لندن (ویب ڈیسک) بی بی سی یوکرائن کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔’اگر آپ نے کائیو سے زانزیبار اور پھر واپسی کا 12 گھنٹے کا سفر مکمل کیا ہو اور آپ نے اونچی ایڑھی والی جوتی پہن رکھی ہو تو پھر اس کے بعد آپ کی بمشکل ہی مزید چلنے کی سکت باقی رہ جاتی ہے۔‘
یہ یوکرین کی 27 برس کی فلائٹ اٹینڈنٹ داریا سولومینیا ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس میں چار گھنٹے حفاظتی چیک اپ اور صفائی کے بھی شامل ہے۔‘داریا سکائی اپ ائیرلائنز کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ یورپ کی نسبتاً نئی اور سستی ترین ائیرلائنز میں سے ایک ہے اور یوکرین کی سب سے بڑی ائیرلائنز میں سے ہے۔اس ائیرلائن کی انتظامیہ نے اپنے فضائی عملے کے پرانے لباس کو نئے آرام دہ لباس سے بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ یورپ میں کوئی پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے مگر یوکرین کے لیے اس میں خاص بات یہ ہے کہ اب کچھ پرانی روایات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ایک برفیلی ہوا کائیو کے بوریسپل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تارکول کو مزید تقسیم کر دیتی ہے اور ایسے میں یہ یہ ایئرہوسٹس داریا خوش ہے کہ اب اس کی کمپنی کے ڈریس کوڈ میں ایک انقلابی تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔جب سکائی اپ کمپنی نے اپنے عملے سے متعلق سروے کیا تو اسے معلوم ہوا کہ خواتین ملازمین اپنی اونچی ایڑی والی جوتی، چست پاجامے اور باریک سکرٹس سے تنگ آ چکی ہیں۔داریا کہتی ہیں کہ ’میرے ساتھ کام کرنے والی بہت سے سہیلیاں اب پاؤں کے علاج کے لیے پوڈولوجسٹ کے پاس مسلسل جا رہی ہیں کیونکہ اونچی ایڑھی والی جوتی پہننے سے مسلسل ان کی انگلیاں اور انگلیوں کے ناخن خراب ہو رہے ہیں۔ اور وہ اس سے جڑی ویریکوز جیسی دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہو رہی ہیں۔کئی دیگر ایئرلائنز نے پہلے ہی اپنے ڈریس کوڈز میں تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں
جو پہلے اس صنعت میں ایک معیار کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ورجن اٹلانٹک نے اپنے فلائیٹ اٹینڈنٹس کو میک اپ نہ کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔جاپان کی ایئرلائنز نے اونچی ایڑھی کی شرط ختم کر دی ہے اور اپنے عملے کو تنگ سکرٹس کے بجائے آرام دہ پاجامے (ٹراؤزر) کا آپشن دیا ہے۔نارویجین ایئر نے عام جوتے پہننے کی اجازت دے دی اور خواتین عملے کے لیے ضروری کاسمیٹکس کا سامنا بھی ساتھ رکھنے کی شرط ختم کر دی ہے۔یوکرین کی سستی سمجھے جانے والی سکائی اپ ایئرلائنز اس سے ایک قدم آگے گئی ہے: اونچی ایڑی، سکرٹس اور تنگ پاجامے جیسی شرائط ختم کر دی گئی ہیں اور اس کی جگہ ٹرینزر (جوگرز)، کھلی نارنجی جیکٹس اور ٹراؤزر کی اجازت دے دی ہے۔سکائی اپ کی مارکیٹنگ کی سربراہ ماریانہ گریگورش کا کہنا ہے کہ ’فلائٹ اٹینڈنٹ کا کام اتنا رومانوی نہیں ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ ان کے مطابق ہم ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہماری خواتین فلائٹ اٹینڈنٹس خآص طور پر پرکشش اور دل بہلانے جیسی نہیں دکھائی دینا چاہتی ہیں۔