Categories
منتخب کالم

برسات کی ایک خوبصورت صبح ہلکی ہلکی سی پھوار میں بھیگتے ہوئے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔۔۔۔ دلچسپ تحریر جو پڑھتے ہوئے آپ ہنس ہنس دوہرے ہو جائیں گے

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار علی عمران جونیئر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی ”موسموں کا شہر“ میں فرماتے ہیں۔۔کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اْکسانے میں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا

تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت ہوتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ۔۔ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ”رش“ لیتا ہے۔وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیےراولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی ”روپیہ“ کی طرح بہا یا جاتا ہے۔۔۔ایک زمانہ تھا جب کراچی میں بارشیں عام طور سے گرمیوں میں ہی ہوتی تھیں،

ہمیں یاد ہے اماں،ابا اس وقت تک گھر میں آم نہیں لاتے تھے جب تک ایک پر برسات نہ گزرجائے۔۔شاید اماں اباسوچتے ہوں گے کہ بارش کے بعد آنے والے آم زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، لیکن یقین کریں ہم نے کئی بار بازار میں بارشوں سے پہلے آم کو ٹھیلوں اور دکانوں میں پڑے دیکھا۔۔گرمیوں کی پہلی برسات کے بعد آموں کے ساتھ کالے جامن بھی کھائے جاتے تھے، آم کے مضراثرات سے بچنے کے لئے کچی لسی پی جاتی تھی۔۔کیوں کہ پھر یہ یقین رہتا تھا کہ اب ”دانے“ نہیں نکلیں گے۔۔ ہمارے زمانے میں برسات کے گانے بھی عجیب ہی میلوڈی رکھتے تھے۔۔جھولا ڈالو ری، سکھی ساون آیو۔۔ساون کے دن آئے بالم، جھولا کون جھلائے۔۔اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔۔ اور آج کل کے گانے سنیں۔۔ برسات کے موسم میں،تنہائی کے عالم میں، میں گھر سے نکل آیا، بوتل بھی اٹھالایا۔۔جب ہم نے باباجی سے ”بوتل“ کی تشریح چاہی تو فرمانے لگے۔۔ بیٹاجی، یہاں گھر سے نکلتے وقت بوتل اس لئے لے کر نکلاگیا ہے کہ گھر میں چلنے والے جنریٹر کا فیول ختم ہوگیا ہے، پٹرول پمپ سے پٹرول بوتل کے بغیر ملنا نہیں۔۔ اور تمہیں تو پتہ ہے، برسات میں بجلی ہوتی کہاں ہے؟؟دو پاگل چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہو گئی۔ایک پاگل کہنے لگا۔۔چل اٹھ یار،اندر چل،آسمان میں سوراخ ہوگیا ہے۔۔ اتنے میں بجلی بھی کڑکدار انداز میں چمکی، دوسرا پاگل کہنے لگا۔۔اوئے سوجا، ویلڈنگ والے بھی آگئے ہیں۔۔برسات کی ایک خوبصورت صبح ہلکی ہلکی سی پھوار میں بھیگتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔۔انّی دیا! ٹکراں تے نہ مار!۔۔اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔عورت کی کشش اور زمین کی کشش میں کوئی خاص فرق نہیں،دونوں ہی خاک میں ملادیتی ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