Categories
اسپیشل سٹوریز

پی ٹی آئی کو عمران خان کی ’کردار کشی‘ کا خطرہ!!! ڈیپ فیک کا ذکر کیوں کیا گیا؟؟ ڈیپ فیک کیا ہیں اور کیسے بنتے ہیں ؟ تہلکہ خیز انکشافات منظر عام پر

لاہور: (ویب ڈیسک) عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی ’کردار کشی‘ کی ایک نئی مہم تیار کی جا رہی ہے جس کے لیے مبینہ طور پر ’ویڈیوز اور جعلی آڈیوز‘ کا استعمال کیا جائے گا۔ اُنھوں نے یہ دعویٰ اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کیا۔

واضح رہے کہ چند دن قبل عمران خان خود بھی یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ عید کے بعد اُن کی کردار کشی کی جائے گی۔ عمران خان اور فواد چوہدری کے بیانات کے بعد سے پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ یہ مبینہ ویڈیوز اور آڈیوز جعلی ہوں گی جنھیں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے اس پیشگی دعوے سے قطع نظر فی الوقت یہ معلوم نہیں ہے کہ مبینہ ویڈیوز اور آڈیوز وجود رکھتی ہیں یا نہیں اور اگر ہاں تو کیا یہ واقعی جعلی ہیں جیسا کہ پی ٹی آئی دعویٰ کر رہی ہے۔ آئیں جانتے ہیں کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے اور اس کے ذریعے جعلی معلومات کس طرح پھیلائی جا سکتی ہیں اور آپ ڈیپ فیک اور حقیقی مواد میں کیسے فرق کر سکتے ہیں؟ ڈیپ فیک کیا ہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ جب انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے بہت زیادہ واقفیت نہ رکھنے والے لوگوں کو فوٹوشاپ کے ذریعے تصاویر میں معمولی ردوبدل کر کے دھوکہ دینا بہت آسان ہوا کرتا تھا۔ ایسی چیزیں اب بھی عام ہیں لیکن تصویر یا ویڈیو غور سے دیکھنے پر ان کے جعلی ہونے کو پکڑنا بہت مشکل نہیں ہوتا۔ تاہم ڈیپ فیک تصاویر اور ویڈیوز کسی انسان کے ہاتھ کی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کمپیوٹر تیار کرتا ہے۔ ڈیپ فیک تیار کرنے والے سافٹ ویئرز میں جتنی زیادہ معلومات اِن پٹ کی جائیں گی ان کا نتیجہ حقیقت سے اتنا ہی قریب تر ہو گا۔ تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک اس ٹیکنالوجی میں فیک یعنی جعلی کا لفظ استعمال نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ کئی کمپنیاں اس کا کمرشل استعمال بھی کر رہی ہیں مثلاً خبریں پڑھنے میں، اپنے ملازمین کو مختلف زبانوں میں ٹریننگز دلوانے کے لیے وغیرہ۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی ہی کیا جس کا غلط استعمال نہ ہو۔ اب مشہور شخصیات کو ڈیپ فیک کے ذریعے پورن فلموں میں اداکار بنا دیا جاتا ہے یا پھر سیاست دانوں سے اشتعال انگیز اور گمراہ کن بیانات پھیلا دیے جاتے ہیں۔ جتنی دیر میں کوئی ان کے جعلی ہونے کا پتا لگاتا ہے تب تک خاصا نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ ڈیپ فیک کیسے بنائے جاتے ہیں؟ اس قسم کی ویڈیوز بنانے کے لیے عام طور پر ایک مخصوص سافٹ ویئر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ لوگوں کی عام تصاویر کو جنسی نوعیت دے دینا کوئی نئی بات نہیں لیکن پھر بھی کسی فوٹو ایڈیٹنگ سافٹ ویئر کے ذریعے ایسا کرنا مشکل اور محنت طلب ہوتا اور غور سے دیکھنے پر کہیں نہ کہیں جعلی تصویر پکڑی جاتی۔ ویڈیوز کے لیے تو یہ کام اور بھی زیادہ مشکل تھا۔ تاہم ڈیپ فیک میں آسانی یہ ہے کہ آپ نے کمپیوٹر سافٹ ویئر کو بہت سی معلومات فراہم کرنی ہوتی ہیں، مثلاً کہ آپ کا ہدف دکھتا کیسا ہے، بولتا کیسے ہے، بولتے وقت اس کی حرکات و سکنات کیسی ہوتی ہیں، وہ کس طرح کی صورتحال میں کیا ردِ عمل دیتا ہے، وغیرہ۔ بس اس کے بعد کمپیوٹر آپ کی فراہم کردہ ویڈیو پر آپ کے ہدف کی شکل چسپاں کرنے کا کام شروع کرے گا اور اس کے لیے یہ آپ کی فراہم کردہ ان تمام معلومات کا بھرپور استعمال کرے گا۔ نتیجتاً جو ویڈیو سامنے آئے گی وہ حقیقت سے نہایت قریب تر ہو گی۔

