امریکہ اور پاکستان میں ایک ہی دن عید نہیں ہو سکتی کیونکہ 12 گھنٹے کا فرق ہے لیکن پاکستان کے اندر ایک عید کیوں نہیں ہوتی ؟ علامہ ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے اصل کہانی بتا دی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور عالم دین ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔کیا عید الفطر ہر سال 29دن کے بعد ہونے پر لازما منانے کیلئے رویت ھلال کر لی جائے؟ کیا پوری دنیا میں ایک ہی دن عید منانی چاہیے؟ آخر علمائے کرام عید پورے پاکستان میں ایک دن کیوں نہیں منا لیتے؟
عید الفطر کا اعلان رات گئے کیوں کیا جاتا ہے کہ آدھی خوشی ویسے ہی ماند پڑ جاتی ہے ۔ کیا کسی دوسرے ملک کی رویت پاکستان کیلئے حجت بن سکتی ہے ؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوالات خصوصا عید الفطر اور اس کے چاند کی روئیت کے بارے عامۃ الناس کے اذھان میں آرہے ہوتے ہیں۔رویت ھلال کا فیصلہ دراصل قضاء کی قسم سے ہے۔ فیصلہ کرتے وقت گواہی کا تزکیہ کیا جاتا ہے ۔ ایک طرف گواہ کی ذاتی حیثیت ،مقام وکردار اہم ہوتا ہے تو دوسری طرف اس کی گواہی کی پرکھ بھی ضروری ہے کہ معلوم ہو جائے کہ رویت کی گواہی دینے والے نے ھلال کو مطلع پر کہاں ، کتنی بلندی اور موٹائی میں دیکھااور یہ بھی کہ رویت کے تمام پیرامیٹرز پورے بھی تھے کہ نہیں۔ اب اس زمانہ میں اسلامی احکامات میں وقت کا تعین ،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منٹ اور سیکنڈز تک پہنچ چکا ہے ۔ 1400سال قبل نمازوں کے اوقات اور روزے کے سحری اور افطاری کے وقت میں قدرے وسعت ہوتی تھی ۔ لیکن اب ایسا نہ ہے ۔ وقت کے تعین میں سیکنڈز کے شمار نے اب اوقات کے ابتداء اور انتہاء کو مزید متحقق کر دیا ہے ۔ جیسا کہ اگر سورج کا زوال بارہ بج کر 12منٹ اور25سیکنڈمیں ختم ہو تا ہے ۔ تو اس سے قبل ظہر کی نماز کی ادائیگی نہ ہوگی ۔ ایسے ہی اگر مورخہ26/4/22کو روزہ کا سحری کا وقت تین بج کر چون منٹ اور 2سیکنڈہے تو پانچ دس سیکنڈز کے آگے کرنے کا کوئی نہیں سوچ سکتا ۔ ایسے ہی افطاری اگر 6:40:59PM پر ہے تو پانچ دس سیکنڈز پہلے کوئی روزہ کھول کر برباد نہ کرے گا ۔
جب اوقات کا تعین سیکنڈز تک ہو چکا ہے تو سورج کے نکلنے ، زوال ،غروب کے وقت کا تعین بھی اتنی ہی باریک بینی سے کیا جاچکا ہے ۔ اسلامی قمری کیلینڈ میں ماہ کی ابتداء ایک رات قبل ھلال کی رویت سے مشروط ہے ۔ ہر قمری ماہ 29یا 30 ایام کا ہوتا ہے ۔ اس لیے ہر قمری ماہ کے اختتام پر چاندکی 29تاریخ کو رویت ھلال کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں اگر29تاریخ کو رویت ہو گئی تو اگلے قمری ماہ کا آغاز ہو جائے گا اور اگر نہ ہو ئی تو 30یوم کا عدد پورا کر نا پڑے گا ۔ حدیث کے مطابق چاند کی رویت کر کے (رمضان )شروع کیا جائے اور اگلا چاند دیکھ کر ہی افطار (عید الفطر منائیں) اور اگر تم پر بادلوں کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو گنتی کو پورا کرو۔ چاند کی رویت چاہے بادلوں کے ہونے کی وجہ سے نہ ہو یا چاند کی عمر کم ہونے کی وجہ سے نہ ہو ۔نیا قمری ماہ شروع نہیں ہو سکتا ہے ۔ قمری ماہ کی 30تاریخ کو اگر بادل نہ ہوں تو چاند لازمی نظر آئے گا۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں محکمہ موسمیات اور سپارکو باقاعدہ چاند کی رویت کا اہتمام کرتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی کمیٹی کے ممبران کے ساتھ ان محکموں کے ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہر سال یہ دونوں محکمے عید کے اعلان سے 15روز قبل تک اپنی اپنی ویب سائٹس پر رویت کے بارے اعداد وشمارشیئر کر دیتے ہیں۔ لیکن ابھی تک ماہ شوال کے اعدادوشمارشیئر نہیں کیئے گئے ہیں ۔
