اسلام آباد: (ویب ڈیسک) گذشتہ شام مسجدِ نبوی کا احاطہ اس وقت ’چور، چور‘ کے نعروں سے گونج اٹھا جب پاکستان کی اتحادی حکومت کے وزرا وہاں موجود تھے۔ اس واقعے کی ویڈیوز دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شاہ زین بگٹی اور مریم اورنگزیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی جا رہی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تائید کی لیکن اکثر افراد اس کی مذمت کرتے دکھائی دیے اور پاکستان میں بڑھتی سیاسی تقسیم کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔تاہم یہ اس نوعیت کا اکیلا واقعہ نہیں ہے۔16 اپریل کی شام ضیا اللہ شاہ نے پشاور میں ایک ایسا ہی منظر دیکھا جب وہ ایک مقامی مکینک کی دکان پر بیٹھے اپنی گاڑی کی مرمت کروا رہے تھے۔اُن کے اِرد گرد کراچی میں 16 اپریل کی شام کو ہی ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کو براہِ راست سٹریم کرنے کے لیے بڑی سکرینیں لگائی گئی تھیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو چند دن قبل ہی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنے عہدے سے ہٹایا جا چکا تھا اور اب وہ شہر شہر سیاسی جلسے کر کے اپنی برطرفی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے حامی ضیا شاہ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ رات تک ان سکرینوں کے گرد ایک اچھا خاصا ہجوم اکھٹا ہو چکا تھا اور بازار میں جمع نوجوان ’ڈیزل ، ڈیزل‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔یہ توہین آمیز اصطلاح عمران خان اپنے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان پر پھبتی کسنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔سکرین پر عمران خان کو سننے کے منتظر پی ٹی آئی کے چند حامی نوجوان تو فضل الرحمان کو ’جان سے مار ڈالنے‘ اور ’پھانسی چڑھانے‘ کی دھمکی تک دے رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں فضل الرحمان کے حامی بھی اس مقام پر اکھٹے ہو کر عمران خان کے خلاف نعرہ بازی کرنے لگے۔ ان نعروں میں انھیں ’قادیانی ایجنٹ‘ اور ’یہودی ایجنٹ‘ بھی قرار دیا جا رہا تھا۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ضیا شاہ نے بتایا کہ صورتحال دیکھ کر وہ خوفزدہ تھے۔ ’مجھے ڈر تھا کہ شاید جلد ہی یہ مجمع پرتشدد نہ ہو جائے۔ میں چاہتا تھا کہ مکینک جلدی اپنا کام مکمل کرے تاکہ میں اس بازار سے جتنا جلد ممکن ہو نکل جاؤں۔‘ضیا اللہ شاہ، جو پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر ہیں، کہتے ہیں کہ آج کل سیاست پر بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کے جاننے والے ناراض ہو کر واٹس ایپ گروپ چھوڑ دیتے ہیں یا گالیوں پر اُتر آتے ہیں۔‘تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے ہی عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ اُن کی برطرفی امریکہ اور اس کے حریفوں کی طرف سے ’حکومت کی تبدیلی‘ کی ایک کوشش تھی کیونکہ اُن (عمران خان) کی اپنی وضاحت کے مطابق وہ ایک آزاد خارجہ پالیسی کی پیروی کر رہے تھے جو امریکہ کو ہضم نہیں ہوئی۔تاہم ملک کی اعلیٰ عسکری اور انٹیلیجنس قیادت نے بارہا کسی ’غیر ملکی سازش‘ کے ثبوت ملنے سے انکار کیا ہے۔ باوجود اس کے سابق وزیر اعظم اپنے حامیوں کو اس الزام کے ساتھ جوش دلانے میں مصروف ہیں۔ ان کی پارٹی نے احتجاجاً پارلیمنٹ سے استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد سے عمران خان نے انتہائی جارحانہ مزاج اپنایا ہے اور جلسے جلوس اور سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے عہدے دار اور حمایتیوں کی بیان بازی بظاہر پاکستانی معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ جب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اس کے بعد سے پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تیزی سے ایسے واقعات شیئر کیے گئے ہیں جس میں یہ واضح ہے کہ معاشرہ کس قدر گہری تقسیم کا شکار ہو چکا ہے اور اس بنا پر خاندان اور دوستوں میں عمران خان کے حامی اور ان پر تنقید کرنے والوں کے درمیان لکیر کھینچ دی گئی ہے۔
