Categories
منتخب کالم

ڈاکٹر امجد ثاقب نے ” اخوت” کی بنیاد کب اور کیسے ڈالی ؟ اصل وجوہات اور ابتدائی ایام کا ذکر آٌپ کو حیران کر دے گا

نامور صحافی جاوید چوہدری اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہارورڈ یونیورسٹی شاید دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی 1636 میں بنی اور اسے پروان چڑھانے میں پادریوں نے مرکزی کردار ادا کیا ،دنیا کی 50 نوبل انعام یافتہ شخصیات ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہیں ، اس یونیورسٹی کا بجٹ دنیا کے 22 ممالک کے

بجٹ کے برابر ہوتا ہے اور یہ یونیورسٹی اکیلی پاکستان کا پورا قرضہ ادا کر سکتی ہے ، ہم پوری قوم مل کر ہر سال برآمدات کے زریعے جتنے ڈالر کماتے ہیں ، یہ یونیورسٹی اتنا سرمایا صرف اپنی ریسرچ اور اپنی ایجادات کے حقوق سے حاصل کرتی ہے ، اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا ایک اعزاز ، اس یونیورسٹی میں کسی ملک کی شخصیت یا کسی ادارے کے بارے میں ریسرچ ہو یا پھر یہ یونیورسٹی آپ کو لیکچر کیلئے بلوائے یہ بھی اعزاز کی بات ہوتی ہے ۔اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو خصوصی خطاب کیلئے ہارورڈ بلوایا ہے ، ڈاکٹر امجد ثاقب نے آج سے دس سال قبل اپنے چند دوستوں کے ساتھ ملکر “اخوت” کے نام سے ایک فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی تھی ، یہ ادارہ نادرا اور غریب لوگوں کو کاروبار کیلئے قرض حسن دیتا ہے ، یہ قرض بلا سود ہوتا ہے اور قرض دار کو یہ رقم دس سے بارہ اقساط میں واپس کرنا ہوتی ہے ، اخوت ایک بابرکت ادارہ ثابت ہوا ، یہ اب تک لاکھوں خاندانوں کو اربوں روپے قرض دے چکا ہے اور یہ خاندان اپنے قدموں پر کھڑے ہیں ، اخوت ایک طلسماتی تنظیم ہے ، ملک میں تنظیم کے ایک سو پچاس سے زائد دفاتر ہیں ، ایک ہزار کے قریب ملازم ہیں ، تنظیم کے دفاتر مساجد میں قائم ہیں ، تنظیم کسی قسم کی ضمانت کے بغیر قرضے دیتی ہے ، قرض دار اس رقم سے کاروبار کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے اور یہ شخص نہ صرف قرض واپس کر دیتا ہے

بلکہ یہ اپنے قدموں پر بھی کھڑا ہو جاتا ہے دنیا پاکستانی قوم کو بے ایمان اور نالائق سمجھتی ہے لیکن پاکستانی قوم کے بارے میں اخوت کا تجربہ بالکل مختلف ہے ، اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح ننانوے اشاریہ پچاسی فیصد ہے اور یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ، اخوت بلا سود قرضوں کی دنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن بھی ہے اس نے پوری دنیا کی مائیکروفنانسنگ کو ہلا کر رکھ دیا اس سے قبل گرامین بنک نے دنیا کو حیران کیا لیکن گرامین بینک چالیس فیصد تک سود وصول کرتا ہے جبکہ اخوت بلا سود قرضے دیتی ہے ، جس مین قرضے کے حصول کیلئے ضمانت کی ضرورت نہیں ہوتی اور جس کا ریٹرن تقریباً سو فیصد ہے اور یہ اس کے باوجود ترقی کر رہی ہے ، اخوت کی اس گروتھ نے دنیا کو حیران کر دیا چنانچہ ہارورڈ یونیوسٹی نے ڈاکٹر ثاقب کو خطاب کی دعوت دے دی ، ڈاکٹر امجد ثاقب آج 23 مارچ کو ہارورڈ یونیورسٹی کے سکالر کو بتائیں گے اخوت عام آدمی کی زندگی میں کیا کیا انقلاب لائی ، پاکستانی معاشرے نے بلا سود قرضوں کو کس طرح امانت سمجھا ، دنا کی پہلی اتنی بڑی آرگنائزیشن کیسے چل رہی ہے ، یہ آرگنائزیشن کیسے پھل پھول رہی ہے اور اس آرگنائزیشن نے صرف دس برسوں میں اتنا فاصلہ کیسے طے کر لیا وغیرہ وغیرہ ۔ڈاکٹر امجد ثاقب ہارورڈ یونیورسٹی کے سکالرز کو کیا جواب دیتے ہیں ، یہ ڈاکٹر امجد جانتے ہیں یا ہارورڈ یونیورسٹی لیکن جہاں تک اخوت کی بات ہے ، اخوت بہر حال پاکستان اور پاکستانیوں کے لیئے اعزاز ہے ، پاکستان تاریخ کے بد ترین فیز سے گزر رہا ہے دنیا ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ، پاکستان میں بدعنوانی کی کہانیاں بھی پوری دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث بن رہی ہیں لیکن ان تمام بری خبروں اور برے حالات میں اخوت جیسی اچھی خبریں بھی ہیں ، ملک میں ایسے ایسے مخیر حضرات موجود ہیں کہ ان کی کہانیاں سن کر حیرت ہوتی ہے ۔اس نوعیت کی کہانیاں پورے ملک میں بکھری ہوئیں ہیں یہ کہانیاں اور ان کہانیوں سے متعلقہ شخصیات اصل پاکستان ہیں ۔ہمارا اصل پاکستان وہ نہیں جو ہم روزانہ ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھتے ہیں ،ہمارا اصل پاکستان یہ شخصیات اور اخوت جیسے ادارے ہیں اور ہم ان اداروں پر جتنا فخر کریں کم ہو گا ۔میں ڈاکٹرامجد ثاقب اور اخوت دونوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان لاکھوں خاندانوں کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جہنوں نے قرض حسن واپس کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں ایمانداری مری نہیں ،یہ معاشرہ ابھی تک پورا بنجر نہیں ہوا اور مجھے یقین ہے ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ جب تک زندہ ہیں اس وقت تک یہ معاشرہ نہیں مرے گا ، ہماری امید اس وقت تک قائم رہے گی۔۔۔ ،،