یا علی کے نعرے میں کتنی طاقت ہے ۔۔۔؟؟ نامور کالم نگار نے برسوں قبل اپنے ساتھ پیش آیا واقعہ بیان کردیا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اثر چوہان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مَیں 1955ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے ۔ مَیں اُنکی راہبری میں احاطۂ دربار داتا گنج بخش صاحب میں حاضر ہُوا تو ہم دونوں نے پہلے (اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد ) خواجہ غریب نواز

نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتی کی چلّہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ حضرت داتا صاحب میں ۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا۔ دراصل مجھے میرے والد صاحب نے حضرت داتا گنج بخش کی بارگاہ میں حاضری کے آداب سِکھائے تھے ۔ ’ ’ کشف اُلاسرار کا نسخۂ کیمیا ! ‘‘ حضرت داتا گنج بخش نے اپنی تصنیف ’’کشف اُلاسرار ‘‘ میں فرمایا کہ ’’ اگر کوئی مسلمان مشکلات کا شکار ہو تو وہ اپنے والد صاحب سے کہے کہ ’’ ابو جی !آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں !‘‘ اور اگر والد صاحب حیات نہ ہوں تو وہ خود اُنکی قبر پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ ’’ یا اللہ ! میرے والد صاحب کے صدقے میری مشکلات دور کردیں، تو اللہ تعالیٰ وہ مشکلات دور کردیتے ہیں!‘‘۔  میرے والد صاحب جب تک سلامت رہے ، مَیں اُنہی سے عرض کِیا کرتا تھا کہ ’’ ابو جی ! آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں‘۔میرے والد ِ محترم ( اور والدہ صاحبہ ) کی دُعائوں سے بھی 1980ء کے اوائل میں میرے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین الدین چشتی خواب میں میرے گھر تشریف لائے اور ستمبر  1983ء میں جب مَیں خواب میں دلدل میں پھنس گیا تھا اور مَیں نے یا علیؓ کا نعرہ لگایا تو پھر مجھے کسی روحانی قوت نے دلدل سے باہر نکال دِیا تھا اور میرے کانوں میں یہ آواز گونج اُٹھی کہ ’’ تم پر مولا علیؓ  کا سایہ ٔ شفقت ہے !‘

‘ مَیں نے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کے ساتھ آدھی دُنیا کی سیر کی اور میری زندگی کا حاصل یہ ہے کہ ’’ مجھے ’’نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے  ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُنکے ساتھ خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہُوا۔ مَیں نے کئی بار لکھا ہے کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ ’’ اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ضرور ملا ہوگا ؟’’ ہر وقت میرے دِل میں ! ‘‘معزز قارئین ! میرے والد ِ محترم ہر وقت میرے دِل میں رہتے ہیں ۔مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ کاش میرے والد محترم اُس وقت بھی حیات ہوتے کہ ’’ جب20 فروری 2014ء کو ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی نے مجھے ملّی ترانہ لکھنے پر ،شاعرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ یکم اکتوبر 2017ء کو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ’ ’ جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا!‘‘ کے عنوان سے امام حسین ؓ اور شہدائے کربلاؓ کی منقبت شائع ہُوئی تھی تو، راولپنڈی کے حقیقی درویش ’’تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ ‘‘ کے سربراہ ، آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی نے مجھے ’’حسینی راجپوت ‘‘ کا خطاب دِیا تھا !‘ ‘ ۔ معزز قارئین ! میرا چھوٹا بھائی محمد علی چوہان اور اُس کی اہلیہ (میری پھوپھی زاد ) سعید ہ علی اِن دِنوں عُمرہ پر ہیں لیکن کل مَیں نے اپنے دو بھائیوں شوکت علی چوہان ، محمد سلیم چوہان اور بھتیجے قاسم علی چوہان کے ساتھ لاہور میں اپنے والدین کی قبروں پر حاضری دِی اور دُعائیں مانگیں ۔