Categories
پاکستان

خبردار!!!پاکستان میں ہیٹ ویو کی پیشگوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شدید گرمی کی لہر ہمارے جسم کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟ جانیے

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان میں رواں ہفتے کے دوران شدید گرمی کی لہر کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ہوا کے زیادہ دباؤ کے باعث ملک کے بیشتر علاقوں میں منگل 26 اپریل سے دو مئی تک درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا امکان ہے۔ ہیٹ ویو کے ممکنہ اثرات کے بارے میں محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ طویل خشک موسم کے باعث آبی ذخائر، کھڑی فصلوں، سبزیوں اور باغات کو پانی کی کمی کا خدشہ ہے۔

اس میں تجویز دی گئی ہے کہ عوام گرمی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور کسان موسمی حالات کے مطابق فصلوں کو پانی دینے کے مناسب اقدامات کریں۔ماہرین کے مطابق تھوڑے عرصے میں یہ دوسری گرمی کی لہر ہے جس سے تقریباً پورا پاکستان ہی متاثر ہو گا۔ تاہم ہر حصے میں وہاں کے معمول کی گرمی سے درجہ حرارت مزید پانچ سے سات ڈگری تک بتدریج بڑھتا رہے گا۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے وسط سے بھی پاکستان میں غیر معمولی ‘ہیٹ ویو’ آئی تھی۔ محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر خالد محمود نے بی بی سی کو بتایا کہ اس گرمی کی شدت کا زیادہ اثر 27 اپریل سے دیکھنے کو آئے گا جہاں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی درجہ حرارت 39 اور 40 سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس لہر سے سب سے زیادہ جنوبی پنجاب متاثر ہو گا جہاں درجہ حرارت 42 ڈگری سے بھی بڑھ جائے گا جبکہ لاہور میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بالائی اور وسطی سندھ، وسطی اورجنوبی پنجاب اور صوبہ بلوچستان میں دن کا درجہ حرارت چھ سے آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے جبکہ بالائی پنجاب، دارالحکومت اسلام آباد، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں دن کا درجہ حرارت پانچ سے سات ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود کے مطابق گذشتہ چار سے پانچ سال میں گرمی کی شدت اور ایسی لہروں میں اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے جس کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ ان کے مطابق گرمی کی لہر تب آتی ہے جب ہواؤں کا رخ تبدیل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر خالد کی رائے میں اس سیزن میں اس طرح کی گرمی کی لہر غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں اب یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان جس خطے میں واقع ہے یہاں موسم کے دو سسٹم فعال ہیں۔ جہاں سردیوں میں مغرب اور گرمیوں میں مشرق کی طرف سے ان ہواؤں کے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔

ڈاکٹر خالد کے مطابق اگلے مہینے سے اس طرح کی لہروں میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے گی کیونکہ ہوا کا دباؤ مغرب سے بجانب شمال ہو جائے گا۔ محکمہ موسمیات کے ڈاکٹر ظہیرالدین کے مطابق گرمی کی لہر سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے شہری غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں اور سورج کی روشنی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اُن کے مطابق پانی کا زیادہ استعمال بھی اس دوران از حد ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ظہیر نے گذشتہ مہینے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس بار مارچ کے ہی مہینے سے گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار موسم گرما کا دورانیہ طوالت اختیار کر سکتا ہے۔ شدید گرمی کے ہمارے جسم پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باعث جسم پر جلن پیدا کرنے والے نشانات بھی بن سکتے ہیں اور آپ کے پیروں میں سوزش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بدل جاتا ہے۔ ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی علامات یہ ہیں: سر چکرانا۔بے ہوش ہونا۔ الجھن کا شکار ہونا۔ متلی آنا۔ پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرنا۔ سر میں درد ہونا۔ شدید پسینہ آنا۔ تھکاوٹ محسوس کرنا۔ اگر فشارِ خون بہت زیادہ حد تک گر جائے تو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہمارا جسم یہ ردِ عمل کیوں دیتا ہے؟ چاہے ہم برفانی طوفان میں ہوں یا گرمی کی لہر میں، ہمارا جسم 37.5 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ وہ درجہ حرارت ہے جس پر ہمارے جسم نے کام کرنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن جیسے جیسے پارہ بڑھتا ہے، جسم کو اپنا بنیادی درجہ حرارت کم رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ ان حالات میں ہمارا جسم جلد کے قریب واقع شریانوں کو کھول دیتا ہے تاکہ ہمیں پسینہ آئے اور جسم کا درجہ حرارت کم ہو جائے۔ پسینہ خشک ہو کر جلد سے خارج ہونے والی گرمی کو ڈرامائی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ سننے میں یہ عمل سادہ لگ رہا ہے لیکن یہ جسم پر کافی دباؤ ڈالتا ہے یعنی جتنا زیادہ درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی جسم پر دباؤ بڑھتا ہے۔ یہ کھلی شریانیں بلڈ پریشر گھٹا دیتی ہیں اور ہمارے دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ کھلی شریانوں کے رسنے کی وجہ سے پاؤں میں سوجن اور گرمی دانوں پر خارش جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر بلڈ پریشر کافی کم ہو جائے تو جسم کے ان اعضا کو کم خون پہنچے گا جنھیں اس کی بہت ضرورت ہے اور دل کے دورے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ اگر کسی کو لو لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ اگر جسم کا درجہ حرارت آدھے گھنٹے میں کم ہو جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ برطانوی ادارہ نیشنل ہیلتھ سروس تجویز کرتا ہے کہ: • لو سے متاثرہ شخص کو ٹھنڈی جگہ منتقل کریں اسے لٹائیں اور اُس کے پاؤں کو ہلکا سا اوپر کریں • اسے زیادہ مقدار میں پانی پلائیں، یا ری ہائڈریشن ڈرنکس یا مشروبات بھی دیے جا سکتے ہیں • متاثرہ شخص کی جلد کو ٹھنڈا کریں، ٹھنڈے پانی کی مدد سے اس پر سپرے کریں اور پنکھے کی ہوا لگنے دیں۔ بغل اور گردن کے پاس آئس پیک یا برف بھی رکھی جا سکتی ہے تاہم اگر متاثرہ شخص 30 منٹ کے اندر اندر بہتر محسوس نہ کرے تو اس کا مطلب ہے ان کو ہیٹ سٹروک ہو گیا ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اور آپ کو فوراً طبّی عملے کو فون کرنا چاہیے۔ ہیٹ سٹروک کا شکار ہونے والے افراد کو گرمی لگنے کے باوجود پسینہ آنا بند ہو سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کے جسم کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونے کے بعد وہ بے ہوش ہو سکتا ہے یا دورے پڑ سکتے ہیں۔