فوٹو جرنلسٹ انسیہ سید نے حال ہی میں ٹوئٹر پر کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک نوجوان ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کی تفصیل بتائی۔انسیہ سید نے دعویٰ کیا کہ جب وہ اپنے والد کو ہسپتال معائنہ کروانے لے گئیں تو اس دوران موجود ڈاکٹر پاکستان تحریک انصاف کے حق میں بات کرتے رہے اور جب شک پڑا کہ انسیہ کے والد خود صحافی ہیں تو انھوں نے ان کے معائنے سے انکار کر دیا۔اسی طرح، لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر ارسلان جب افطار ڈنر کے لیے اپنے دوست کے گھر گئے تو انھیں بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ڈاکٹر ارسلان کہتے ہیں کہ جب گفتگو کا رُخ سیاست کی طرف ہوا تو وہ حیران تھے کہ وہی لوگ جو پہلے عمران خان کی حکومت کو اس کی خراب حکمرانی پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے اب ان کے غیر ملکی مداخلت کے دعوے پر یقین کر رہے ہیں۔بہت سے افراد پی ٹی آئی کو ایسے سیاستدانوں کے خلاف نفرت کے بیج بونے کا واحد ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو ان کی پارٹی سے نہیں ہیں۔اقتدار میں ہوتے ہوئے عمران خان اور ان کے حکومتی وزرا نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں پر ’کرپٹ‘، ’غدار‘ یا ’لوٹا‘ ہونے کا الزام لگایا اور ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما اکثر حریفوں کا حوالہ دینے کے لیے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے جیسے شہباز شریف کے لیے ’بوٹ پالش‘ یا ’چیری بلاسم‘، مریم نواز شریف کے لیے ’نانی‘، بلاول بھٹو زرداری کے لیے ’بلو رانی‘ اور مولانا فضل الرحمان کے لیے ’ڈیزل‘ وغیرہ۔اس کے جواب میں حریف سیاسی جماعتوں نے خان کو ’یہودی ایجنٹ‘ قرار دیا اور لندن میں ان کی سابقہ اہلیہ اور خاندان کے بارے میں ذاتی حملے کیے۔ ان ناموں کو پھر پارٹی کارکنوں نے اٹھایا جنھوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلائے۔ بعض اوقات غصہ آن لائن سے آف لائن میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اس ماہ رمضان کے دوران عمران خان کی حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاستدان اور پی ٹی آئی کے کچھ ناراض ارکان اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں افطاری کے لیے جمع تھے کہ ان کے ساتھ ایک شخص جس پر انھیں شبہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا حامی تھا، کی جانب سے بدسلوکی کی گئی اور اس کے بعد جسمانی حملہ کیا گیا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان جنھیں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا’تقسیم کے لیے عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شیر علی ارباب نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سوسائٹی میں تقسیم بڑھ چکی ہے لیکن دوستوں اور خاندان میں اب بھی قدرے رواداری موجود ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’تقسیم کا عمل ایک دم نہیں ہوتا بلکہ یہ برسوں یا دہائیوں میں پنپتی ہے۔‘شیر علی ارباب کے مطابق پاکستان میں اس تقسیم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست اور جمہوریت بالغ نہیں ہو سکی۔ ’اب تک کوئی ایک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں کر پایا، 2008 تک سیاسی حکومتیں اور فوجی آمریت ٹکراتے رہے ہیں۔‘ ان کا موقف تھا کہ کمزور سول اداروں خصوصا احتساب کرنے والے ادارے جو دباو یا کسی اور وجہ سے کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے، کرپٹ سیاست دانوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ یہ دکھا سکیں کہ ان سے ظلم ہو رہا ہے اور اسے اپنے سپورٹرز کے سامنے استعمال کرتے ہیں۔’اس کے ساتھ تعلیم کی کمی اور شرح خواندگی ایسے اجزا ہیں جو اس تقسیم کی وجہ بنتے ہیں۔‘شیر علی ارباب کا کہنا تھا کہ اس تقسیم کے لیے عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیوں کہ ’سیاسی عدم برداشت ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس کی مثال نوے کی دہائی کی سیاست سے لے لیں۔‘انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو پروان چڑھایا جائے۔ ’یہ عجیب بات ہے کہ سیاسی رہنما جمہوریت، مضبوط اداروں اور قانون کی حکمرانی کی کی بات کرتے ہیں لیکن خود ان کی جماعتوں میں موروثی سیاست اور آمریت کی جھلک نظر آتی ہے۔‘’اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ سیاست دان فوجی اسٹیبلشمنٹ کو آئینی اور پروفیشنل حدود میں رہ کر کام کرنے کو یقینی بنائیں۔ لیکن ایسا تبھی ہو گا جب سیاست دان اقتدار کی خواہش پر قابو پائیں اور ان کا اپنا دامن صاف ہو۔