جو کہ محل نظر ہے ۔ شاید ایسا کرنے سے انہیں منع کیا گیا ہے ۔ پاکستانی علاقوں میں رویت ہلال کے متحقق ہونے کے لیے باقاعدہ پیرا میٹرز مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ پیرا میٹرز کی روشنی میں رویت کی تصدیق کی جاتی ہے ۔ اگر یہ پورے نہ ہوں تو رویت کی گواہی دینے والا شخص محل نظر ہوتا ہے ۔ ایسی گواہی جو کہ ان پیرا میٹرز کے بر خلاف ہو بھی محل نظر ہے ۔ پاکستانی علاقوں میں رویت کیلئے ضروری ہے کہ چاند کی عمرکم ازکم19 گھنٹے ہواس کے ساتھ ساتھ چاند اور سورج کے غروب میں40منٹ کاوقفہ ہو ، چاند کا مطلع پر6 درجہ پر موجود ہونا اور مطلع کا غبار اور آلودگی سے پاک ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ چاند کا سورج سے زاویائی کم ازکم فاصلہ10ڈگری پر ہو ۔اس پس منظر کی روشنی میں کالم کے شروع میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے ۔ضروری نہ ہے کہ عید الفطر ہر سال 29دنوں کے اختتام پر منا لی جائے ۔ 29ویں روزے کو اگر چاند نہ نظر آیا تو اب 30ویں روزے کی طرف جائیں گے ۔ جو کہ فطری ہے ۔ اب 30روزے مکمل ہونے پر رویت ھلال کی ضرورت نہ ہے کیونکہ گنتی پوری ہو گئی ہے ۔ لیکن آسمان پرچاند نظر آرہا ہو گا۔پوری دنیا میں ایک ہی دن عید نہ ہو سکتی ہے ۔ پاکستان اور امریکہ کا 11-12گھنٹے کا فرق ہے ۔ جس کے نتیجہ میں چاند کی رویت کا بھی فرق واضح ہو جاتا ہے ۔ چاند کی پیدائش سے لے کر اس کی روئیت کے قابل ہونے تک کم از کم 19گھنٹے گزارناضروری ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ چاند سورج کے غروب ہونے کے بعد غروب ہوا گر پہلے غروب ہو گیا تو رویت ھلال نہ ہو سکے گی ۔ چاند کی رویت کا انحصار اس کی موٹائی ،عمر 19گھنٹے، چاند کے سورج کے بعد غروب ہونے ، اور مطلع پر کم از کم 40منٹ موجود رہنے کے ساتھ ہی ممکن ہے ۔ اب 1443ھ کے رمضان کے روزوں کی تعداد کا جائزہ لیتے ہیں۔ عالمی فلکیاتی اداروں کے مطابق پاکستان میں29رمضان یکم مئی 2022ء کو چاند نظر نہیں آئے گا ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 29رمضان 1443ھ بروز اتوار وقت1:28 AMپر نیا چاندبنے گا لاہور میں غروب آفتاب کے موقع پر اس کی عمر 17گھنٹے 14منٹ ہو گی۔ اور یہ سورج کے غروب ہونے کے 36منٹ کے بعد غروب ہو گا۔ ایسے ہی اسلام آباد میں عمر 17گھنٹے 22منٹ،پشاور میں17گھنٹے29منٹ ، کراچی میں عمر17گھنٹے33منٹ ہو گی اور سورج غروب ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ36منٹ کے بعد غروب ہو جائے گا۔صرف گلگت کے مختلف علاقوں میں 37منٹ تک رہے گا۔ اس لیے اس کی رویت نہ ہو سکے گی ۔ حتی کی ٹیلی سکوپ سے بھی ممکن نہیں ہو گی ۔ کیونکہ یہ چاند Eدرجہ کا ہے ۔ اس ماہ پاکستان میں محکمہ موسمیات کے مطابق 30روزے ہوں گے ۔ محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قمری کیلینڈر کے مطابق بھی 30روزے ہوں گے ۔ سعودی عرب میں 2۔اپریل ہفتہ کو پہلا روزہ تھا ۔ 30رمضان بروز اتوار کو سعودی عرب میں چاند کھلے عام نظر آنا چاہیے لیکن سائنسی اعداد وشمار کے مطابق نری آنکھ سے بھی چاند نظر نہیں آئے گا جبکہ اسی دن اتوار کو پاکستان میں 29رمضان ہو گی اور چاند نظر نہ آئے گا۔ اور پاکستان میں30روزے ہونے کا امکان ہے۔ 30ویں روزے کے بعد جب چاند نظر آئے گا تو اس کی عمر 41گھنٹے سے زیادہ ہو گی اور یہ قدرے دیر تک آسمان پر نظر آئے گا۔ کہنے والے اسے دوسری کا کہیں گے لیکن یہ پہلی کا ہی ہو گا ۔ ایک دن عید منانا صرف چند لوگوں کے احترام میں کہ اگر ان کے مطابق نہ کی گئی تو ملک میں دو عیدیں ہو جائیں گیں۔یا للعجب۔صرف شرعی گواہی کو بنیاد بنا کر چاند کی رویت کروا کے ملک کے اکثر یتی لوگوں کے روزے نہ خراب کیئے جائیں جو 30روزے رکھنے کو تیار ہیں۔ہمارے ملک کا اپنا نظام ہے ۔ ہمیں کسی اور ملک کے تابع ہو کر رویت ھلال کے فیصلہ نہیں کرنے چاہییں۔مرکزی رویت ھلال کمیٹی کے فاضل ممبران پر اعتماد کیا جائے۔ ان پر کسی طرف سے بھی دباؤ نہ ڈالا جائے۔