شادی کے ایک شدید خواہشمند شخص کے ساتھ پیش آنے والا دلچسپ اور ناقابل یقین واقعہ ملاحظہ کریں

لاہور (ویب ڈیسک) آپ نے پیسوں کے فراڈ کے بارے میں تو سنا ہو گا لیکن 22 سالہ نوجوان کی تو شادی کی تمام خوشیاں ہی اس وقت لٹ گئیں جب اس نے اپنی دلہن کا گھونگٹ اٹھایا، رشتہ کرانے والوں نے نوجوان لڑکی دکھا کر 70 سالہ بیوہ ملازمہ بیاہ دی۔

نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹے کی شادی کے ارمان پورے کرنے والا خاندا ن لٹ گیا، شادی کی پہلی رات ہی نوجوان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے،موضع امین پور کے رہائشی اللہ دتہ کے مطابق اس نے اپنے 22 سالہ بیٹے کا رشتہ 20 سالہ لڑکی کے ساتھ طے کیا تھا، رشتہ کرانے والوں کی دس ہزار روپے فیس بھی ادا کی اور جہیز کی مد میں 60 ہزار روپے بھی ادا کئے لیکن شادی کر کے جب دلہن کو گھر لائے تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہواہے اور نوجوان لڑکی کی جبکہ انہیں 70 سالہ مائی دلہن بنا کر دے دی۔دولہے شاہد کا کہناتھا کہ ہمارے ساتھ فراڈ ہواہے اور لڑکی دکھا کر 70 سالہ عورت کی رخصتی کر دی۔ 70 سالہ نصرت بی بی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں ان کے گھر میں کام کرتی تھی اور انہیں رشتہ طے کرتے وقت بیس سالہ لڑکی دکھائی گئی تھی لیکن جب رشتہ طے ہوا تو لڑکی بھاگ گئی اور پھر بارات والے دن مجھے ڈرا کر ان کے ساتھ دلہن بنا کر بھجوا دیا۔نوجوان لڑکے نے فراڈ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی درخواست دیدی ہے اور رقم کی واپسی کا بھی مطالبہ کر دیاہے۔پیسہ نصیب سے ملتا ہے، کوئی دھوکا دہی اور فراڈ کرکے پیسہ کمانے کی کوشش کرتا ہے تو کسی کو چھپر مار مل جاتا ہے۔۔تھائی لینڈ کے غریب مچھیرے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔کہتے ہیں کہ وہیل مچھلی ایک ایسا جانور ہے جس کی قے اتنی مہنگی فروخت ہوتی ہے کہ سن کر آدمی دنگ رہ جائے۔میل آن لائن کے مطابق وہیل کی قے کو ’امبر گریس‘ کہتے ہیں۔ اس میں ’امبرین‘ پایا جاتا ہے جو پرفیومز بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ پرفیومز کی خوشبو اسی امبرین کی وجہ سے دیر تک برقرار رہتی ہے۔۔۔ گزشتہ دنوں تھائی لینڈ میں ایک غریب ماہی گیر کو وہیل مچھلی کی قے ملی اور وہ بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بن گیا۔

اس ماہی گیر کا نام ناریس سواناسینگ بتایا گیا ہے جسے دنیا میں وہیل کی قے کا سب سے بڑا لوتھڑا ملا، جس کا وزن 100کلوگرام تھا اور اس کی مالیت 24لاکھ پاو¿نڈ (تقریباً 51کروڑ روپے)بنتی ہے۔نوریس کو جب امبرگریس ملا تو اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس نے اپنے ہمسائے کو یہ دکھایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ اس کا ہمسایہ ماہی گیر امبرگریس کے بارے میں جانتا تھا چنانچہ اس نے نوریس کو بتایا کہ یہ انتہائی مہنگی چیز ہے۔ اس نے نوریس سے کہا کہ وہ مقامی حکام کو مطلع کرے۔ مقامی افسران نوریس کے گھر آئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ یہ امبرگریس ہی ہے۔ نوریس کا کہنا تھا کہ ”اب تک میری زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزر رہی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح اچانک میرے ہاتھ خزانہ لگ جائے گا۔سردیاں چل رہی ہیں۔۔ گائوں،دیہات میں ساگ کا دور دورہ ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔ساگ اصل میں گھاس ہی تھا۔۔ہندوستانیوں نے جب یہ گھاس پکا کر چکھی تو بہت اچھی لگی۔۔لیکن کوئی پوچھتا کہ کیا کھایا ہے؟ تو بتاتے ہوئے شرم آتی کہ ہم نے گھاس کھائی ہے۔۔چنانچہ ایک دن ایک دانا بابا جی نے کچھ دیر غوروفکر کے بعد لفظ گھاس کو الٹ دیا۔۔اب اس کا نام ساگھ پڑ گیا۔۔پھر زمانے کے گزرنے کے ساتھ نام میں تخفیف ہوئی تو ساگھ سے ساگ ہو گیا۔۔اب دیہی علاقوں میں یہ ایک معزز سبزی کے طور پر کھایا جاتا ہے۔۔جبکہ اسکی اصل وہی ہے جونام کے الٹ پھیر کے بعد سامنے آئی۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔معروف دانشوراور مفکر واصف علی واصف کے پاس ایک دوست ملنے آیا،انہوں نے اس کے لئے چائے منگوالی۔۔وہ بولا، میں بڑا پریشان ہوں، ملک کے حالات بڑے خراب ہیں۔۔واصف صاحب نے پوچھا، تم نے خراب کئے ہیں؟؟وہ بولا نہیں، واصف صاحب نے پھر پوچھا،کیا تم حالات ٹھیک کرسکتے ہو؟ دوست نے پھر نفی میں گردن ہلادی۔۔واصف صاحب مسکرا کر بولے۔۔ تے فیر چاپی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