لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار چوہدری فرخ شہزاد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت لوکل سفر میں بھی بس والے ٹکٹ جاری کرتے تھے بلکہ بس کا آرٹیکل 3 مسافروں کو پابند کرتا تھا کہ ٹکٹ لینا نہ بھولیں اور اگر کوئی کنڈیکٹر
کرایہ وصول کر کے ٹکٹ نہ دے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ پیسے وہ بے ایمانی اور خیانت سے اپنی جیب میں ڈال رہا ہے ہمارے شہر کے لاری اڈے میں یہ کہانیاں بطور مثال مشہور تھیں کہ فلاں ٹرانسپورٹر یا بس مالک نے اپنے کیریئر کا آغاز بس کنڈیکٹر سے کیا تھا بلکہ اس دور میں اسے کلینڈر کہا جاتا تھا ملکہ ترنم نور جہاں کا وہ گانا اس کا ثبوت ہے کہ۔۔۔مینوں رکھ لے کلینڈر نال لمیاں روٹاں تے۔۔بلاٹکٹ سفر کرنا غلط سمجھا جاتا تھا اور اس بارے میں بس کے کسی کو نے میں یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ بلاٹکٹ مسافر کو حوالہ پولیس کیا جائے گا۔ بعد میں زندگی کی حقیقتیں آشکار ہونا شروع ہوئیں تو ایسا لگا کہ ہمارا وطن عزیز وہی نیو خان کی بس ہے جس میں ہر طاقتور مسافر بلاٹکٹ محوسفر ہے مگر مجال ہے کوئی پوچھنے والا ہو۔جس بس کا ذکر چل رہا ہے یہ کسی دور افتادہ ٹاؤن کے کچے پکے راستوں سے ہوتی ہوئی ہمارے گاؤں کے بس سٹاپ سے گزر کر شہر جاتی تھی گویا ہم اس کے راستے کے مسافر تھے اور اس دور میں بس کے بائی لاز میں راستے کی سواری کا ٹکٹ الگ ہوتا تھا جس پر باقاعدہ چھپا ہوا تھا کہ یہ راستے کی سواری کا ٹکٹ ہے۔ ہمیں وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو ایک اڈے سے دوسرے اڈے تک جانے والے مسافر کے لیے ہوتے ہیں جسے پنجابی کلینڈر ’’توڑ دی سواری‘‘ یعنی آخر تک جانے والی سواری کہتے تھے اس کا سامان خود اٹھا کر رکھتے اور اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے تھے۔
بعد میں پتہ چلا کہ زندگی کے اس سفر میں بھی ہم تو راستے کی سواری ہیں بسیں رواں دواں چلتی رہیں گی ہمارا سفر راستے سے ہی شروع اور راستے ہی میں ختم۔ اتنی سی ہی تو مہلت ہے ۔ہمیں اپنے بچپن کے دور کی بس کے اندر رقم کی گئی قانون سازی سے زیادہ بس کے فرنٹ اور بیک پر لکھے گئے دو چھوٹے چھوٹے جملے بہت دیر بعد سمجھ آئے سامنے لکھا ہوتا تھا۔ ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ اگر کوئی چیز ہمارے بے سمت مسافر قوم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ مجرمانہ طریقے سے پس پشت ڈالی ہے تو وہ ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظر سے دیکھتے ہیں اور معمولی بات پر خنجر آزمائی پر اتر آتے ہیں۔ اس قبیل کی جو دوسری چیز ہم نے آندھیوں کے سپرد کی ہے وہ جس کے پیچھے لکھا گیا قول ’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘ ہے۔ یہ گویا ایک وارننگ ہے کہ اگر حسد کرو گے تو سوائے اپنے آپ کو نقصان دینے کے تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وطن عزیز کے سوا دنیا بھر کی کسی بس کے پیچھے یہ نہیں لکھا ہوتا مگر وہ لوگ شاید اتنا حسد نہیں کرتے۔ اس جملے کی سب سے زیادہ ضرورت ہمیں ہے۔ اب احوال واقعی یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ گدھا گاڑی اور چنگ چی رکشا والے نے بھی پیچھے یہ اعلان لا تعلقی لکھا ہوتا ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان سے بھی حسد کرتے ہیں۔
چلتے چلتے آپ کو اپنی ایک ایسی بس کے بارے بتانا ہے جس کا نمبر 3994ہمیں آج تک نہیں بھولا اس بس کے آگے اور پیچھے جلی الفاظ میں ’’حاجن بس‘‘ لکھا ہوتا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ یہ ایک دفعہ خشکی کے راستے مسافروں کو لے کر ایران شام کے راستے سعودی عرب مکہ اور مدینہ لے کر گئی تھی جس کے اندر سفر کی تاریخیں اور واقعات اور شہروں کے فاصلے لکھے گئے تھے بس کا لیبل دیکھ کہ مسافر اس میں سفر کرنے کو اعزاز سمجھتے تھے آج بھی ہمارے سارے فضائل و اعمال لیبل یا اشتہاری سرگرمیوں کے مرہون منت ہیں۔