گھر سے باہر ولی اللہ اور گھر کے اندر چنگیز خان ۔۔۔۔ پاکپتن کے ایک رہائشی شخص کی سچی کہانی آپ کو کوئی سبق ضرور دے جائے گی

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انگریز بہادر کا دور تھا جسے ہم دورِ غلامی کا نام دیتے ہیں۔ آج پاک پتن شریف کے نام کے ساتھ لگا لاحقہ بھی شاید بدنام ہو چکا ہے یا اہلیانِ پاک پتن شرافت
و دیانت و امانت کی تمام سرحدوں کو عبور کر چکے ہیں اس لئے اب پاک پتن کو صرف پاک پتن ہی کہہ کر لکھا اور پکارا جاتا ہے…… میں سوچتا ہوں ہمارا وہ دورِ غلامی کس قدر عافیت کوش اور اطمینان بخش تھا۔ ہم نے اس دور کے سٹرٹیجک تناظر کو اپنانے کے شوق میں اپنے ٹیکٹیکل تناظر کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں نے برطانوی دورِ غلامی سے آزادی حاصل کرکے امریکی دورِ غلامی کو گلے لگا لیا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کی سوانح لکھ کر قارئین کرام کا وقت ضائع کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ میں صرف آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں نے اگست 1947ء سے پہلے برٹش ایمپائر سے آزادی حاصل کرکے اگست 1947ء کے بعد امریکن ایمپائر کا جو طوقِ اسیری گلے میں ڈال لیا ہے وہ برٹش طوق سے بھی زیادہ بوجھل اور گلو افشار ہے!…… میرے سامنے جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ آیا ہم نے کوئی شعوری کوشش کرکے اپنی آزادی کا بھی کوئی فائدہ اٹھایا ہے یا نہیں …… میرے خیال میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے…… میں اپنے بچپن کے سوانح کی طرف دوبارہ لوٹنے کا ارتکاب کرتا ہوں۔پاک پتن میں میرے ایک عزیز دوست اقامت پذیر ہیں۔ مجھ سے عمر میں پانچ سات برس چھوٹے ہیں، اس لئے مجھے ہمیشہ ”بھائی جان“ کہہ کر خطاب کرتے ہیں۔ گریجوایشن کے بعد ان کے والد کی وفات ہو گئی تو سلسلہ ء تعلیم منقطع ہو گیا۔ چھوٹے موٹے زمیندار بھی
ہیں لیکن اپنے آپ کو ”زمیندار“ کہلوانے کے حق میں نہیں۔ چونکہ ایک عرصے سے ان سے راہ و رسم ہے اس لئے گھروں میں باہمی آمد و رفت اور میل ملاپ کا بھی ایک روائتی کلچر ہے۔ لیکن جب سے میں نے پاک پتن چھوڑا ہے یہ کلچر تقریباً ختم ہو کے رہ گیا ہے۔اب موبائل فون وہ واحد ذریعہ ہے جو گئے ایام کی یادیں تازہ رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے…… میں مصلحتاً ان کا نام لکھنے سے گریز کرتا ہوں …… خدا ان کی عمر دراز کرے، پابند صوم و صلوٰۃ ہیں، پانچوں نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرنے کی عادت ہے، محلے والے ان کی نیک نامی کے قصیدہ گو ہیں، ماہِ رمضان میں خصوصی دعاؤں اور خیرات کا اہتمام کرتے ہیں اور جہاں سے گزرتے ہیں ہر کہ و مہ ان کو پہلے سلام کہنے کی کوشش کرتا ہے…… لیکن ان کا ایک دوسرا روپ بھی ہے جسے صرف وہ چند لوگ جانتے ہیں جو یا تو ان کے قریبی رشتے دار ہیں یا بچپن کے لنگوٹیا ہیں اور گھروں میں باہمی آمد و رفت کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ان کا ”دوسرا روپ“ یہ ہے کہ ان کے گھر میں ان کے ساتھ جو تین بیٹے رہائش پذیر ہیں وہ شادی شدہ ہیں اور کثیر اہل و عیال رکھتے ہیں۔ وہ اپنے والد محترم سے ہمہ وقت نالاں رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ موصوف بیٹوں کے اہل و عیال کے گھریلو معاملات میں مداخلتوں سے باز نہیں آتے۔ مغلطات سے پرہیز کرنا ناگوار سمجھتے ہیں، اپنی اہلیہ محترمہ سے گزشتہ
