Categories
منتخب کالم

میر جعفر اور میر صادق تو کچھ بھی نہیں : اگر تحریک انصاف والوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ۔۔۔۔۔ سینئر کالم نگار کا پی ٹی آئی قیادت کو سنجیدہ مشورہ

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار طارق امین اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کوشش ہوتی ہے جب بھی لکھوں اور جس چیز پر لکھوں ممکنہ حد تک اگر تاریخی حوالہ جات میسر ہوں تو انکا سہارا ضرور لوں لہذا اپنے اس عنوان سبحان اللہ سے استغفراللّٰہ کی زندہ تصویر کشی کیلیئے

راقم آپکو ماضی قریب کے اس دور میں لے جانا چاہے گا جب اسی عدلیہ جس پر آج ایک مخصوص ٹولے کی طرف سے طعنہ زنی کے نشتر برسائے جا رہے ہیں نے جب پانامہ لیکس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا اور کسی مخصوص شخصیت کے بارے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا تو آ ج کے اس تنقیدی ٹولے نے اْس وقت اِن جج صاحبان کیلیئے کیا کیا تعریفی اسناد جاری کی تھی اسکا ایک ایک لفظ لوح قلم کی طرح آج بھی تاریخ میں موجود ہے۔ شائد اس ٹولے کے افراد اْن الفاظ کو بھول گئے ہیں ورنہ جسطرح کی زبان آج وہ استعمال کر رہے ہیں وہ ایسی لغویات کبھی نہ بولتے۔ بات صرف اس ٹولے تک ہی محدود نہیں غیر جانبداری سے اگر دیکھیں تو دوسرا ٹولہ جو آج عدلیہ کے کردار کی عظمت کے گیت گا رہا ہے انکے اس وقت کے عدالتی فیصلے پر تنقیدی نشتر وں اور انکی طرف سے ہرزہ سائی پر ایک نظر ڈالیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی جھجک، کوئی تامل، کوئی شرم ہی نہیں رہتی کہ یہ سب کے سب منافقت کے کھیل کے کھلاڑی ہیں جنکا مذہب، ایمان، دھرم صرف اور صرف ذاتی مفاد پر مبنی فیصلوں کا حصول ہوتا ہے۔ انکی اصول پرستی پر ایک ہی کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے اور وہ ہے ‘‘ کوڑا کوڑا تھو تھو میٹھا میٹھا ہپ ہپ ’’سوچنے کی بات ہے کہ یہ بیماری اگر صرف سیاسی اشرافیہ تک ہی محدود رہتی تو شائد یہ اتنے فکر کی بات نہ ہوتی لیکن فکر کا مقام یہ ہے کہ اس وطن عزیز کے معصوم لوگوں کے آگے ایسا چورن بیجا جانے لگا ہے کہ

ان میں سے اچھے خاصے لوگوں کی سمجھ بھی اس بانجھ پن کا شکار ہونے لگی ہے کہ وہ اپنے ان اداروں پر غرانے لگے ہیں جو ریاست کے ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔ اْنکے سوچنے کی یہ صلاحیت ہی سلب ہو رہی ہے کہ خدانخواستہ یہ ستون ہی اگر کھوکھلے ہو گئے تو اس پر کھڑی عمارت کا کیا بنے گا۔ہماری بدنصیبی دیکھیئے کہ کونسا ادارہ ہے جسے ہم متنازعہ نہیں بنا رہے عدلیہ کو ہم نہیں بخشتے اور پوچھتے ہیں مجھے کیوں نکالا، من پسند فیصلہ آئے تو عدالت عالیہ اور جب مفادات پر زد پڑے تو کنگرو کورٹس، فوج کو ہم نہیں بخش رہے اور پوچھتے ہیں مجھے کس نے نکالا، اس آرمی چیف کو جسکو ہم نے خود ایکسٹینشن دی اسکے خلاف ہم نے توپوں کے منہ کھول دیے ہیں، وہ چیف الیکشن کمشنر جسکی تقرری ہم نے خود کی اسے ہم نے متنازعہ بنا دیا ہے، رہ گیا چئیرمین نیب جسکے ہم کل تک گْن گا رہے تھے شائد اگلے چند روز میں جب توشہ خانہ کیس کھلے گا تو وہ بھی ہمارے نشانے پر آ جائے۔ آئینی اداروں پر ایک نظر ڈالیں قومی اسمبلی جب تحریک انصاف حکومت میں تھی تو اپوزیشن کیلیئے ناجائز اور تحریک انصاف کیلیئے جائز، آج جب تحریک انصاف کی حکومت فارغ تو انکے لیئے اب وہی اسمبلی ناجائز اور دوسروں کیلیئے وہی اسمبلی جائز۔ یہ سب کیا ہے۔ کیا یہی حب الوطنی ہے۔ خدا راہ سب ہوش کے ناخن لیں۔ورنہ وہ دن دور نہیں جب مٹی کا رزق بن جاؤ گے اور تاریخ تمہیں ایسے بدترین الفاظ سے یاد کرے گی جنکے سامنے میر جعفر اور میر صادق کے الفاظ بھی معمولی لگیں گے۔