‘ لاہور میں سماجیات اور سیاست کے پروفیسر عمیر جاوید نے کہا کہ پاکستان نے ماضی قریب میں 2011 میں اسی طرح کے پولرائزیشن کا مشاہدہ کیا، جب پی ٹی آئی پہلی بار عام انتخابات سے دو سال قبل سیاسی منظر نامے پر اُبھری تھی۔ اب ان کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد سے پولرائزیشن دوبارہ شروع ہوئی ہے اور عمران خان اسے اگلے انتخابات سے پہلے اپنے بنیادی ووٹر بیس کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے عمیر جاوید نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی نے سیاسی پولرائزیشن میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’چونکہ پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جو خود کو سٹیٹس کو کے خلاف اور روایتی اشرافیہ کے خلاف پیش کرتی ہے، اس لیے اس کی سیاست کا پورا برانڈ خود کو دوسرے سیاسی متبدلات سے الگ کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے دوسروں کو مکمل طور پر مسترد کر دینا۔‘لیکن عمیر جاوید اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ پاکستان حقیقت میں اتنا ہی پولرائزڈ ہے جتنا کہ سوشل میڈیا پر اسے بتایا اور دکھایا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ووٹر کس طرح پولرائزڈ ہے اس کا تعین کرنے کا ایک طریقہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا ایک سیاسی پارٹی کا حامی دوسری پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہے اگر اس کی پہلی پسند انتخابات میں حصہ نہ لے رہی ہو۔اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ 2018 کے انتخابات کے پولنگ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو وہاں مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی کے ووٹرز کی ایک قابل ذکر تعداد موجود تھی جو کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے تیار تھے اگر ان کا پسندیدہ امیدوار دوڑ میں شامل نہ ہوتا تو۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے اس قسم کی پولرائزیشن نہیں دیکھی جو آپ امریکہ یا ہندوستان جیسی جگہوں پر دیکھ سکتے ہیں جہاں اگر لوگ اپنی پسند کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے تو وہ گھر ہی رہتے ہیں۔‘ اگرچہ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگلے انتخابات اس بات کی واضح تصویر پیش کریں گے کہ پاکستانی ووٹرز سیاسی طور پر کتنے پولرائزڈ ہیں۔دریں اثنا سمین جو اسلام آباد میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے کام کرتی ہیں اور کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتیں اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ ملک میں پولرائزیشن ہوئی ہے۔ تاہم وہ مزید کہتی ہیں کہ عمران خان کی برطرفی کے بعد سیاست پر بات کرنا آسان ہو گیا ہے۔بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ڈیم ٹوٹ گیا ہو۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اب وہ لوگ بھی جو منڈیر پر بیٹھے تھے، جو سخت گیر حامی نہیں تھے، حالیہ سیاسی واقعات کے بارے میں رائے رکھتے ہیں۔‘سمین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ حوصلہ افزا ہے کیونکہ ’اس میں سچائی ہے۔‘ عمیر جاوید کا کہنا ہے کہ فی الحال اس گہری ہوتی اور قدم جماتی تقسیم یا پولرائزیشن سے نمٹنے کے لیے پہلا قدم پی ٹی آئی کو دوبارہ پارلیمنٹ میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنا ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ ’سچ کہوں تو پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ میں واپس آنے اور انتخابی اصلاحات جیسے قومی معاملات پر پارلیمانی کمیٹیوں میں کام کرنے سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔‘پشاور میں گاڑیوں کی مرمت کی ایک چھوٹی سی دکان کے مالک رضوان احمد کے لیے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ تمام سیاسی جماعتیں معاشرے میں تقسیم کی ذمہ دار ہیں۔ وہ سیاست دانوں کی لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں اور کہتے ہیں پاکستان کے اصل مسائل جیسا کہ مہنگائی ان پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ پچھلے ہفتے انھوں نے دکان کے باہر ایک تختی بھی لٹکائی تھی جس پر لکھا تھا ’برائے مہربانی سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔‘بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کی اپنی لڑائی ختم نہیں ہوتی تو یہ سب عوام کے لیے کیا کریں گے۔‘