لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مزمل سہروردی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔عمران خان اسلام آباد مارچ کا بار بار اعلان کر رہے ہیں۔ حالانکہ میری رائے میں وہ اگست سے پہلے مارچ نہیں کر سکتے۔ مئی، جون، جولائی کی شدید گرمی میں مارچ ممکن نہیں ہے، اس لیے انھیں بہتر موسم کا انتظار کرنا ہے۔
اگر تب تک جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی آجائے یا تب تک جوڈیشل کمیشن میں سماعت جاری ہو تو عمران خان کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عدالتیں بھی کہیں گی کہ جب ہم سن رہے ہیں تو اب مارچ کی کیا ضرورت ہے۔اور پھر اس وقت ان کا مرکزی مطالبہ بھی یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس لیے جب وہ بھی پورا ہو جائے گا تو مارچ کا جواز ختم ہو جائے گا۔ کچھ دوستوں کی رائے یہ بھی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔اگر عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے دوران کہیں حکومت پھنس گئی تو جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ استعمال ہو سکتا ہے۔اس سے عمران خان اور حکومت کے درمیان فیس سیونگ ہو سکتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومت کو عمران خان کو سیاسی فیس سیونگ دینے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے ، اس لیے میری رائے میں جوڈیشل کمیشن ابھی بننا چاہیے۔عمران خان کے اسلام آباد مارچ سے ویسے ہی نبٹنا چاہیے جیسے حکومتیں نبٹتی ہیں۔ اب دھونس کے سامنے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔عمران خان کے حامی سوشل میڈٖیا پر تو مغلطات نکال سکتے ہیں۔ لیکن سڑکوں پر ڈنڈے ، گرفتار ہونا ،لاٹھی چارج کا مقابلہ کرنا ، آنسو گیس کا سامنا کرنا ، واٹر کینن کے سامنے کھڑا ہونا ، پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ورکروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں جب عمران خان احتجا ج کے لیے نکلتے تھے تو حکومت کے ہاتھ باندھ دیے جاتے تھے کہ احتجاجیوںکے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا، چاہیے وہ پی ٹی وی کی عمارت پر ہلہ بول دیں، انھیں ہاتھ نہیں لگانا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔مکمل آزادی میں عمران خان کا دھرنا ناکام ہوا۔ اس لیے اس بار بھی مجھے کامیابی کے امکانا ت نہیں لگتے۔ اس لیے اسلام آباد مارچ کے لیے کسی ٹرمپ کارڈ کو بچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے رانا ثناء اللہ کو نبٹنے دیں۔پنجاب میں حمزہ شہباز نبٹ لیں گے۔ کے پی سے چڑھائی کی پہلے بھی عمران خان کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن درمیان میں پنجاب آتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی بات نہیں۔ لیکن جب معلوم ہے کہ عمران خان کسی احتجاج سے حکومت نہیں گر اسکتے۔ پھر بھی جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔کچھ فیصلہ سیاسی ضرورت کے تحت نہیں ملکی ضرورت کے تحت بھی کیے جاتے ہیں۔