جنوبی کوریا کے ایک ٹی وی چینل نے نیوز کاسٹر کا ڈیپ فیک ورژن پیش کیا اور کئی لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ حقیقت سے کتنا قریب ہے ڈیپ فیک بنانے والے سافٹ ویئرز کا انحصار مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر ہوتا ہے اور کئی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ڈیپ فیک اور حقیقی ویڈیو میں فرق کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے پروفیسر ہاؤ لی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم اس نقطے پر پہنچ چکے ہیں جہاں آپ ڈیپ فیک اور حقیقت میں فرق نہیں بتا سکتے۔‘ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہیں؟ رواں سال فروری میں شروع ہونے والی روس یوکرین جنگ اپنے خاتمے سے ابھی دور دکھائی دیتی ہے تاہم مارچ میں ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری ہوئی تھی جس میں ‘روسی صدر’ امن کا اعلان اور ‘یوکرینی صدر’ ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے یہ ویڈیوز فوراً ہی ہٹا دی گئیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ ایسا اس لیے ممکن ہوا کیونکہ ان ویڈیوز میں اتنی نفاست تھی ہی نہیں چنانچہ انھیں جعلی ویڈیو کے طور پر شناخت کر لینا کافی آسان تھا۔ ڈیپ فیکس نامی کتاب کی مصنفہ نینا شِک کہتی ہیں کہ ‘بھلے ہی یہ ویڈیو بہت بری بنی ہوئی تھی مگر مستقبل قریب میں معاملہ ایسا نہیں رہے گا۔’ اُنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ‘قابلِ بھروسہ میڈیا سے بھی لوگوں کا بھروسہ اٹھے گا’ کیونکہ ‘لوگ یہ ماننے لگیں گے کہ ہر چیز جعلی بنائی جا سکتی ہے۔’ ڈیپ فیک کمیونٹیز میں سب سے زیادہ مشہور اداکارہ ایما واٹسن اور نیٹلی پورٹمین کی جعلی ویڈیوز ہیں۔ لیکن مشل اوباما، ایوانکا ٹرمپ اور کیٹ مڈلٹن کی ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں۔ اداکارہ گیل گڈوٹ، جنھوں نے ونڈر وومن کا کردار ادا کیا تھا، ان پر اس ٹیکنالوجی کا سب سے پہلے استعمال کیا گیا تھا۔ تاہم صرف سیاست اور پورن نہیں بلکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی دفاع، مالیات، مذہب غرض زندگی کے ہر شعبے میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ان ہی مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیس بک اور گوگل نے حال ہی میں اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر ڈیپ فیک کو روکنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم پر ڈیپ فیک ویڈیوز پر پابندی عائد کر دی ہے اور ایسی ویڈیوز کو ہٹا دیا جائے گا۔