ٹانگہ پارٹی والے شیخ رشید کس طرح عمران خان کو منزل سے دور کرنے میں مصروف عمل ہیں ؟ ناقابل یقین حقائق

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔لاہور آخر وقت تک پتہ نہیں لگنے دیتا کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ ابھی چند دن پہلے عمران خان نے مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا تو یوں لگتا تھا لاہور میں سوائے پی ٹی آئی کے کسی کی حمایت موجود نہیں،

مگر اب کل لاہور کے ایک قومی حلقے میں مریم نواز نے جلسہ کیا ہے تو لاہوریوں کی ایک بڑی تعداد وہاں بھی موجود تھی۔ اصل میں جمہوریت کا حسن ہی یہ ہے کہ اس میں کسی ایک پارٹی کسی ایک شخصیت کو ایسی اکثریت حاصل نہیں ہوتی کہ وہ مطلق العنان اور آمر حکمران بن جائے۔ اب حمزہ شہباز اور مریم نواز نے اعلان کر دیا ہے کہ جہاں عمران خان جلسہ کریں گے وہاں وہ بھی جلسہ کرنے پہنچیں گے، یوں جوڑ خوب پڑے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ سال الیکشن کا ہے۔ سال گزار بھی لیا گیا تو اگلے سال کے آغاز میں انتخابات نے ہونا ہی ہے۔ سو یہ جلسے ریلیاں تو اب چلتی ہی رہیں گی۔ تاہم ایک گزارش ضرور کرنی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مہم ضرور چلائیں مگر سیاسی پولرائزیشن کو اتنا نہ بڑھائیں کہ وہ نفرت کا درجہ اختیار کرے۔ مریم نواز کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں کا حساب برابر کرنا چاہتی ہیں۔ وہ عمران خان کا نام بھی رکھ رہی ہیں اور توشہ خان کہہ کر پکارتی بھی ہیں، انہوں نے کل اپنے ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ عمران خان اور ان کی ساری سابق کابینہ اب اندر جانے والی ہے۔ نام بگاڑنے کا کام تو عمران خان کرتے ہیں، یہ عادت اگر مریم نواز بھی اپنا لیں گی تو کام خراب ہی ہوگا۔ کل ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے ہم انتقام نہیں لیں گے صرف قانون پر چلیں گے۔ یہ اچھا بیانیہ ہے اگر یہی بیانیہ مریم نواز بھی اختیار کریں تو ماحول میں تلخی پیدا نہیں ہو گی۔

کپتان کو بھی چاہئے کہ وہ بات بات پر اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر نہ لائیں ان کے بیانات ہی کافی ہیں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج کی جو کال دی وہ اس لئے زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی کہ شہر شہر احتجاج کی وجہ سے بہت کم کارکن نظر آئے، ملتان کا یہ حال تھا کہ چند درجن لوگ الیکشن کمیشن آفس کے سامنے موجود تھے اور ان میں بھی کوئی نمایاں نام نہیں تھا۔ منیرنیازی کا ایک شعر ہے۔عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی!۔۔جس شہر میں بھی رہنا اُکتائے ہوئے رہنا۔۔اگر عمران خان بھی صرف احتجاج کی عادت ہی اپنا لیتے ہیں تو کل کلاں مریم نواز نے انہیں احتجاج خان کا خطاب بھی دیدینا ہے۔ عمران خان یہ تو ثابت کر چکے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں، ان کی کال پر باہر بھی نکل آتے ہیں ٹویٹر کا ٹرینڈ بھی بنا دیتے ہیں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاست صرف اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کا نام نہیں، اس میں اور بھی بہت کچھ کرنا اور دیکھنا پڑتا ہے۔ انہیں یہ بات اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ ایوانوں کی سیاست بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ عوام ساتھ ہیں اس لئے انہیں کوئی اقتدار سے باہر نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ایسے موقع پر کہ جب انہیں اپنے منحرف ارکان پر توجہ دینی چاہئے تھی اتحادیوں کو راضی کرنا چاہئے تھا، جلسوں کے ذریعے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں عوام نے نہیں ارکان اسمبلی نے ووٹ ڈالنا ہے

