لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان کی حکومت نے گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کی تین سالہ مدت ملازمت میں مزید توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کی مدتِ ملازمت بدھ کو مکمل ہو گئی ہے۔ وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ اب نئے گورنر کی تعیناتی تک ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید ہوں گے جو ’ایک تجربہ کار ماہرِ اقتصادیات ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔‘
مفتاح اسماعیل نے اپنی ٹویٹ میں ڈاکٹر رضا باقر کی تعریف کرتے ہوئے ان کی ’پاکستان کے لیے خدمات‘ پر شکریہ ادا کیا اور انھیں ’انتہائی اہل‘ قرار دیا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ڈاکٹر رضا باقر پر ماضی میں خاصی تنقید کی جاتی رہی ہے اور انھیں ’آئی ایم ایف کا فرنٹ مین‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری کا قانون بھی خاصا متنازع رہا ہے اور حکومتی وزیر خواجہ آصف نے حال ہی میں اسے واپس لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ تاہم اس کے علاوہ گورنر سٹیٹ بینک پر شرحِ سود بڑھانے، پاکستان میں ہاٹ منی کے ذریعے سرمایہ کاری سمیت، روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب انھیں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور دیگر اقدامات کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری آسان بنانے جیسے اقدامات اور سٹارٹ اپس کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پالیسیاں وضع کرنے پر سراہا گیا ہے۔ اپنی مدت کے اختتام پر ڈاکٹر رضا باقر نے متعدد ٹویٹس کے ذریعے بطور گورنر سٹیٹ بینک اپنی کارکردگی کے بارے میں بات کی ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر کون ہیں؟ ڈاکٹر رضا باقر سنہ 2000 سے آئی ایم ایف کے ساتھ منسلک تھے اور اِس وقت مصر میں بطور سینئر ریزیڈنٹ ریپریزینٹیٹو خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے امریکی یونیورسٹی برکلے سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی سے بھی معاشیات کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر نے سنہ 2005-2008 میں فلپائن میں بھی بطور سینئر ریزیڈنٹ ریپریزینٹیٹو خدمات سرانجام دی ہیں جہاں انھیں فلپائن کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے آئی ایم ایف مشن چیف کی حیثیت سے بلغاریہ اور رومانیہ میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ سنہ 2012-2016 تک عالمی مالیاتی ادارے کے ڈیٹ پالیسی ڈویژن کے سربراہ کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر قبرص، گھانا، یونان، جمیکا، پرتگال، تھائی لینڈ اور یوکرین میں کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ورلڈ بینک سمیت ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور یونین بینک آف سوئزرلینڈ میں بھی کام کیا ہے۔
رضا باقر نے اپنی کامیابیوں کے بارے میں کیا کہا؟ رضا باقر نے بطور گورنر سٹیٹ بینک اپنے تین سالہ دور کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران متعدد نئے اقدامات کے بارے میں مجھے بہت خوشی ہے جن میں سٹیٹ بینک کے کووڈ کی عالمی وبا کے ردِ عمل میں دیے گئے پیکجز، اور متعدد نئی سہولیات کا اجرا جن میں ٹی ای آر ایف (ٹرف) سمیت دیگر شامل ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کے ذریعے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی بینکوں سے منسلک کیا گیا، راست ہمارا پہلا فوری اور مفت ادائیگی کا نظام ہے۔‘ انھوں نے لکھا کہ ’اس کے علاوہ ایک ایسا فریم ورک وضع کیا گیا جس کے ذریعے ڈیجیٹل بینکوں کو لائسنس کیا گیا۔ اس کے علاوہ کم آمدنی والے افراد کے لیے سستے قرضوں کی ترسیل یقینی بنائی گئی۔‘ انھوں نے اس کے علاوہ چار وزرائے خزانہ اور پانچ سیکریٹریز خزانہ کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے ان کے ساتھ اس دور کے دوران کام کیا۔ جن کے وہ نمائندے تھے ان کی بہت خدمت کی‘ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا باقر کے تین سالہ دور پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’جو ان کے مالکان تھے، آئی ایم ایف اور انٹرنیشنل فنانس، ان کی اچھی خدمت کی ہے انھوں نے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جب ضرورت نہیں تھی شرح سود بڑھانے کی انھوں نے بڑھا دیا، جو منی ٹریڈرز ہیں جو پیسوں میں سٹے بازی کرنے والے افراد ہیں امریکہ میں وہ امریکہ سے پونے دو فیصد پر قرضہ لیتے تھے اور یہاں سوا 13 فیصد پر سود کماتے تھے، انھوں نے خوب پیسہ بنایا اور اس کی قیمت پاکستان کو چکانی پڑی۔‘ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا سٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق قانون کے بارے میں کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک تو پہلے ہی خود مختار تھا، یہ تو حکومت کے ہاتھ کاٹنے والی بات ہے۔ یعنی سٹیٹ بینک حکومت کو براہ راست قرضہ نہیں دے گا بلکہ نجی بینکوں کو قرضہ دے گا، جو یہ قرضہ حکومت کو دیں گے، یعنی پرائیویٹ بینکوں کا نفع یقینی بنا دیا۔’جیسے میں نے پہلے کہا کہ جن کے وہ نمائندے تھے ان کی بہت خدمت کی انھوں نے۔‘
