لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تاریخ کے حقائق جو امریکی حکام اور سی آئی اے نے ایک وقت گزرنے کے بعد خود شائع کئے ہیں۔ ان میں تمام تفصیلات موجود ہیں۔ ہر ملک کے بارے میں علیحدہ پلان اور طریقِ کار ہے
جس کو پڑھنے کے بعد اس بات پر ضرور حیرانی ہوتی ہے کہ جب ان تمام لیڈروں کے خلاف امریکہ اور سی آئی اے مشن کر رہا تھا تو ہر ملک کے بِکائو میڈیا کے ذریعے یہ تاثر عام کیا جاتا تھا کہ یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے، اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں اور غلام سیاسی لیڈر بھی اسے ایک مقامی لڑائی بنا کر پیش کرتے تھے۔ یہ سلسلہ اگر چند ملکوں تک محدود ہوتا تو آدمی صبر کر لیتا۔ دُنیا میں اہم اور ’’بڑے‘‘ ممالک کی تعداد ایک سو پچیس سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے 72 ممالک میں امریکہ نے حکمرانوں کا تختہ اُلٹا اور اپنی مرضی کی حکومت بنائی۔ یہ لیڈر بیچارے آوازیں بلند کرتے رہے، چیختے رہے، جلسے کرتے اور جلوس نکالتے رہے، دستاویزات دکھاتے رہے کہ یہ دیکھو امریکہ میرے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ میری ذات کو نشانہ اس لئے بنا رہا ہے کہ وہ پوری قوم کو محکوم اور غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ ان لیڈروں کے دیوانے ان کی باتیں سنتے تھے، سر بھی دھنستے تھے لیکن امریکی حکومت اور سی آئی اے کی سرمایہ کاری ایسے تین اہم گروہوں میں تھی (1) میڈیا، (2) عدلیہ ، اور (3) فوج۔ جو تینوں مل کر ایک ایسی قوت بن جاتے تھے جنہوں نے ان 72 ممالک میں امریکی منشا اور مرضی کے مطابق حکومتیں بدل کر رکھ دیں۔ عمران خان اس فہرست کا اگلا شکار ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ مقبول ہے اور اس کی خطا یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر جھکتا نہیں۔ امریکیوں کو اس سے کسی بھی وقت بدل جانے کا ڈر رہتا ہے۔ پاکستان اس وقت اس قسم کے وقفے سے گزر رہا ہے جو ایسے لیڈروں کو حکومتوں سے معزول کرنے کے بعد آتا ہے۔ اس وقفے میں بہت کچھ ہوتا ہے، بدامنی، لیڈر کی موت، موت کے بعد پھر ہنگامے اور پھر میڈیا میں فوج کو نجات دہندہ کے طور پر بلانے کے لئے آوازیں اور آخر کار فوج کی آمد۔ کیا ہم عین اسی پلان کے تحت اگلے مہینوں میں داخل ہوں گے یا پھر سب کچھ کسی بھی وقت اُلٹ سکتا ہے۔ میرے خیال میں سب کچھ اُلٹ بھی سکتا ہے کیونکہ اب اس وقت پاکستان میں صرف امریکی مفادات ہی زد پر نہیں ہیں بلکہ چین اور روس کے مفادات بھی زد پر ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