جب آناتوکیک ساتھ لاناکیونکہ کیک کاٹ کر پیدائش کا دن منانے کا رواج کہاں سے آیا؟ جانیں

کسی کی سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹنا اولین کاموں میں سے ایک کام ہوتا ہے کیونکہ کیک کاٹے بغیر کوئی سالگرہ مکمل نہیں ہوتی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ رواج کئی دہائیوں سے عمل میں ہے۔لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سالگرہ پر کیک ہی کیوں کاٹا اور کھایا جاتا ہے؟ سالگرہ کے کیک پر موم بتی جلانا اور پھر اسے بجھانا کیا ضروری ہے؟

تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا کیک پانچویں سے پندرویں صدی کے درمیان جرمنی میں بنا، جرمن لوگ اپنے بچوں کی سالگرہکو کیک کاٹنے کے ساتھ مناتے تھے، اس رسم کو ’کنڈر فیسٹ‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ابتداء میں بنائے جانے والے کیک موٹےاور روٹی نما ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں میٹھا شامل کیا جانے لگا، اس قسم کے کیک کو اُس زمانے میں ’جبرٹسٹاگورٹن‘ کہا جاتا تھا۔بعدازاں 17 ویں صدی میں کیک کے ڈیزائن میں مزید تبلیاں اور آئٹمز شامل کیے گئے اور ان کو آئسنگ، تہوں اور پھولوں سے سجایا جانے لگا۔ کیک میں جدت آنے کے بعد اسے صرف دولت مند اور اعلیٰ طبقےکے لوگ ہی خریدا کرتے تھے کیونکہ یہ بہت مہنگے ہوتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کیک میں شامل ہونے والے جزاء بازار میں سستے ہوتے گئے اور کیک بنانے کی تعداد میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا۔ایک نظریے کے مطابق کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز قدیم یونان سے ہوا تھا۔ یونانی لوگ گول کیک پر موم بتیاں لگاتے دیتے تھے اور ایسا وہ اپنی چاند کی دیوی ’Artemis‘ کے احترام میں کیا کرتے تھے۔ یونانیوں کے مطابق کیک پر روشن موم بتیاں چاند کی چمک کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ کیک سے نکلنے والا دھواں دعائوں کو لے کر آسمان میں رہنے والے خداؤں تک پہنچاتا ہے۔دوسری جانب کچھ اسکولرز کا کہنا ہے کہ کیک پرموم بتیاںلگانے کا آغاز جرمنی سے ہوا ہے، کیک پر موجود موم بتی ’زندگی میں روشنی‘ کی عکاسی کرتی ہے۔