لاہور: (ویب ڈیسک) میاں اشفاق انجم لکھتے ہیں کہ” نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک کے آخری عشرے کی 27ویں رات گزارنے کے بعد معاشرے کی ناہمواری اور وطن ِ عزیز میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ذہنی خلفشار کے ساتھ کالم کے عنوان کے ساتھ انصاف نہ کر سکوں۔ آج کا دن اس لحاظ سے بھی بڑا اہم ہے پاکستان کا قیام27رمضان المبارک اور جمعتہ المبارک کے دن عمل میں آیا اور آج اللہ نے ہمیں 27رمضان بھی دیا ہے اور جمعتہ المبارک کا دن بھی دیا ہے
اس تاریخی دن کی اہمیت ایک اور لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے۔گزشتہ روز وفاقی شرعی عدالت پاکستان کی تاریخ کا بڑا فیصلہ بھی آ گیا ہے،جو شرعی عدالت نے کئی ماہ کی سماعت کے بعد کئی دِنوں سے محفوظ کر رکھا تھا وہ کیس ہے جماعت اسلامی کی طرف سے دائر کیا گیا سود کے خلاف، اب تو پوری دنیا کے اسلامی سکالر اور دانشور دو ٹوک انداز میں کہہ رہے ہیں،دنیا بھر میں معیشت کا اتار چڑھاؤ اور بے برکتی کی بنیادی وجہ سود کا لین دین ہے۔سود کو اللہ کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے آج کا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ جماعت اسلامی کی بہت بڑی فتح ہے،شکر ہے پاکستان میں کوئی جماعت تو ہے جو عملاً اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے کوشاں ہے،سود کے خلاف فیصلے کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے،ریاست نے اخلاص سے سود کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد کر دیا تو ہمارے وطن ِ عزیز کی بنیادوں کو مضبوط کر سکتا ہے اور سود کے خلاف اگر ریاست دوبارہ فیصلہ چیلنج کرتی ہے تو پھر ہماری اور پوری قوم کی بدقسمتی ہو گی اللہ کرے ایسا نہ ہو۔26رمضان کی بابرکت ساعت میں آنے والے مثبتفیصلے کے اثرات پاکستان اور اُمت مسلمہ پر رحمتوں کا نزول ہو گا۔ اس حوالے سے آج کا کالم اور اس کا عنوان گزشتہ ایک ہفتے سے مجھے ڈسٹرب کر رہا ہے کئی دفعہ فلم ریلیز ہو جاتی ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کی یادیں تازہ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر ذہنی خلفشار اس حد تک بڑھتا ہے سب کچھ مٹ جاتا ہے،قلم کی حرمت آواز دے رہی ہے حق تو ادا کرنا آپ کا فرض ہے۔
عموماً کہا جاتا ہے مشکلوں کا آنا پارٹ آف لائف ہے اور ان میں سے ہنس کر باہر آنا آرٹ آف لائف ہے،معاشرے کی تقسیم سے واسطہ ہے خود غرضی اور ذاتی مفاد کے لئے دوسروں کو قربان کرنے کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ جاری ہے، برادری عزم اور سکہ بند مسلکی فرقہ واریت نے ہمارے معاشرے کو جکڑ رکھا ہے،نفسا نفسی کی دوڑ تمام حدیں پھلانگ رہی ہے،معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کے ہماری زندگی پر اثرات کو آج زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے آج دِل کی بھڑاس نکالنی ہے یا گزشتہ کچھ ہفتوں سے بڑھتی ہوئی صحافتی آزادی کی آڑ میں صحافیوں کی تقسیم اور مرضی کی صحافت اور رپورٹنگ کا رونا رونا ہے صحافت جسے چوتھا ستون قرار دے کر ہمیں بڑا سکون ملتا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، صحافت بڑا مقدس پیشہ ہے اس کے ساتھ انصاف کون کون کر رہا ہے؟ معاشرے میں تیزی سے ابتری کا ذمہ داری کون ہے راقم سمیت صحافیوں کی اپنی اپنی پسند سے انکار نہیں کیا جا سکتا، صحافیوں کی تنظیمی سیاست کی وجہ سے دھڑے بندی سے بھی ممکن ہے مگر گزشتہ دو ماہ میں نے صحافت کے جو رنگ دیکھے ہیں صحافت بالعموم اور رپورٹنگ بالخصوص جس رنگ میں رنگی گئی ہے،جس انداز میں صحافت کی تعریف بدلی گئی ہے انداز بدلا گیا ہے یہ ہمارے معاشرے اور صحافتی صنعت کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ آغاز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو اپنی پسند کے معنی نکالنے اور پسند کی باتیں نشر کرنے سے ہوا۔ایک ٹی وی نے ایسا کیا، دوسرے ٹی وی نے اپنی پسند کی خبریں چلانا شروع کر دیں، بھیڑ چال ایسی چلی کہ پھر اپنی جماعت اور پنی پسند اور اپنی دلائل دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔د لچسپ امر اور تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں کے سربراہ اور پیپلزپارٹی کے قائدین یکسوئی سے جعلی اسمبلی نامنظور کا نعرہ لگا رہے تھے، سلیکٹڈ کا طعنہ دے کر کبھی قبول نہ کرنے کا اعلان کر رہے تھے، پھر تاریخ نے دیکھا، سازش ہوئی یا ضمیر جاگے، جعلی اسمبلی میں عدم اعتماد آئینی طریقہ قرار پایا اور جعلی اسمبلی کے ذریعے سلیکٹڈ قرار پانے والے باہر اور جعلی جعلی کرنے والے اقتدار کی مسندوں پر آ چکے ہیں۔ایک سینئر صحافی دانشور اور کالم نویس کی طرف سے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹ کا حق ملنے کے خلاف انہیں مشورے کے طور پر ترغیب دے رہے تھے آپ پر اُس ملک کا زیادہ حق ہے جس ملک میں آپ رہ رہے ہیں اس ملک کا آپ پر زیادہ حق ہے آپ پاکستان آنے اور یہاں کا ووٹر بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں اور وہیں کاروبار کریں اور وہیں سیاست کریں،اب ہمارے سیاست دانوں کی دوعملی دیکھیں اور ان کے ترجمانوں اور نمائندوں کی ڈھٹائی دیکھیں، اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے اوورسیز پاکستانیوں کو ملک کا سرمایہ اور شان قرار دے رہے ہیں اور ان کی بھیجی ہوئی رقوم کو ملکی معیشت کا سہارا قرار دے رہے ہیں اب ووٹ کا حق عمران خان نے دیا ہے اس لئے اوورسیز پاکستانی اس کے شکر گزار ہیں یقینا آئندہ اس کو ووٹ دیں گے، ہمارے دانشور اور بڑے نام اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کی سیاست سے دور رہنے اور آرام سے کاروبار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں یہ بزرگ صحافی معمولی آدمی نہیں ہیں، بڑے اخبار میں ان کا روزانہ کالم شائع ہوتا ہے۔ایک اور بڑے اینکر اور یو ٹیوبر کی سن لیجئے، اس کو سبکدوش ہونے والی حکومت کی سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی مقبولیت ہضم نہیں ہو رہی، ٹیوٹر اعلان کر رہا ہے چھ کروڑ، دس کروڑ لوگ دیکھ چکے ہیں سوشل میڈیا پر ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ ہمارا دانشور، صحافی، اینکر اس پر پورا پروگرام کر کے ثابت کر رہا ہے فیس بُک،ٹیوٹر، فیک ہیں جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے نمبرنگ کی جا رہی ہے ایک میرے بزرگ اور بڑے بھائی نے تو عمران خان کے لاہور کے جلسے سے ایک دن پہلے کالم لکھ کر تاریخ رقم کر دی جس میں نہوں نے اپنا تجربہ بیان کر کے ثابت کر دیا۔ کل جب ہمیں اٹھایا جائے گا تو ہمارے اعمال اخبار کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہوں گے انور مسعود کے مطابق: روز شب کے میلے میں غفلتوں کے مارے ہم بس یہی سمجھتے ہیں ہم نے جس کو دفنایا بس اسی کو مرنا تھا حضرات ٹاپ ٹرینڈ اور نمبرنگ اور پوائنٹ سکورنگ کا پیمانہ ایک سا نہیں رہتا خداراہ انصاف کیجئے صحافت کو صحافت ہی رہنے دیں، صحافت کا بگاڑ معاشرے کا بگاڑ بن رہا ہے۔ معاشرے کا چوتھا ستون ہے یہ میلا ہوا تو کچھ نہیں بچے گا، سیاسی مخالفتوں کو ذاتی رنجشوں اور دشمنیوں میں نہیں بدلنا چاہئے۔