کئی دہائیوں سے ایئر لائنز نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں خواتین کی خاص وضع قطع کا فائدہ اٹھایا اور اکثر یہ سب ان کی بنیادی سہولت اور صحت کو نظر انداز کر کے کیا۔صنفی امور کے ماہر اولینا سٹرلینک کا کہنا ہے کہ ’ایک فضائی میزبان کے جسم کی شبیہ شاید زیادہ کشش اور نسوانیت سے جوڑ دی گئی ہے۔‘اورخاص طور پر یوکرین میں یہ معاملہ تھا، جہاں اس طرح کی سوچ کی وجہ سے طویل عرصے تک مغربی خواتین کے مقابلے میں یوکرین کی خواتین اپنی ظاہری حلیے پر زیادہ توجہ دیتی رہی ہے۔
لیکن حالیہ برسوں میں یوکرین ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے اور اولینا سٹرلینک کے مطابق یوکرین نے اب اپنی بہت سی جنس سے جڑی روایات سے جان چھڑانی شروع کر دی ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سکائی اپ کے یوکرین میں کاروباری حریف بھی ایسے ہی اقدامات اٹھا رہے ہوں اور یونیفارم سے متعلق فرسودہ قسم کی پالیسیوں کو ختم کر رہے ہوں۔یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائنز (یو آئی اے) کا مارکیٹ میں بڑا شیئر ہے اور 30 سال کی پرواز کے بعد اب اس کمپنی کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے پر آمادگی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ایئر لائن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے فلائٹ اٹینڈینٹس کو دوران آرام کرنے کا بھی خاصا وقت میسر ہوتا ہے اور ان کی جوتیوں کی ایڑھیاں اتنی بھی لمبی نہیں ہیں بلکہ یہ علامتی ہیں۔ یو آئی اے ایئر لائن اس صنعت میں روایات پر قائم رہنے کے لیے پرعزم ہے اور اس کا خیال ہے کہ ہر کمپنی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔داریا کے لیے تو اونچی ایڑھی اور سکرٹس بڑے واضح مسائل ہیں۔داریا کے مطابق فرض کریں کہ اگر کوئی جہاز پانی پر ہنگامی لینڈنگ کرے اور عملے میں سے کسی کو اس کے پر سے دوڑ کر باہر نکلنے کا دروازہ کھولنے کے لیے جلدی سے ایسا کرنا پڑے تو پھر وہ ایسے میں کیا کرے گا۔ یسے میں تو پھر داریا سیٹوں سے چڑ کر آگے بڑھے گی جبکہ درمیان میں مسافر قطار بنائے کھڑے ہوں گے۔مگر داریا کہتی ہیں کہ ’آپ تصور کیجئے کہ میں تنگ سکرٹس میں یہ کیسے کر سکتی تھی۔‘ہنگامی حالات میں تو اونچی ایڑھیوں کا استعمال ممکن نہیں رہتا لہٰذا اسے سخت حفاظتی قوانین کے تحت بغیر جوتوں کے ہی اس کام کے لیے جانا پڑے گا۔لیکن یہ صرف ایمرجنسی کے دوران ہی ایسا نہیں ہوتا ہے جہاں ایئرلائن کی پرانی یونیفارم غیر مناسب محسوس ہوتی ہے بلکہ ایسا یونیفارم جو ملازمت کی ایک شرط ہے، بےقاعدہ پروازوں، مختلف اوقات اور ماحولیاتی زونز کا سفر کرنا پڑتا ہے تو پھر ایسے میں یہ مزید غیر مناسب مسحوس ہوتی ہیں۔سفر کے آغاز میں وہ لمحہ ہوتا ہے جب سب کی نظریں فلائٹ اٹینڈنٹ پر مرکوز ہوتی ہیں کہ ایمرجنسی میں کیا کرنا ہے۔داریا پھر ایسے میں وضاحت کرتی ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ کو ایک لائف واسکٹ، ایک ماسک اور ایک بیلٹ زمین پر رکھنا ہوتا ہے کیونکہ تمام نشستوں پر مسافر براجمان ہو جاتے ہیں۔داریا کے مطابق تنگ سکرٹس میں آپ کو ایک کے بعد دوسری شے اٹھانے کے لیے احتیاط سے جھکنا ہوتا ہے۔ اچانک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ سٹیج پر ہیں اور آپ کا سامنے کا حصہ آپ کے سکرٹ سے باہر نکل رہا ہے۔