لاہور (ویب ڈیسک) نامور پاکستانی کالم نگار طاہر سرور میر اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشہور مزاحیہ اداکار رفیع خاور ننھا چار اگست 1944 کو ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے، اُن کے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے جو بعدازاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں آ کر آباد ہوئے۔ ننھا نے اپنا نام اور
مقام بڑی محنت سے بنایا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر فربہ تھے اور سکول میں بچے اُن کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔وضع قطع سے ننھا پہلوان دکھائی دیتے تھے لیکن ان کے اندر ایک باریک بیں اور طبع زاد فنکار بے چین تھا جو اپنے فن کے اظہار سے دنیا پر چھا جانا چاہتا تھا۔ زمانہ طالب علمی تک ننھا کو نگارخانوں اور فنکاروں سے دور رکھا گیا لیکن جب انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز نیشنل بنک سے کیا تو وہ لاہور میں آرٹس کونسل کے چکر کاٹنے لگے تھے۔سنہ 1964 میں جب لاہور سے پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو اس سے قبل کمال احمد رضوی تھیٹر اور ریڈیو میں کام کر کے اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ سنہ 1965 میں انھیں لاہور سینٹر سے ڈرامہ سیریز بنانے کی ذمہ داری دی گئی تو انھوں نے پی ٹی وی کے لیے اس انٹیلیجینٹ آئیڈیا یعنی ’الف نون‘ کے لیے اپنے جوڑی دار کے طور پر رفیع خاور ننھا کا انتخاب کیا۔حالانکہ اس وقت ان کے سامنے درجنوں معروف اداکار موجود تھے لیکن انھوں نے قدرے جونیئر فنکار کو منتخب کیا۔ الف نون نشر ہوا تو الن ( کمال احمد رضوی ) اور ننھا (رفیع خاور) لوگوں کے محبوب فنکار بن گئے تھے جبکہ یہ سیریز جنوبی ایشیا میں ٹیلی ویژن کی تاریخ میں فیملی ڈرامہ کی پہلی مثال ثابت ہوئی۔شباب کیرانوی سمیت ہر قابل ذکر پروڈکشن ہاؤس نے ننھا کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا۔ پنجابی فلم ’حکم دا غلام‘، ’ضدی‘، ’جال‘، ’تم سلامت رہو‘ اور ’آواز‘ میں اُن کے کردار کو پسند کیا گیا۔
اس کے علاوہ ’بھروسہ‘، ’شبانہ‘، ’جدائی‘، ’باؤ جی‘، ’نکاح‘، ’صاحب جی‘، ’لوو سٹوری‘ اور ’ہسدے جاو تے ہسدے آؤ‘ میں ننھا کے کردار کو خاص توجہ حاصل ہوئی جبکہ ’ٹہکا پہلوان‘ اور ’جن چاچا‘ ایسی فلمیں ہیں جو ننھا نے ٹائٹل رولز کے طور پر کی تھیں۔علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی پر مشتمل ’دبئی چلو‘ ایسی فلم ثابت ہوئی جس نے پاکستان فلم انڈسٹری کی اگلی دہائی دونوں فنکاروں کے نام لکھ دی تھی۔’دبئی چلو‘ بنانے کا پس منظر یہ ہے کہ گرمیوں کے موسم میں سلطان راہی چھٹیاں گزارنے کے لیے امریکہ اپنے بچوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے اور ان کی امریکہ روانگی کے بعد دو سے تین ماہ کے لیے نگار خانوں میں تالے پڑ جایا کرتے تھے۔ہدایتکار حیدر چوہدری نے فلم نگر کی اس ’قحط الرجالالی‘ سے نمٹنے کے لیے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو آزمایا۔ دونوں کے ساتھ اداکارہ ممتاز اور دردانہ رحمان کومرکزی اداکاراؤں کے طور پر کاسٹ کر کے چھوٹے بجٹ کا پراجیکٹ سپر ہٹ کرایا اور فلم انڈسٹری کا رُخ بدل دیا۔اس زمانے میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کی جوڑی کے بغیر فلم بنانے کا تصور ایسے ہی تھا جیسے شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری کے بغیر حکومتی کابینہ نامکمل رہتی ہے۔ دبئی چلو پلاٹینم جوبلی ہوئی تو فلم نگر پر سلطان راہی کی سلطانی ختم ہوئی اور ننھا علی اعجاز کا راج شروع ہوا۔دوبئی چلو کے بعد ’سوہرا تے جوائی‘ بھی کامیاب ہوئی جس میں ننھا نے سسر اور علی اعجاز نے داماد کا کردار نبھایا تھا۔ سنہ 1981 میں ننھا اور علی اعجاز کی فلم ’سالا صاحب‘ بلاک بسٹر ہٹ ہوئی