دوسری جانب اقتصادی امور کی ماہر صحافی اریبہ شاہد نے رضا باقر کے تین سالہ دور کو مجموعی طور پر اچھا قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران متعدد نئے اقدامات عمل میں آئے تاہم کچھ ایسے اقدامات بھی تھے جن پر خاصی تنقید کی گئی۔ اریبہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’رضا باقر کے دور میں ایک بات جسے ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ کہ اس دوران دنیا میں عالمی وبا کے باعث ایک ایسا عالمی معاشی بحران سامنے آیا تھا جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ ایسے میں سٹیٹ بینک کی پالیسیوں کے باعث پاکستان کسی بڑے معاشی بحران سے بچ گیا تھا اور اس دوران بھی چار فیصد کی شرح نمو دیکھنے کو ملی تھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’بطور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے میڈیا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا اور اس فوری رابطے کے علاوہ ان کی جانب سے پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے وہ ٹاک شوز میں بھی گئے، جو اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا اور آج کل میسجنگ کی جتنی اہمیت ہے اس میں یہ بہت ضروری تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی سہولت کے لیے بنائے گئے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس جس کی مختلف اقسام بھی تھیں، ان کے ذریعے رقم بھیجنے اور اکاؤنٹ کھولنے کا عمل انتہائی آسان کر دیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک انتہائی اہم اقدام یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال میں جو ایک بڑی سرمایہ کاری ہوئی ہے اس کی ایک وجہ سٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلیاں بھی ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے کچھ ایسی مشکلات تھیں جنھیں دور کرنے کے لیے سٹارٹ اپ ایکو سسٹم میں شامل کرداروں سے فیڈ بیک مانگا گیا تھا۔اس دوران کچھ اصلاحات کی گئیں جن میں ہولڈنگ کمپنی، آپریٹنگ کمپنی، سٹرکچر،فارن ایکسچینج قواعد میں تبدیلیاں شامل ہیں جس سے سنہ 2021 میں سٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا، کیونکہ سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوا کہ وہ اپنی سرمایہ کاری واپس بھی لے سکتے ہیں اور اگر ان کا کوئی مسئلہ حل طلب ہے تو اس کا حل بھی انھیں باآسانی مل سکتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’جہاں کووڈ کے باعث عالمی معاشی بحران تھا اور ملک کی مجموعی معاشی صورتحال اتنی اچھی نہیں تھی، لیکن سٹیٹ بینک نے ایسے میں ان تمام مسائل سے آگے کا سوچا، اور قواعد میں تبدیلیاں کیں جس کے دور رس نتائج ہوں گے۔‘تاہم ان کا یہ بھی کہنا کہ ’اس دور کے دوران کیے گئے متعدد اقدامات جیسے ٹرف یا گھروں کے لیے دیے گئے قرضوں کا فائدہ عام افراد کو نہیں ہوا، اور سٹیٹ بینک کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید سہولت فراہم کرنے کی ضرورت میرا نہیں خیال ہونی چاہیے تھی۔‘ اریبہ کا مزید کہنا تھا کہ ’روشن ڈیجیٹل اپنی کار سکیم پر بھی تنقید ہوئی اور یہ دراصل پاکستان میں پہلے سے موجود گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ کو بڑھانے والی سکیم بن گئی تھی۔‘سٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے لیے رضا باقر کی خدمات قابلِ تحسین ہیں‘ رضا باقر کی مدت پوری ہونے پر سوشل میڈیا پر متعدد تجزیہ نگاروں اور صارفین کی جانب سے تبصرے کیے گئے ہیں۔ اقتصادی امور پر کام کرنے والے صحافی شہباز رانا کا کہنا تھا کہ ’سٹیٹ بینک کے گورنر کی مدت پوری ہونے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر رضا باقر نے پاکستان کی خدمت کی یا خود کو پاکستان کے مفاد سے پہلے رکھا۔ ’ہاٹ فارن منی، انتہائی مہنگے نیا پاکستان سرٹیفیکیٹ پر قرضے، مہنگائی کی شرح میں اضافہ، فارن ایکسچینج ریزروز کی کم سطح اور کمزور ترین کرنسی ان کے میراث کا تعین کرے گی۔‘ مشرف زیدی کی جانب سے ایک ٹویٹ میں رضا باقر کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’گھروں کے لیے دیے قرضوں میں ان کے دور میں تیزی دیکھی گئی اور اقتصادی سیکٹر کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے جارحانہ انداز اپنایا گیا۔ ان دونوں کے باعث ملک میں معاشی تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔‘ وکیل مبارز صدیقی نے لکھا کہ ’انھوں نے ہمیشہ پاکستانی سٹارٹ اپس کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ ان کی جانب سے نئے قواعد لائے گئے اور فنانشل ٹیکنالوجی کے لیے ڈی آر بیز اور راست گیم چینجر ثابت ہوں گے۔‘