Categories
عید اسپیشل

پاکستان میں گاڑی والا ٹریفک والے کے پاس چل کر کیوں جاتا ہے؟

ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والوں کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ یہی قانون کی ضمانت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو قانون ہی ختم ہوجائے۔ اسی لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ اپنی ذات میں خود مکمل قانون ہوتے ہیں۔ کالے کوٹ والے اکثر اسی بات پر کالی وردی والوں سے خاص کر الجھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب انہیں یہ بات کون سمجھائے کہ قانون کو قانون نہیں پڑھایا جاسکتا۔ اگر قانون ہی پڑھنا ہوتا تو

وہ کالاکوٹ نہ پہن لیتے۔ہر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اپنے اپنے فرائض ہیں لیکن یہ لوگ اپنے فرائض سے بڑھ کر کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں یہ لوگ کھڑے ہوں وہیں یہ قانون سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وردی کسی بھی رنگ کی ہو لیکن اگر سڑک پر ہاتھ دے دیں تو ٹریفک رْک جاتی ہے کیونکہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اختیار ہے کہ یہ آپ کی جامہ تلاشی سے لے کر شناختی کارڈ تک سب کچھ چیک کرسکتے ہیں۔ اگر آپ گاڑی پر ہیں تو گاڑی کے کاغذات سے لے کر لائسنس تک ہر چیز طلب کرسکتے ہیں۔ لیکن آپ کے پاس سوال کرنے کا حق نہیں ہے ۔انہیں یہ عادت ہوتی ہے کہ یہ کسی سوال کا جواب نہیں دیتے،

کیونکہ سوال کا جواب دینا یہ اپنی توہین سمجھتے ہیں اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ قانون کبھی توہین برداشت نہیں کرتا۔ اگر یہ سڑک سے گزر رہے ہیں تو عوام کا فرض ہے کہ وہ ان کو راستہ دیں کیونکہ قانون ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر آپ نے ان کو راستہ دینے میں تاخیر کی تو آپ قانون کے راستہ میں رکاوٹ سمجھے جاسکتے ہیں اور قانون اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانا جانتا ہے۔پاکستان سے باہر ٹریفک پولیس والے گاڑی سے اتر کر گاڑی والے کے پاس جاتے ہیں اور پھر ہاتھ ملا کر چالان کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں چونکہ قانون نافذ کرنے والوں کا بے حد احترام پایا جاتا ہے، اسی لیے عوام خود اتر کر ان کے پاس جاتے ہیں اور ہاتھ گرم کرکے چالان نہ کرنے کی اپیل کرتے ہیں، جو اکثر رحم دل قانون نافذ کرنے والے موقع پر ہی منظور کرکے قانون کو مزید الجھنوں سے بچا لیتے ہیں۔

یوں معاملات موقع پر ہی رفع دفع کرلئے جاتے ہیں۔ کالی وردی والے اکثر سڑک کے کنارے اندھیرے میں کھڑے ہوکر جرم کی تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور ہر آتے جاتے کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ مجرم کون ہے۔ مجرم ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے لیکن یہ مجرم کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔ انہیں عوام سے شکایت ہے کہ وہ ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ اگر وہ بھی تعاون کریں تو معاملات تھانہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم کئے جاسکتے ہیں۔آج کل بیریئر آپ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے باہر دکھائی دیں گے۔ س سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر خطرات لاحق ہیں تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہیں، جن کو سیکورٹی کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں۔دہشت گردی کی جنگ میں قانون نافذ کرنے والوں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ انہوں نے کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینے دیا، کیونکہ قانون کو اپنے ہاتھ میں رکھنا صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے اسی لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے تاکہ قانون بھٹکنے نہ پائے۔