جس کے ہدایتکار الطاف حسین تھے۔ اس فلم نے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو دوام بخشا۔سنہ 1983 میں ہدایتکار رنگیلا نے ننھا اور علی اعجاز کے ساتھ ’سونا چاندی‘ بنائی جس کی کامیابی نے دونوں کی جوڑی کو مال بنانے کا فول پروف فارمولا قرار دے دیا۔اس کے بعد درجنوں فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے ننھا اور علی اعجاز کی جوڑی کو کاسٹ کر کے کامیاب فلمیں بنائیں۔ اس عرصہ کے دوران ننھا اور علی اعجاز کے ساتھ ہیروئنوں کے طور پر رانی بیگم، عالیہ، انجمن، گوری، ممتاز، دردانہ رحمان اور نازلی کاسٹ کی جاتی رہیں۔یہ وہ دور تھا جب ننھا پر دھن دولت کی بارش ہو رہی تھی اور ان کا ستارہ عروج پر تھا۔ اس عرصہ میں اداکارہ نازلی ان کے قریب ہوئیں اور پھر یہ قربت، محبت اور عشق میں بدل گئی۔ ننھا کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ننھا کی زندگی میں ان کی بیوی کے علاوہ نازلی واحد دوسری عورت تھیں۔نگار خانوں میں ننھا اور نازلی کے عشق اور ان کے ہولناک انجام کو آنکھوں سے دیکھنے والے اس درد ناک کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ یک طرفہ عشق تھا جو ننھا جیسے معصوم اور سادہ لوح نے نازلی سے کیا تھا۔ماضی کی نامور اداکارہ جنھوں نے ننھا کے ساتھ کئی فلموں میں اکٹھے کام کیا انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نازلی شاید وہ پہلی عورت تھی جنھوں نے ننھا کو ’آئی لو یو‘ کہا تھا اور اس کے خوب چرچے تھے۔ننھا اور نازلی کی یہ قربت ننھا کی پہلی بیوی اور اُن کے برادران نسبتی کو کھٹکتی تھی مگر
جلد ہی ننھا اصرار کر کے فلموں میں اپنے ساتھ نازلی کو کاسٹ کروانے لگے تھے۔ماضی کی معروف اداکارہ دردانہ رحمان بتاتی ہیں کہ ’ننھا بہت ہی شاندار فنکار تھے، آغاز میں ’دبئی چلو‘ سے میری اور ان کی جوڑی غیر معمولی ہٹ ہوئی اور اس کے بعد ہم دونوں نے درجنوں فلموں میں ایک ساتھ کام کیا لیکن پھر ایک رقاصہ ہم دونوں کے درمیان آ گئیں۔‘اداکارہ نازلی کی ایک قریبی رشتہ دار اور ٹی وی کی معروف اداکارہ مہر النسا مہرو بتاتی ہیں کہ ’میں اُس وقت نو سال کی تھی اور نازلی کے ہاں ایک سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں میں اپنی دادی اور آنٹی کے ساتھ شریک تھی۔‘’ہم لگ بھگ آٹھ بجے رات وہاں پہنچے تو انکل رفیع (ننھا ) وہاں موجود تھے۔ یہ پارٹی رات ڈیڑھ بجے تک جاری رہی لیکن ننھا رات بارہ بجے کے قریب وہاں سے چلے گئے اور صبح ہمیں پتہ چلا کہ ننھا کی موت ہو گئی ہے لیکن پولیس اور میڈیا اسے خود اپنی جان لینے کا کیس قرار دے رہے ہیں۔‘مہرالنسا نے کہا کہ ’رفیع انکل (ننھا) اور نازلی ایک دوسرے سے مخلص تھے دونوں شادی کرنا چاہتے تھے لیکن اس رشتے کو ناپسند کرنے والوں نے ان کی موت کی سازش تیار کی۔‘زندگی کے آخری دنوں میں وہ مالی مشکلات کا بھی شکار تھا کیونکہ اس نے اپنا زیادہ تر پیسہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے پاس بیرون ملک بینکوں میں رکھا ہوا تھا۔ بیوی اور اس کے رشتہ داروں کو جب یہ علم ہوا کہ ننھا دولت کسی اداکارہ پر خرچ کر رہا ہے تو انھوں نے اسے پیسے دینے بند کر دیے جس سے وہ معاشی دباؤ کا شکار ہوا۔‘الطاف بتاتے ہیں کہ ’ننھا نے ڈپریشن سے فرار کے لیے کثرت سے پینی شروع کردی جس سے اسے مذید ذہنی اور جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