لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی میاں اشفاق انجم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان حالات میں مجھے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا مطالبہ بڑا جائز اور بروقت لگا ہے۔ان کا کہنا ہے سب جماعتوں کو موقع مل چکا ہے۔ ایک موقع ہمیں بھی دے دیا جائے ہم نے ثابت کیا ہے
قیام پاکستان سے لے کر اب تک جماعت اسلامی نے عوام کو مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑا۔سیلاب ہو،آفت ہو، بیماری ہو، افغان پناہ گزنیوں کامسئلہ ہویا مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی ہو، غریب گھرانوں کی مدد ہو یا عالمی وبا میں جب کوئی اپنے بھائی کی میت کو غسل دینے کے لئے تیار نہ تھا۔جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن نے حق ادا کیا۔ عافیہ کی رہائی کی جدوجہد ہو ملک کو سود سے پاک کرنے کی مہم ہو۔ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہو یا ملکی قوانین کو اسلامی بنانے کی جدوجہد،عوامی مسائل کا حل ہو یا مہنگائی کے خلاف مہم ہو۔جماعت اسلامی نے کبھی عوام کو اکیلا نہیں چھوڑا، ہم اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی عوام کے دُکھ درد میں شریک ہونے والی جماعت ہیں سراج الحق فرماتے ہیں۔ صوبہ سرحد میں دو دفعہ مجھے وزیر خزانہ کی ذمہ داری ملی،عالمی بنک بھی ہماری اصلاحات اور ایمانداری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوا۔ جماعت اسلامی نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لئے پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ سے رابطہ کیا، چار سال سے شنوائی کے منتظر تھے کہ پنڈورا پیپر سکینڈل آ گیا ہم نے ایک دفعہ پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔امید ہے اب کی بار پاکستانی قوم کو انصاف ملے گا۔ سراج الحق فرماتے ہیں ہماری ملکی اثاثوں اور اداروں کو اس طرح فروخت اور تباہ کیا گیا۔ ملک دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پانامہ کے436 اور پنڈورا سکینڈل کے 700 پاکستانیوں سے کیا اہل ِ پاکستان آگاہ نہیں ہیں۔ تین تین دفعہ اقتدار میں رہنے والوں اور تحریک انصاف کے کارناموں سے آپ آگاہ نہیں ہیں ہم پر عوام ایک دفعہ اعتبار کرے۔ امانت میں خیانت نہیں کریں گے۔ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان قوم کو دیں گے، ملکی معیشت کو پیروں پر کھڑا کریں گے،سود سے قوم کو نجات دلائیں گے۔ یہ تھے خیالات امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کے، قوم نے باریاں لینے والوں کی سیاست بھی دیکھ لی ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ سے صادق اور امین قرار پانے والے سراج الحق کی جماعت اسلامی کی کارکردگی سے بھی75 سال سے دیکھ رہے ہیں۔عوام کو فیصلہ کرنا ہے،75 سال سے لال بتی کے پیچھے لگا کر ذاتی تجوریاں بھرنے والوں کے چنگل سے نکلنا ہے یا انہی کے ذریعے مہنگائی، بے روزگاری،بدامنی کی دلدل میں غرق ہو کر ختم ہونا ہے فیصلہ آپ کریں اور مجھے اجازت دیں۔(یہ کالم روزنامہ پاکستان میں شائع ہوا ۔ )