کس کو زیادہ خطرہ ہے؟ صحت مند افراد عام سمجھ بوجھ استعمال کر کے گرمی کی لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو لو لگنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ زیادہ عمر کے لوگ یا دل کی بیماری جیسے امراض کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے گرمی کی وجہ سے جسم پر پڑنے والے دباؤ سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ذیابطیس 1 اور 2 کی وجہ سے جسم تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے اور بیماری کی وجہ سے شریانیں اور پسینہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ بات بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کہ آپ کو سمجھ ہو کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ چکا ہے اور یہ کہ اس بارے میں آپ کو کچھ کرنا چاہیے۔ ہم اس بات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن بچوں اور ذہنی امراض کے شکار افراد گرمی کی لہر کا زیادہ آسان شکار ہو سکتے ہیں۔ بے گھر افراد کو سورج کی تپش زیادہ محسوس ہو گی اور فلیٹ میں سب سے اوپر رہنے والے لوگوں کو بھی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جی ہاں! تاہم لوگوں کو معمول کے مطابق اپنی ادویات لینے کی ضرورت ہے اور اپنے جسم کے درجہ حرارت کو کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔ ڈیوریٹکس جنھیں ‘واٹر پلز’ بھی کہا جاتا ہے، جسم سے پانی کے اخراج میں اضافہ کرتی ہیں۔ انھیں دل کے عارضے میں مبتلا افراد استعمال کرتے ہیں۔ زیادہ درجہ حرارت میں ان ادویات کے باعث جسم میں پانی کی کمی اور منرلز کا توازن خراب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اینٹی ہائپرٹینسو ادویات جو فشار خون میں کمی کا باعث بنتی ہیں وہ ان خون کی نالیوں کو جوڑ دیتی ہیں جو گرمی سے مقابلہ کرنے کے لیے پھول جاتی ہیں اور فشار خون میں خطرناک حد تک کمی کی وجہ بنتی ہیں۔ مرگی اور پارکنسنز جیسی بیماریوں کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کے باعث پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے جو جسم کو ٹھنڈا کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ ادویات جسم میں لتھیئم اور سٹیٹنز بھی شامل ہوتا ہے یہ خون میں اپنی مقدار میں اضافہ کرتے ہوئے ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔ کیا گرمی سے آپ کی موت واقع ہو سکتی ہے؟ جی ہاں۔ صرف انگلینڈ میں ہر سال دو ہزار افراد زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دل کا دورہ پڑنے اور سٹروکس کے باعث ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ جسم اپنے درجہ حرارت کو نارمل رکھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ زیادہ اموات اس وقت واقع ہوتی ہیں جب درجہ حرارت 25-26 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر اموات بہار یا موسمِ گرما کے آغاز میں ہوتی ہیں نہ کہ موسم گرما کے عروج پر۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہم گرمیوں کی آمد پر اپنے روز مرہ کے رویوں میں تبدیلی لانا شروع کر دیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم گرمی برداشت کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گذشتہ ہیٹ ویوز کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں اضافہ بہت جلدی ہوتا ہے، یعنی ہیٹ ویز کے آغاز کے پہلے 24 گھنٹوں میں ہی۔ جسم کو ٹھنڈا کیسے رکھا جائے؟ اس بات کو یقینی بنائیں کے آپ زیادہ سے زیادہ پانی یا دودھ پی رہے ہیں۔ چائے اور کافی پینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ تاہم زیادہ مقدار میں شراب پینے سے اجتناب کریں کیونکہ اس سے جسم میں پانی کی اچانک کمی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اگر آپ کے گھر کے باہر گرمی گھر کے اندر گرمی سے زیادہ ہے تو یہ بہتر ہو گا کہ آپ اپنے گھر کی کھڑکیاں بند رکھیں اور پردے بند رکھیں۔