Categories
پاکستان

جنرل ضیاء کے 90 روز کے مارشل لاء کو ساڑھے آٹھ سال طول دینے کا سہرا بھی میرے سر باندھا جاتا اگر ایک کام ہو جاتا ۔۔۔۔۔۔۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے ایک اقتباس

لاہور (شہاب نامہ : از قدرت اللہ شہاب ) 24 اکتوبر 1954 کو جب گورنر جنرل غلام محمد نے سب سے پہلے اسمبلیاں توڑ کر آمریت کا ڈول ڈالا اس وقت میں پنجاب کی صوبائی حکومت کے ماتحت لاہور میں ڈائریکٹر آف انڈسٹریز کے طور پر متعین تھا ۔اس واقعہ کے سات آٹھ روز بعد

مجھے اچانک گورنر جنرل کا سیکرٹری مقرر کر دیا گیا ۔اس کی وجہ مجھے اب تک معلوم نہیں ۔اس وقت ملک غلام محمد سے میری نہ کوئی ذاتی شناسائی تھی نہ کوئی رابطہ تھا ۔ اکتوبر 1954میں جب اسکندر مرزا اور کمانڈر انچیف ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہوا اس وقت 20 ستمبر سے میں جناح ہسپتال کراچی میں عارضہ قلب کے علاج کے لیے داخل تھا اکتوبر کے شروع میں ہسپتال سے گھر آگیا ، ڈاکٹروں کا حکم تھا کہ مزید 2 ہفتے دفتر نہ جاؤں اور گھر پر ہی مکمل آرام کروں ۔مارشل لاء لگنے کی خبر مجھے پہلی بار کرنل مجید ملک نے رات کے 12 بجے گھر پر ٹیلیفون کرکے سنائی ۔ وہ ان دنوں مرکز میں پرنسپل انفارمیشن آفیسر تھے ۔ دوسرے مارشل لاء کی سازش جنرل محمد یحییٰ اور انکے ایک مخصوص ٹولے تک محدود تھی ۔پورے دس روز تک میں اسلام آباد کے مرکزی سیکرٹریٹ میں بے کار بیٹھا مکھیاں اڑاتا رہا ۔ چند روز بعد اس دھاندلی پر ہلکا سا احتجاج کرکے میں بیوی بچوں سمیت بیرون ملک چلا گیا اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔ تیسرے مارشل کے وقت میں اسلام آباد میں گوشہ نشینی کی زندگی کا لطف اٹھا رہا تھا ۔ اقتدار میں آنے کے 35 روز بعد مجھے اچانک جنرل محمد ضیاء الحق کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم ملا ۔ رمضان شریف کے دن تھے تراویح کے بعد رات کے تقریباً گیارہ بجے میں آرمی ہاؤس پہنچا ۔ اس وقت جنرل صاحب اپنے ڈرائنگ روم میں مولانا ظفرالحق انصاری کے ساتھ مصروف گفتگو تھے ۔

ان سے فارغ ہو کر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ” ملک کے اس نازک مرحلے میں ہمیں تجربہ کار کارکنوں کی ضرورت ہے ۔ میری خواہش ہے کہ کل سے تم وزارت تعلیم کا کام سنبھال لو ۔ یہ سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے عرض کیا ۔ جناب اب مجھ میں کام کرنے کی سکت باقی نہیں رہی کچھ تو ضعیف العمری کا تقاضا ہے کچھ ریٹائرڈ زندگی نے آرام پسندی کی عادت بڑھا دی ہے ۔ اس کے علاوہ میں کچھ عرصہ کے لیے لندن جاکر اپنے دوست ابن انشاء کی عیادت کرنا چاہتا ہوں ۔ جنرل صاحب مسکراتے رہے اور فرمایا کوئی بات نہیں ضرور جاؤ۔ وزارت تعلیم کے سیکرٹری محمد اجمل چند روز میں یونیسکو کی کسی تعلیمی کانفرنس کے لیے جینیوا جارہے ہیں ۔ میں تمہیں انکے ساتھ ایک ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے بھیج رہا ہوں ۔ وہاں سے لندن بھی ہو آنا ۔واپسی پر پھر بات ہوگی۔ میں نے اس وقفہ کو غنیمت جانا اور ڈاکٹر اجمل کے ساتھ پہلے جینیوا اور پھر لندن چلا گیا ہم کچھ روز ابن انشا کے ہاں ٹھہر کر واپس اسلام آباد آگئے ۔ میں اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ میری ٹال مٹول پہچان کر اب وزارت تعلیم میں کام کرنے کی بات آئی گئی ہو چکی ہو گی ۔ لیکن میرے کئی عزیزوں اور دوستوں نے جو فوج میں ملازم تھے مطلع کیا کہ جی ایچ کیو کے افسروں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے میرا نام لے کر بتایا کہ انہوں نے شعبہ تعلیم کے لیے مجھے منتخب کررکھا ہے ۔ اس کے علاوہ کویت سے میرے ایک دیرینہ دوست کا مبارکباد کا خط آیا کہ مشرق وسطیٰ کے کسی مقام پر پاکستانیوں کے ایک مجمع میں تقریر کرتے ہوئے جنرل صاحب نے پھر یہی بات دھرائی ۔ مجھے تشویش تو ضرور لاحق ہوئی لیکن میں خاموشی سے کان لپیٹ کر اسلام آباد میں بیٹھا رہا ۔ اس دوران چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کو اپنی مرضی کے دوسرے نورتن مل گئے ۔ میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہ تو اس موضوع پر پھر کوئی بات چھیڑی اور نہ کسی قسم کی ناراضگی کا ہی اظہار کیا اگر خدانخواستہ میں لالچ میں آکر یہ پیشکش قبول کر لیتا تو مجھے یقین ہے کہ نوے روز کے مارشل لاء کو ساڑھے آٹھ سال تک طول دینے کا سہرا بھی اسی خاکسار کے سر باندھا جاتا ۔