نمرہ 20 اپریل کو کراچی میں تھی تو 18 کو تونسہ میں نکاح کیسے ہوا ؟ سی ڈی آر نے سوال کھڑے کردیئے

لاہور: (ویب ڈیسک)14 سالہ نمرہ کاظمی کے اغوا سے متعلق کیس میں کال ڈیٹیل رپورٹ نے نکاح نامے اور لڑکی کے بیان پر سوال کھڑے کردیئے ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کراچی شرقی جاوید علی کوریجو نے پسند کی شادی کرنے والی نمرہ کاظمی کے اغوا کے مقدمے پر سماعت کی۔ نمرہ کاظمی کے والدین عدالت میں پیش ہوئے جب کہ تفتیشی افسر نے پیش رفت رپورٹ پیش کردی۔سماعت کے دوران نمرہ کاظمی کے نکاح نامے اور کال ڈیٹیل ریکارڈ میں فرق کا انکشاف ہوا۔ سی ڈی آر رپورٹ میں بتایا گیا کہ نمرہ 18 اپریل کو کراچی میں ہی تھی جب کہ نکاح نامہ میں تاریخ 18 اپریل درج ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ نمرہ 20 اپریل تک اپنے گھر پر تھی تو 18 کو تونسہ شریف میں نکاح کیسے ہوا؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نکاح نامے اور سی ڈی آر میں واضح فرق ہے،تفتیشی افسر نے ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی نا ہی نکاح نامے کی تصدیق کرائی گئی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے تفتیشی افسر کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے 9 مئی تک جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ نمرہ کاظمی کیس کا پس منظر:14 سالہ نمرہ کاظمی 20 اپریل کو کراچی کے علاقے سعود آباد ایس ون ایریا میں واقع اپنے گھر سے لاپتہ ہوئی تھی۔ بعد ازاں نمرہ نے اپنی والدہ سے رابطہ کرکے بتایا تھا کہ وہ تونسہ میں ہے جہاں اس نے نجیب شاہ رخ نامی نوجوان سے نکاح کرلیا ہے، وہ اپنی ازدواجی زندگی سے خوش ہے، اس لئے اسے تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ بعد ازاں نمرہ نے ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں اس نے الزام لگایا کہ اس کے والد پرزبردستی بڑی عمر کے آدمی سے شادی کروانے کا الزام لگایا تھا۔