لاہور (ویب ڈیسک) قانون کی پاسداری اور فروغِ علم کے سوا،مغرب کی بالاتری اسی میں ہے۔ امن اور سیاسی استحکام ہی سے معیشت فروغ پاتی اور صلاحیت نکھر کر معجزے رونما کرتی ہے۔ مغرب تو الگ کہ صدیوں کا تجربہ ہے۔ دبئی، دنیا کا دوسرا بڑا تجارتی مرکز کیسے بنا؟ اچھی پولیس، تحفظ اور کشادہ مزاجی۔
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حوصلہ افزائی انسانی ذہن کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دبئی کا حکمران زید بن سلطان النیہان نسلاً بلوچ تھا، فطرت کے قریب تر۔ اس کے بارے میں بے سروپا افسانے ہم سنتے ہیں۔رحیم یار خاں میں میرے کتنے ہی دوستوں نے تین عشرے تک اسے قریب سے دیکھا۔ بہت تعلیم یافتہ نہ سہی مگر وہ غور و فکر کرنے او رانسانی نفسیات کا ادراک رکھنے و الا تھا۔ خس و خاشاک پہ جس نے تاریخ تعمیر کی۔ بعض بڑی عرب ریاستوں نے لاکھوں ارب ڈالر ضائع کر دئیے۔ ایک عرب شہزادے کے محلات کی قیمت 50ارب ڈالر ہے۔ بعض امیر عرب ممالک کے دیہی علاقوں میں غربت اب تیزی سے پھیل رہی ہے۔بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے عمر ابن خطابؓ نے بوڑھے یہودی کو دیکھا کہ بھیک مانگتا تھا۔ تعجب کا اظہار کیا تو اس نے کہا: کوئی عزیز رشتے دار نہیں، اس پر جزیہ۔ مشیر بلائے گئے، بحث ہوئی۔فیصلہ یہ ہوا کہ مسلم نہیں، غیر مسلم بھی ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ دو صدیاں ہوتی ہیں، برطانیہ میں جب یہ نعرہ بلند ہوا تھاNo Taxation without responsibility سرکار عوام کو جواب دہ نہیں تو ٹیکس وصول کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی۔ اسلام اس سے ایک قدم آگے تھا اور بارہ سو برس پہلے۔ ریاست ہر محتاج کی ذمہ دار تھی۔ بارسوخ ٹیکس دہندگان کم از کم 4000ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اکثر بڑے لیڈر ان میں شامل ہیں۔ جو کچھ وصول ہوتاہے، اس کا قابلِ ذکر حصہ ضائع کر دیا جاتاہے۔ پھر بھلے لوگ بھی ٹیکس ادا کرنے کی طرف کیوں مائل ہوں؟ وہ خیرات کو ترجیح دیتے ہیں اور ریاست آئی ایم ایف کے حضور سجدہ ریز۔ معاملہ ہے ریاست اور عوام کے تعلق کا۔ ناقص رشتے پر اعتماد کیسے استوار ہو؟ لیڈروں کو چھوڑیے، کیا دانشور غور فرمائیں گے؟