20برس سے ”روٹھے“ ہوئے ہیں۔ سات بچوں کی ماں سے یہ طویل رنجیدگی اور ناراضگی کس سبب سے ہے، اس کی تاویل کرنے میں موصوف اپنی چرب زبانی کا سہارا لے کر سامعین کو چپ کروانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ چار بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں شاد و آباد ہیں۔ پھر گلی میں اہلِ محلہ کی طرف سے سلام و دعا کو جس خندہ پیشانی سے قبول کرکے گھر کی دہلیز میں جونہی قدم رکھتے ہیں، ترش روئی ان کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ کوئی بیٹا، بہو، پوتا، پوتی اور اہلیہ ان سے حال احوال پوچھنے اور ان کی رائے معلوم کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتی کہ مبادا ان کی طعن و تشنیع، بدزبانی اور زشت گوئی کا سامنا کرنا پڑے۔ ایک بار ذاتی طور پر مجھے ان کا یہ ”روپ“ ملاحظہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان کو معلوم نہ تھا کہ میں ان کے ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے ان کی آمد و شد کا نظارا کر رہا ہوں اور ان کی ناقابلِ یقین طبعی کایا پلٹ کا ناظر بھی ہوں اور سامع بھی…… ان کی اہلیہ اور بیٹوں نے کئی بار اپنا دل کھول کر میرے سامنے رکھا۔ میں نے موصوف کو سمجھانے بجھانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ اپنے پَروں پر پانی ڈالنے کی اجازت کے روا دار نہ تھے۔ میں نے ان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں ان کے ”گھریلو کرتوتوں“ سے بھی چشم دید واقفیت رکھتا ہوں۔کل رات دس بجے اچانک ان کا فون آیا۔ میں شب بیداری کا پرانا مریض ہوں۔ بارہ ایک بجے رات سے پہلے
نیند نہیں آتی۔ میں نے دل میں سوچا خدا خیر کرے، ماہِ رمضان میں رات دس بجے ان کا فون آنا کسی سوگواری کا پیش خیمہ نہ ہو۔ ڈرتے ڈرتے سکرین پر انگلی دبائی تو موصوف نے نیم خوابی کے عالم میں جواب دیا: ”میں مسجد میں معتکف ہوں۔ جیب میں موبائل تھا، شائد غلطی سے پہلو بدلتے وقت آپ کے نمبر پر دباؤ آ گیا ہو گا۔ انشاء اللہ کل آپ سے تفصیلی بات کروں گا“۔آج صبح ان کا فون آیا تو میں نے عرض کیا: ”آپ نماز روزے کے پابند ہیں، تہجد گزار ہیں، اعتکاف میں ناغہ نہیں کرتے، زکوٰۃ دیتے ہیں، خلق خدا سے ہنس ہنس کر ملتے جلتے ہیں، محلے والے آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں …… لیکن اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں؟“…… ”جی، بھائی جان ضرور پوچھیئے۔“میں نے پوچھا: ”آپ گھر سے باہر ولی اللہ اور گھر کے اندر چنگیز خان کیوں ہیں؟ کیا آپ نے اپنے اہلِ خانہ سے کبھی پوچھا ہے کہ وہ آپ سے ہر وقت لرزاں و ترساں کیوں رہتے ہیں؟ اس عمر میں بھی آپ کا خوف ان کے دل و دماغ پر کیوں سوار ہے؟ یہ دو رُخی پالیسی آپ نے کیوں اپنا رکھی ہے؟ مختصر الفاظ میں جواب دیں کہ آپ کے گھر والے آپ سے خوف زدہ کیوں رہتے ہیں؟ جس ماتھے پر محراب ہو۔ اس کو اندر باہر سے یکساں نظر آنا چاہیے۔ ایسا کیوں ہے کہ باہر تو آپ سراپا شفقت و التفات ہیں اور اندر سراپا غیض و حقارت ہیں؟…… آپ کی Make میں یہ تضاد کیوں ہے؟ مجھے معلوم ہے آپ کو فارسی زبان سے بھی کچھ شغف ہے۔ یہ شعر تو آپ نے سن رکھا ہوگا:بہ طوافِ کعبہ رفتم، بہ حرم رہم نہ دادند۔۔۔تو بیرون در چہ کر دی کہ درونِ خانہ آئی؟۔۔۔]ترجمہ: میں طوافِ کعبہ کے لئے گیا۔ لیکن کسی نے بھی مجھے حرم میں جانے نہ دیا۔ پوچھا گیا کہ تونے حرم سے باہر کیا کیا ہے کہ اب حرم کے اندر آنا چاہتا ہے[۔۔یہ شعر فخر الدین عراقی کا ہے۔ اس پر کافی دیر بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ لیکن اس کا تذکرہ کسی اور نیم سوانحی کالم میں!……