دلوایا۔ٹیسٹ کے دوران اس کی عمر صرف دو برس تھی۔ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو اس کا آئی کیو دوسو دس سے زیادہ تھا۔
بڑے بڑے جینیس کا آئی کیو اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔ جب وہ آٹھ سال کا ہوا تو اس کے والدین نے ’ناسا ‘ کی درخواست پر اپنے بیٹے کو ناسا میں کام کرنے بھیج دیا۔وہ آٹھ سال کی عمر میں ایکویشنز حل کر سکتا تھا۔ اس نے ناسا میں کافی عرصے کام کیا۔ وہ جب آٹھ سال کا تھا تو کہتا تھا کہ میں پورا دن ایکویشنز حل کرتا ہوں اور کھاتا پیتا اور سوتا ہوں بس۔ لیکن میں بہت تنہا محسوس کرتا ہوں۔اس نے دنیا کو اپنی عقل سے بہت متاثر کیا۔ کچھ عرصے وہ امریکہ میں رہائش پزیر رہا اور پھر ساؤتھ کوریا لوٹ گیا۔ ساؤتھ کوریا واپس جا کر اس نے سول انجینئرنگ میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ وہ جب صرف چھ ماہ کا تھا تو وہ بولنا سیکھ گیا تھا ۔ اس کی عمر صرف آٹھ ماہ تھی جب اس کو الجبرا سمجھ آنے لگ گیا تھا۔ وہ صرف چار سال کی عمر میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے لگا تھا اور جب وہ صرف پندرہ سال کا تھا تو وہ اپنی پوری تعلیم مکمل کر چکا تھا۔ چار سال اس نے ناسا کے ساتھ امریکہ میں کام کیا اور اس میں اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو مزید چمکا لیا مگر اس کے بعد اس کو تنہائی سے وحشت ہونے لگی اور سولہ سال کی عمر میں وہ سب کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ساؤتھ کوریا اپنے گھر لوٹ گیا۔ اس کی واپسی پر لوگوں نے بہت تنقید کی اور اس کو ایک ’ناقص جینیس‘ کہہ کر بلانے لگے۔
اس نے اپنے گھر رہنے کو ترجیح دی اور ساؤتھ کوریا کی ایک لوکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔2014 میں وہ شن ہن یونیورسٹی کا اسوسی ایٹ پروفیسر بن گیا اور ڈویلپ منٹ ریسرچ سنٹر کا وائس صدر بن گیا۔آج وہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ خاص ہونا اہم نہیں ہوتا بلکہ اتنا قابل رشک ہونے کے باوجود اس کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کو رشتوں اور دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے اور عام آدمی کی زندگی گزارنا اس کی حسرت تھی۔ جس کے پاس جس چیز کی کمی ہو، فطری بات ہے کہ وہ اسی کو مانگتا ہے۔