وہ منحرف ارکان کے لئے دروازے کھلے رکھنے کی بجائے انہیں بند کرتے رہے، جلسوں میں انہیں سبق سکھانے، حلقوں میں عوام کے ذریعے حقہ پانی بند کرانے اور ان کا سوشل بائیکاٹ کرنے کی باتیں کرتے رہے جنہوں نے واپس آنا تھا وہ بھی ان سے دور ہوتے گئے۔ مثلاً انہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ جو ارکان پی ٹی آئی کو چھوڑ کر منحرف ہوئے ہیں ان کے بچوں کو کوئی رشتہ نہیں ملے گا۔ پھر یہ بھی سب نے دیکھا کہ ان ارکان اسمبلی کے گھروں پر کارکن بھجوائے گئے، لوٹے اور جوتیاں دکھائی گئیں ان سب باتوں سے کیا حاصل ہوا۔ اسے سیاست نہیں کہتے، سیاست جذبات نہیں بصیرت مانگتی ہے۔ جذباتی فیصلوں کے ہمیشہ منفی نتائج نکلتے ہیں۔ یہی تاریخ کا سبق ہے جسے بہت کم لوگ یاد رکھتے ہیں۔کپتان کے لئے آگے کوئی آسان راستہ نہیں ہے، ایک مشکل اور دشوار وکٹ ان کی منتظر ہے۔ 2018ء میں وہ ایک خواب تھے جسے لوگ دیکھ رہے تھے، ان کے پاس ایک نئے پاکستان کا نعرہ تھا۔ ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں تھیں، انہیں جہانگیر ترین جیسے لوگوں کا ساتھ اور تعاون حاصل تھا۔ ان پر ناکامی کی چھاپ بھی ہے اور آہستہ آہستہ سکینڈلز بھی سامنے آ رہے ہیں انہوں نے جانے انجانے میں جو فیصلے کئے وہ انہیں مشکلات سے دو چار کریں گے۔ توشہ خانہ والا معاملہ ہو یا فرح خان والی کہانیاں، ان میں سے بہت کچھ نکالا جا سکتا ہے۔ پھر چیئرمین تحریک انصاف کی حیثیت سے وہ پارٹی کو منظم کرنے پر توجہ نہیں دے رہے۔

تنظیم سازی کا عمل ہمیشہ سے تحریک انصاف کے لئے ایک مسئلہ رہا ہے چند با اثر گروپ اس پر حاوی ہو جاتے ہیں اور دیرینہ کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں کرنے کو کپتان کے لئے بہت کام موجود ہیں مگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو کچھ وقت مل گیا تو ان کا بیانیہ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ وہ گرم لوہے پر چوٹ لگانا چاہتے ہیں، انہوں نے انتخابات کا اعلان جلد نہ کرنے کی صورت میں اسلام آباد آنے کی کال دیدی ہے۔ وہ 2014ء کے دھرنے والی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں حالانکہ اس دھرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پوزیشن بدل گئی ہے۔ وہ اپوزیشن میں ہیں اور ان کے مخالفین اب اقتدار میں آ چکے ہیں۔ وہ اقتدار میں رہ کر بڑے بڑے جلسے کرتے تھے، تو یہ کام اب مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور حمزہ شہباز کر سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں سب سے مخالفت مول لے کر جلسے تو چمکائے جا سکتے ہیں، اقتدار کی دیوی کو مہربان نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ جس کا نام ہے، اس کی مرضی کے بغیر اقتدار کا خواب دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے دن میں تاروں کو ڈھونڈنا۔ جس طرح ٹیسٹ میچ کے بعد دو تین دن کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کپتان کو بھی سوچ بچار کے لئے کچھ وقت لینا چاہئے۔ بازی پلٹ گئی ہے تو اب اسے سیدھا کرنے کے لئے جھنجھلاہٹ یا جذباتی فیصلوں سے کام نہیں چلے گا اس کے لئے تدبر، حکمت عملی اور تحمل و برداشت کی ضرورت ہے۔ شیخ رشید احمد جیسے لوگ فساد کا بھاشن دے کر شاید کپتان کو خوش کرتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات سے قریب کی منزل بھی دور ہو جاتی ہے۔